خواجہ سراؤں کی رسم چٹائی اور دلہن/ عثمان انجم زوجان

زوجان ہیجڑوں/خواجہ سراؤں کے کلچر کی شاخیں برصغیر پاک و ہند دِلی کے ’’سجان خاندان‘‘ کے ہیجڑوں/خواجہ سراؤں سے جا کر ٹکراتی ہیں، جنہوں نے ہیجڑا کلچر کو نا  صرف برصغیر بلکہ اس کے مختلف حصوں سمیت پنجاب تک پھیلا کر فروغ دینے میں بہت اہم کردار ادا کیا، پاکستان میں یہ ہیجڑا کلچر اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ اس وقت آیا، جب برصغیر کے ہیجڑوں/ خواجہ سراؤں نے تقسیمِ ہند کے بعد اپنے آبائی گھروں، محلّوں، علاقوں اور شہروں کو چھوڑ کر پاکستان ہجرت کر کے یہاں مقیم ہونے پر مجبور ہوئے۔

تاریخ فیروز شاہی میں اس ہیجڑا کلچر کے کچھ اثرات علاؤ الدین خلجی اور فیروز شاہ تغلق کے دور میں بھی نظر آتے ہیں، علاؤالدین خلجی کے بعد قریباً ایک سال تک ہیجڑوں نے ہی دِلی کی سلطنت پر حکومت کی، جس کا تذکرہ تاریخ فرشتہ میں اور موجودہ دور میں مولانا سمیع الحق نے بھی کیا، علاؤ الدین خلجی کے دور تک کئی ہیجڑے/ خواجہ سرا سلطنت ہند میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے، جیسا کہ شاہی فوجی عہدیدار، شاہی شاعر، شاہی ماہرین تعمیر اور شاہی مشیر، اِسی دور میں ملک کافور اور ببرک شاہ جیسے ہیجڑے تھے جو فوجی کمانڈر اور بنگال کے فرمانروا تھے۔

ہم مناجات میں الجھے ہیں رسومات کے لوگ
اور دم سادھ کے بیٹھے ہیں روایات کے لوگ

علی اعجاز سحر

ہر کلچر میں رسم و رواج ہوتے ہیں، جو وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں، رسم و رواج کا بدلنا ایک فطری امر ہے لیکن ہمارا سب سے بڑا مسئلہ   کلچر میں موجود رسم و رواج کا مطالعہ نہ کرنا اور اس کی خوبیوں اور خامیوں پر تبصرہ نہ کر نا ہی ہے، کچھ رسم و رواج انتہائی قابلِ ذکر اور دوسروں کے لیے تقلیدی ہوا کرتی ہیں ، ہیجڑا کلچر کی ایسی ہی ایک رسم جیسے رسم چٹائی کہا جاتا ہے، آپ نے کبھی سوچا کہ آپ لوگ زوجان/ ہیجڑوں/خواجہ سراؤں کی نجی زندگیوں سے کیوں نابلد ہیں؟

چٹائی ہیجڑا کلچر کی عدالتی طور پر بنائی گئی ایک قدیم رسم ہے، جو ایک قانون کا درجہ رکھتی ہے، اس رسم چٹائی میں جب ہیجڑا/خواجہ سرا بلوغت کو پہنچ جاتا ہے تو وہ اپنے لیے ایک ”گُرو“ کو نامزد کر کے بھرے مجمعے میں یہ اقرار کرتا ہے کہ آج کے بعد میں اس گُرو کا چیلہ ہوں اور وہ ”گُرو“ بھی اس بات کا اقرار کرتا ہے کے میں اس کا ”گُرو“ ہوں اور اسکی کفالت آج سے میرے ذمے ہے، اور ”گُرو“ کو نامزد کرنے کی بنیاد یہ ہوتی ہے کہ آج کے بعد گُرو چیلے زندگی کے تمام نشیب و فراز اور اُتار و چڑھاؤ میں برابر کا شریک ہوگا، جیسے والدین اپنی اولاد کے لیے ہوتے ویسے ہی ہیجڑوں کی دنیا میں ”گُرو“ والدین کا کردار نبھاتا ہے۔

اس موقع پر چیلے کو ”گُرو“ دلہن کی طرح سجاتا ہے اور اس کے سر پر ایک خاص قسم کا دوپٹہ ڈالتا ہے، یہ دوپٹہ بلکل ویسا ہوتا، جیسا خاص دلہن کے جیسا دوپٹہ بنایا جاتا ہے، اور اس دوپٹے کے چاروں طرف ایک خاص قسم گوٹا لگا ہوتا ہے!

زوجان/ہیجڑوں/ خواجہ سراؤں کے چار بڑے خاندان ہوتے ہیں:

1- چاندنی
2- ماہ بتی
3- رونا
4-مرضی

ان خاندانوں میں جو ’چودھری‘ یعنی بڑے ہوتے ہیں، وہ اس رسم میں اپنے چیلوں پر دوپٹہ ڈالتے ہیں، دوپٹہ ڈالنے کی رسم کے بعد مٹھائیاں تقسیم کی جاتیں ہیں اور تحفے تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے، اس رسم چٹائی میں ڈھولک ضرور ہوتا ہے، ڈھولک پر ”گُرو“ ناچ گانا اور چھمک/ رقص کرتے ہوئے خوشیاں مناتا ہے کہ آج اسکے ڈیرے پر ایک نئے فرد یعنی چیلے کا اضافہ ہوا ہے، اس رسم کے تحت ڈیرے والے نئے چیلے کو سلامی دیتی ہے، جیسے ہمارے ہاں شادیوں پر دی جاتی ہے، اس رسم کو اسی طرح منایا جاتا ہے، جیسے معاشرے کے باقی لوگ شادی کی رسمیں مناتے ہیں، چونکہ ہیجڑوں کی شادیاں تو ہوتیں نہیں، اس لیے وہ اس رسم کو شادی کی طرح منا کر اپنی خوشیوں کا سامان مہیا کر لیتے ہیں۔

اسکے بعد اس نئے چیلے کی تربیت کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس میں گرو اس کو ہاتھوں اور پاؤں کے انداز، قدم اُٹھانا، گھنگرو بجانا، گردن ہلانا اور تھاپ پر ہلنا سکھاتا ہے، تربیت کے بعد چیلا اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی ٹولی کے ساتھ جا کر ناچے اور پیسے کمائے۔

پرانے وقتوں میں یہ رسم ایک چٹائی پر بیٹھ کر کی جاتی تھی، جسکی وجہ سے اسکا نام چٹائی پڑا، اب اگر کچھ عرصے بعد گرو اور چیلے کے درمیان اختلافات پیدا ہو جائیں اور وہ کسی دوسرے گرو کو نامزد کرنا چاہیں تو اسی عدالتی رسم چٹائی کے تحت گرو چیلے کو اور چیلہ گرو کو چھوڑنے کا حق بھی رکھتا ہے، چیلے کو اپنے پہلے گرو کو وہ رقم ادا کرنا پڑتی ہے، جو اسکی کفالت پر خرچ ہوئی، اگر چیلہ استطاعت نہیں رکھتا تو وہ رقم دوسرے گرو کو ادا کرنی پڑے گی اور چیلہ اس نئے گرو کی کفالت میں آ جاتا ہے!

اگر کسی ڈیرے کا ”گرو“ مر جائے تو اس کی جگہ نئے گرو کا چناؤ  ہوتا ہے، نامزد گرو کے سر پر پانی ڈالا جاتا ہے، یہ بلکل ایسے ہی ہوتا ہے جیسے کسی کے سر پر پکڑی باندھ دی جاتی ہے، سر پر پانی ڈالنے کی رسم بلتستان میں بھی پائی جاتی ہے، جہاں عزیز و اقارب مرنے والے کے بیوی بچوں کے سر پر پانی ڈالتے ہیں، اور یہ رسم عام طور پر قل شریف کے دن ہوتی ہے جبکہ چالیسویں کے دن نئے گرو کی رسم تاج پوشی کی جاتی ہے، اس طرح نیا گرو ڈیرے کی ذمہ داریاں سنبھال لیتا ہے!

زندگی موت تیرے ہاتھ میں ہے
”گُرو“ کو دی چِٹائی چیلے نے

علی اعجاز سحر

ٹوبہ ٹیک سنگھ کی ڈیرے دار فیضی ماں نے اس رسم چٹائی کو بڑی خوبصورتی سے بیان کرتیں ہیں:

1- خواجہ سراؤں کی ایک خاص رسم جس میں چیلہ اپنے گرو کو منتخب کرتا ہے، جب وہ کسی گرو کا چیلہ ہوتا ہے تو اسے کچھ رقم اپنے گرو کے ہاتھ میں پکڑا دیتا ہے، اور اس رقم کے چار حصے کر کے زنانوں کے چار خاندانوں میں بانٹ دیے جاتے ہیں، یہ رقم طے شدہ ہوتی ہے اور چاروں خاندانوں کے بڑے بیٹھ کر طے کرتے ہیں، اج کل یہ رقم 125 روپے ہے، اس رقم کو بھی چٹائی کہا جاتا ہے۔

2- چٹائی لفظ سے جُڑی ایک رسم آپ کے علم میں لائی جاچکی ہے، زمانہ قدیم میں خواجہ سراؤں کے ہاں لفظ ”چٹائی“ ہاتھ سے بنے ہوئے مختصر دبیز کپڑے کیلئے مستعمل تھا، یہ دبیز کپڑا نسل درنسل منتقل ہوتا رہتا ہے، اس پر بیٹھ کر خواجہ سرا ہمیشہ سچ بولتے ہیں، جب ان کے ہاں کسی بات پر اختلاف ہوتا ہے، تو اسی کپڑے کو لایا جاتا ہے، اور جن خواجہ سراؤں کے مابین تنازعہ ہوتا ہے وہ اس پر بیٹھ کر معاملے کی حقانیت سے پردہ اُٹھاتے ہیں، اس کپڑے پر بیٹھتے وقت خواجہ سراؤں کا انداز انتہائی مودبانہ ہوتا ہے اور اس طرح خواجہ سراؤں کے مسائل احسن طریقے سے حل ہوجاتے ہیں، بعض خواجہ سراؤں کے پاس ایسی”چٹائیاں“ بھی موجود ہیں، جن کے بارے کہا جاتا ہےکہ یہ مغل دور یا اس کے کچھ بعد سے چلی آرہی ہیں!

3- خواجہ سراؤں میں یہ لفظ مختف معنوں میں مستعمل ہے، لیکن میں آپ کو سب سے پرانے معانی بتانے جارہی ہوں، ہاتھ سے بنا ہوا مختصر سا دبیز کپڑا، جو بہت کم خواجہ سراؤں کے پاس موجود ہے، یہ نسل در نسل چلتا جاتا ہے، حال ہی میں میرا جانا خواجہ سراؤں کی ایک پنچائت میں ہوا تو یہ کپڑا نکالا گیا، اس پر آٹھ دس لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی، کم از کم اڈھائی سو سال پرانی یہ دری نما کپڑا جب بچھایا گیا تو سب نے اسے ہاتھ لگا کے اپنے ماتھے کو لگایا، اور جن خواجہ سراؤں کا مسئلہ تھا، وہ اس پر بڑے ادب سے بیٹھے، اور بڑے بہترین طریقے سے اس پیوند لگے بوسیدہ کپڑے پر بیٹھ کر فیصلہ کیا گیا، اس چٹائی پر بیٹھ کر کوئی خواجہ سرا جھوٹ نہی بولتا، اور بڑی متانت سے اپنا مدعا بیان کرتا ہے اور سنتا بھی ہے، اور دوسرے سننے والے خواجہ سرا حق سچ کا فیصلہ کرتے ہیں، جو فریقین کو منظور ہوتا ہے، خواہ اس میں کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو، میں بتاتی چلوں کہ آج کل یہ لفظ چٹائی خواجہ سراوں میں مختلف معنوں میں مستعمل ہے، مگر روایت کو ساتھ لے کر چلنے والے خواجہ سرا اس چٹائی کا بڑا احترام کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بڑے بڑے فیصلے ہمارے بزرگوں نے اسی چٹائی پر بیٹھ کر حل کیے۔

گرو مافیا کا ہیجڑا کلچر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، جس کا ذکر میں نے کیا تھا، وہ کچھ اور بات تھی، بہر حال میں اپنے تھیسز میں اس رسم کا ذکر بھی کیا ہے، اور بطور محقق میں نے وہاں اپنی راے نہیں دی، بس اس رسم کی آسان الفاظ میں تعریف بیان کر دی ہے۔

فیضی ماں کی تحریر کردہ اس رسم چٹائی پر علی زریون نے تبصرہ دیا کہ یہ درست ہے، چٹائی کی روایت واقعی بہت پرانی ہے، ہمارے مُحلے میں ایک خواجہ سرا ہوتے تھے، باؤ جی کہتے تھے سب انہیں، اُن کا تعلق دلی سے تھا، ہجرت کر کے آئے تھے، انہیں اتنے اشعار یاد تھے کہ بات بات پر شعر سناتے تھے ، اُن کے یہاں ایک بار ایسا کچھ معاملہ ہوا تھا تو بالکل اسی طرح فیصلہ کیا گیا تھا، یہ کافی پرانی بات ہے، اب ہمارے مُحلے میں کوئی خواجہ سرا نہیں رہتا، ایک پوری تہذیب تھی جو اُن کی وفات کے بعد ختم ہو گئی۔

یہاں میں یہ بھی بتاتی چلوں کہ کچھ کھسروں میں یہ رسم نتھ پہنائی یا با نہہ  پکڑائی کے طور پر جانی جاتی ہے، جس میں گرو چیلے کے نام میں نتھ ڈالتا ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے کہ اب گرو ہی اس کا سب کچھ ہے، اس کی اپنی کوئی مرضی نہیں رہتی، جو گرو چاہے گا، وہی کرئے گا، اگرچہ اس میں اس کا نقصان ہی کیوں نہ ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

افادات از عثمان انجم زوجان، فیاض اللہ فیضی ٹوبہ ٹیک سنگھ، علی زریون، اعجاز علی سحر، سمیع اللہ خان، نایاب علی، وسیم شہزاد، کوثر شیخ، عبد الشکور، سید عدیل شاہ

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply