میں کیابنوں گا/مرزا مدثر نواز

شاید تیسرے درجہ میں اُردو کی کتاب میں حفیظ جالندھری کی ایک نظم پڑھی تھی جس کا عنوان تھا کہ ”میں کیا بنوں گا“ بہت ہی خوبصورت نظم ہے جس کا ایک قطعہ کچھ یوں ہے‘
؎ میں طاقت میں رستم سے بہتر بنوں گا
بہادر بنوں گا دلاور بنوں گا
میں پڑھ لکھ کے اوروں کا رہبر بنوں گا
ارسطو بنوں گا سکندر بنوں گا

ایک کم پڑھے لکھے اور متوسط خاندان، جس کی سوچ اپنے معاشی حالات کو بہتر بنانے تک محدود ہو‘سے تعلق رکھنے والے اور گاؤں کے سرکاری سکولوں میں چینی و کھل کے خالی تروڑوں (ٹاٹ)‘ سیبے کی بوریوں پر بیٹھ کر کیکر‘ شیشم‘ شہتوت‘ دھریک‘ سفیدے کے درختوں کی چھاؤں میں تعلیم حاصل کرنے والے میرے جیسے بچوں کو زندگی میں جس بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑا‘ وہ کسی بھی مرحلے پر رہنمائی کا نہ ہونا تھا۔میٹرک تک یہ پتہ ہی نہیں کہ آگے تعلیم کے کون کون سے شعبے ہیں اور میری دلچسپی کن مضامین میں ہے یعنی کوئی سمت ہی متعین نہیں۔ کن شعبوں کا میرٹ زیادہ ہے اور کن کا کم۔ یونیورسٹی‘ انجنیئرنگ‘ ڈاکٹری‘ اکاؤنٹنگ‘ کمپیوٹر سائنس‘ مقابلے کا امتحان‘ سول اسٹیبلشمنٹ وغیرہ کن بلاؤں کا نام ہے۔کسی بھی انسان میں خواہشات کا بیج بونے والے اس کے اساتذہ اور اردگرد کے لوگ ہوتے ہیں۔ دانا لوگ یہ کہتے ہیں کہ انسان کی زندگی کا ایک لازمی مقصد ہونا چاہیے بصورت دیگر زندگی بے کار ہے۔ہر مسافر کی ایک منزل ہے اور بغیر منزل کے سفر آوارہ گردی کہلاتا ہے۔عظیم لوگوں کے عظیم مقاصد ہوتے ہیں جنہیں حاصل کرنے کے لیے وہ سامنے آنے والی ہررکاوٹ سے ٹکرا جاتے ہیں۔

انسان کے لیے اس کا فیصلہ نہایت ضروری ہے کہ وہ کیا ہو گا اور کیا کرے گا۔ جب انسان بچپن کی حالت میں ہوتا ہے اور اس بات کا خود فیصلہ کرنے کے لائق نہیں ہوتا تو اس کے نگہبانوں کا فرض ہے کہ وہ خود اس کے لیے اس کا فیصلہ کریں اور جب وہ خود اس امر کے فیصلے کے لائق ہو تو اس کو اختیار ہوگا کہ خواہ اسی فیصلے کو بحال رکھے یا منسوخ کر کے خود اس کا فیصلہ کرے۔ ایک اہل پیشہ کا لڑکا ابتدائی عمر سے اس کا فیصلہ کر لیتا ہے کہ میں وہی ہوں گا جو میرا باپ ہے اور وہی کروں گا جو میرا باپ کرتا ہے۔ ایک طالبعلم جو ابتدائی تعلیم شروع کرتا ہے جب تک وہ اس کا فیصلہ نہ کرے کہ میں کیا ہوں گا اور کیا کروں گااس وقت تک اس کو تعلیم میں بھی کبھی کامیابی نہیں ہوتی۔ بہت سے طالبعلم کسی قسم کی تعلیم شروع کرتے ہیں اور پھر اس سے گھبرا کر چھوڑ دیتے ہیں‘ اس کا سبب یہی ہوتا ہے کہ انہوں نے اس بات کا فیصلہ نہیں کیا کہ وہ کیا ہوں گے اور کیا کریں گے اور اسی وجہ سے ان میں پکا ارادہ پیدا نہیں ہوا جو تمام مشکلات کا آسان کرنے والا اور ہر ایک مواقع پر غالب آنے والا ہے۔

دنیا میں بہت بڑے بڑے خدا پرست گزرے ہیں جنہوں نے اپنا عیش و آرام‘ جان و مال اپنی سمجھ میں خدا کے لیے صَرف کیا ہے۔ دنیا میں بہت بڑے بڑے عالم گزرے ہیں جن سے دنیا نے بے انتہا فائدہ حاصل کیا ہے۔ دنیا میں بہت بڑے بڑے رفارمر گزرے ہیں جنہوں نے اپنی قوم کی بھلائی و اصلاح میں اپنی جانوں کو بھی ضائع کیا ہے۔ دنیا میں عبداللہ بن سبا‘ حسن بن صباح‘ حجاج بن یوسف‘ ہلاکو خان‘ تیمور لنگ جیسے بے رحم اور قاتل سفاک غارت گر گزرے ہیں جنہوں نے ایسے ایسے بے رحم کام کیے ہیں جن کو سن کر انسان حیران رہ جاتا ہے مگر ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جس نے یہ فیصلہ نہ کر لیا ہو کہ میں کیا ہوں گا اور کیا کروں گا۔ پس خوش نصیبی‘ بھلائی‘ خوش بختی حاصل کرنی چاہو یا بد بختی‘ سب کی جڑ اسی امر کا فیصلہ کر لینا ہے کہ میں کیا ہوں گا اور کیا کروں گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

انسان جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اسے مختلف حالتوں کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ کبھی وہ یہ سوچتا ہے کہ یہ کام کرے کبھی خیال کرتا ہے کہ نہ کرے۔ جب وہ اس کی خوبیوں کو ذہن میں لاتا ہے تو اس کے کرنے کاارادہ کرتا ہے اور جب اس کی مشکلات پرخیال کرتا ہے تو ڈگمگا جاتا ہے اور قوت فیصلہ نہ ہونے سے اس کے اختیار کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ نہیں کرسکتا۔ سب سے زیادہ مشکل اس کو اس وقت پیش آتی ہے جب وہ اس گروہ کی جس میں وہ ہے‘ کسی رسم و رواج کی برائی پر مطلع ہوتا ہے اور اس کو ترک کرنا یا تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ ادھر تو اس کے دل میں اس رسم و رواج کی برائی کے خیالات پیدا ہوتے ہیں اور ادھر اپنے لوگوں کی لعن و طعن اور دوستوں کی ہنسی اور اغیار کی دل لگی اور اپنے حالات کو نقل محفل ہونے اور نا مہذب افراد  کی مضحکہ خیز تشبیہہ  اور بد مزاجوں کی گالیوں کے خیال سے اس کا دل گھبرا جاتا ہے اور قوت فیصلہ کی کمزوری سے اپنے لیے کچھ فیصلہ نہیں کرسکتا اور وہ نہیں جانتا کہ میں کیا ہوں گا اور کیا کروں گا۔ آخر میں اپنی قوم کے نوجوانوں سے یہی گزارش ہے کہ وہ اس بات کا فیصلہ کر لیں کہ وہ کیا ہوں گے اور کیا کریں گے کیونکہ اس کے بغیرکامیابی نا ممکن ہے۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”میں کیابنوں گا/مرزا مدثر نواز

Leave a Reply