لاک ڈاؤن کی بےوقوفی۔۔ذیشان نور خلجی

نام تو اس کا محمد رفیق ہے، لوگ اسے لیکن فیقا پھیری والا کہتے ہیں۔ ظاہری سی بات ہے پیار سے تو نہیں کہتے ہوں گے بلکہ اس کی حیثیت اسے رفیق سے فیقا پہ لے آئی ہے۔
یہ بازار میں سائیکل پر پھیری لگاتا ہے اور بنیان جرابیں فروخت کر کے اپنا اور بچوں کا پیٹ پالتا ہے۔ جس دن بکری اچھی ہو جائے اس دن سبزی کے ساتھ کوئی پھل بھی گھر لے جاتا ہے۔ اور جس دن موسم خراب ہو یا کوئی ایسی مجبوری آ جائے کہ پھیری سے چھٹی ہو جائے تو پھر پیاز پر ہی گزارا کرنا پڑتا ہے۔
کرونا وائرس کی وجہ سے جب لاک ڈاؤن لگا تو یہ بھی دو ماہ گھر پر ہی بیٹھا رہا۔ اس دوران اس کا گزارہ کیسے ہوا؟ اسے حکومت کی طرف سے بارہ ہزار ملے تھے؟ جس کے چرچے کرتے وزیراعظم نہ تھکتے تھے۔ یا خان صاحب کی ٹائیگر فورس نے اس کے گھر راشن ڈال دیا تھا؟ جس کی مد میں قوم سے اربوں روپے اینٹھے گئے۔
دوستو ! آپ کو بھی پتا ہے کہ ایسا کچھ نہیں تھا۔ یہ سرگرمیاں صرف میڈیا تک ہی محدود رہیں یا معدودے چند لوگ ہی اس سے مستفید ہو پائے۔ سو لاک ڈاؤن لگنے کے تھوڑے عرصے بعد ہی فیقے نے اپنی سائیکل اونے پونے بیچ دی۔ جس سے چند دن تک اس کا چولہا جلتا رہا۔ بعد میں جب نوبت فاقوں تک پہنچ گئی تو دو ایک رشتہ داروں اور خیر خواہوں سے کچھ قرض لے لیا یوں اس کا گزر بسر ہوتا رہا۔ پھر جب لاک ڈاؤن اٹھا لیا گیا تب بھی اس کے حالات کچھ خاص نہ بدلے۔ بلکہ کھینچ تان کے صرف چولہا ہی جلتا رہا۔ جب کہ دوسری طرف اب قرض خواہ بھی اس کی راہیں تک رہے تھے۔ کورونا وائرس تھا نا، لاک ڈاؤن نے تمام دنیا کو ہی مندے میں دھکیل دیا تھا، سو قرض خواہ بھی اپنی جگہ سچے تھے۔ خیر، فیقے نے ان سے وعدہ کر لیا کہ اس دفعہ عید لگا کے جو بھی پیسے بنیں گے سب آپ کی جھولی میں ڈالوں گا۔
اور اب ہوا یہ ہے کہ جیسے ہی عید قریب آئی ہے شروع دن سے اوچھے پن کا شکار ہماری حکومت نے ثابت کر دیا ہے آپ لاکھ ہم سے اچھی امیدیں باندھیں لیکن ہم کبھی آپ کی امیدوں پر پورا نہیں اتریں گے۔ یہ وہی حکومت ہے جس نے لاک ڈاؤن لگانے کو اشرافیہ کا فیصلہ کہا تھا۔ ان سے پوچھنا تھا کیا اب بھی لاک ڈاؤن اشرافیہ نے ہی لگایا ہے؟ چھوٹی عید پر جب کہ لاک ڈاؤن کی ضرورت تھی تو اسے اٹھا لیا گیا تا کہ کورونا کو کھل کھیلنے کا موقع مل جائے۔ اور اس عید پہ جب کہ کورونا وائرس خود شرم سار ہو کر ہماری جان قریب قریب چھوڑ ہی چکا ہے تو اب ہم باز نہیں آ رہے۔
فیقا کہنے لگا باؤ جی ! ہم غریب لوگ ہیں۔ سارا سال بڑی عید کا انتظار کرتے ہیں کہ کسی صاحب استطاعت کے گھر سے قربانی کا گوشت آ جائے گا تو ہم بھی ایک آدھ بوٹی کھا لیں گے۔ لیکن اب حکومت نے جو اقدام کیا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے اس دفعہ ہماری عید پیاز کھا کر ہی گزرے گی۔
میں نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ وہ کہنے لگا تاجر پیشہ حضرات کی دوکانیں بھی بند ہیں تو جب عید کے موقع پر ان کی کمائی نہ ہو سکے گی تو وہ لوگ کیوں کر قربانی کریں گے۔ میں سوچنے لگا، یہ فیقا ان پڑھ تو ہے لیکن جاہل نہیں شاید اسی لئے اتنی سیانی اور دور اندیشی کی باتیں کرتا ہے۔ جب کہ ہمارے ارباب اختیار ان پڑھ تو نہیں ہے لیکن شاید۔۔۔
مگر اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔ حکومت آج بھی اس فیصلے پر یوٹرن لے لے تو بہت سے فیقوں کے آنسو پونچھے جا سکتے ہیں۔ لیکن بات وہی ہے کہ ہماری حکومت ان پڑھ تو نہیں لیکن کیا وہ جاہل بھی نہیں؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply