سیکولر ریاست سے ہندو انتہاپسند ریاست تک/اظہر علی

اگلے ہفتے دنیا کے سب سے بڑے عام انتخابات (ڈیوریشن وائز) انڈیا میں شروع ہورہے ہیں۔ مضبوط قیاس آرائی ہورہی ہے کہ بی جے پی تیسری دفعہ اقتدار میں آنے کے لیے بالکل تیار ہے۔ مودی نے انفورسمنٹ ڈائریکٹریٹ کے ذریعے اپوزیشن رہنماؤں پر کریک ڈاؤن جاری کیا ہے۔ مودی مطلق العنانیت کا جیتا جاگتا روپ دکھائی دے رہا ہے۔
دہائیوں قبل بی جے پی نے اپنے منشور میں تین بڑے منصوبوں کا عندیہ دیا تھا جس میں بابری مسجد کو رام مندر میں بدلنا، کشمیر کی خود مختاریت کو ختم کرنا اور مذہبی اقلیتوں کے شادی بیاہ اور رسم و رواج کو ختم کرکے ہندو رسموں کے مطابق کرنا تھا۔ دو اہداف کا حصول تو پہلے ہوچکا اور تیسرے ہدف کے حصول کے لیے پچھلے مہینے اترکھنڈ کی ریاست میں یو سی سی (uniform civil code) کو بطور بل پیش کیا۔ بی جے پی لیڈران کا کہنا تھا کہ یہ بل دراصل مسلماناور عیسائیوں کے پرسنل لاءز کو ماڈرنائز کرنے کی ایک کوشش تھی۔
1920 کی دہائی میں برطانوی حکومت نے ہندو نیشنلسٹ لیڈر ونایک ساورکر کو لوگوں کو انگریز حکومت کے خلاف بھڑکانے کے جرم میں تقریباً ایک دہائی تک قید رکھا مگر 1924 میں انگریز حکومت کے فرمانبردار ہونے پر رضامندی ظاہر کرکے قید سے رہا ہوئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ساورکر ایتھیسٹ تھا مگر ہندو نیشنلزم میں اتنا راسخ العقیدہ تھا کہ مسلمان اور عیسائیوں کا اس سرزمین سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی یہ دھرتی ان کے لیے مقدس ہے اسی لیے انہیں یہاں سے نکلنا ہوگا۔ ہندوتوا کا نام بھی پہلی دفعہ اس کی قلم سے جاری ہوا تھا۔
ساورکر کی تبلیغ کا اثر ہائی کاسٹ ہندوؤں پر ہوا اور 1925 میں آر ایس ایس کی بنیاد رکھی گئی۔ اس تنظیم کی بنیاد ساورکر کے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ہوئی۔ RSS سمجھتی تھی کہ انڈیا پر صرف اور صرف ہندوؤں کا حق ہے اور مسلمان اور عیسائیوں کے لیے اس ہندوستان کی سرزمین پر رہنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ RSS کے ایک رہنما، کیشَو بالی رام، نے یہ تک کہہ دیا کہ مسلمان یوانا (غیر مقامی) سانپ ہے جو ہمیں ڈس رہے ہیں۔
1930 میں بالی رام کے جانشین نے اٹلی کے سفر کے لیے گول واکر کو بھیجا کہ وہ مسولینی سے ملے اور تنظیم میں آرٹ آف کیڈر بلڈنگ کو سیکھ کر ہندوستان آئے۔ گول واکر جب واپس آئے تو وہ تعلیمی، ادارتی اور اقلیتی برادریوں پر یورپی فاشسٹ خیالات کے چلتے پھرتے مثال تھے۔ اپنے تحاریر میں گول واکر نے کہا تھا کہ انڈیا کو جرمنی سے سیکھنا چاہیے کہ وہ کیسے اپنے اقلیتوں کو کنٹرول کررہا ہے۔ مودی نے گول واکر کو اپنے کسی تقریر میں اپنا آئیڈیل کہا تھا۔
آزادی کے جدو جہد میں آر ایس ایس پوری طرح شامل نہیں تھی کیونکہ ان کا زیادہ تر توجہ انگریزوں کی بجائے ہندوستان میں رہنے والے اقلیتوں کی طرف تھا۔ 1948 میں گاندھی کو سرعام قتل بھی آر ایس ایس کے کارندے نے کیا تھا۔ یہ ایک سبب تھا جس کے ذریعے آر ایس ایس کی رہنماؤں کو قانون سازی کے عمل میں شامل نہیں کیا گیا۔ گول واکر نے انڈیا کے قانون کے بارے میں یہ الفاظ لکھے تھے:
It is just a cumbersome and heterogeneous piecing together of various articles from various Constitutions of Western countries۔ It has absolutely nothing which can be called our own۔
1951 میں اس گروپ نے سیاست میں داخلہ لیا۔ بی جے پی کا نقیب جان سنگھ کی بنیاد ڈالی اور پارلیمنٹ میں نشستیں حاصل کیں۔ پارلیمنٹ، بیوروکریسی اور یونیورسٹی کے اعلیٰ منصبوں پر براجمان ہوئے۔ آر ایس ایس نے کبھی بھی اپنے عزائم کو نہیں چھپایا مگر امریکی ادیب Czeslaw Milosz اس کو ketmen کہہ کر پکارتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے عوامی طور پر سیکولر انڈیا کی حمایت کی مگر اپنے سچے عزائم کو ہمیشہ چھپایا ہے۔
1977 تک وہ مختلف رائٹ اور لفٹ وِنگ پارٹیز کے ساتھ الیکشن لڑتے رہے اور سٹیٹ لیول کے پارٹیوں کے ساتھ پاؤر شئیر کرتے رہے۔ 1977 میں پہلی دفعہ کانگریس کے شکست کے ساتھ جان سَنگھ متنوع اتحادیوں کے ساتھ پاؤر شئیرنگ کرتی ہے۔ مگر جلد ہی یہ اتحاد ٹوٹ جاتا ہے اور جان سَنگھ بربادی کے دہانے پر پہنچ جاتی ہے۔ 1980 میں آر ایس ایس ایک نئے سیاسی ونگ کی بنیاد ” بی جے پی“ کے نام پر رکھتی ہے جو 1998 میں اٹل بِھاری واجپائی کی قیادت میں اقتدار میں آتی ہے اور آر ایس ایس کے چاہتوں کے برعکس انڈین دستور کے مطابق کاروبار حکومت سنبھالنے کی کوشش کرتی ہے۔
مودی کے جذبے اور آر ایس ایس آئیڈیالوجی کے ساتھ مضبوط بندھن اور وفاداری کو دیکھتے ہوئے 2001 میں گجرات کے چیف منسٹر کے لیے نامزد کیا جاتا ہے۔ مودی حکومت کے زیر نگرانی 800 مسلمانوں کو مختلف دنگوں میں مارا جاتا ہے۔ اپنے نظریے سے اس قدر وفاداری کے سبب مودی کو قومی افق پر اتارا جاتا ہے اور 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد انڈین سماج میں سیکنڈ کلاس سٹیٹس دیتا ہے۔ بدنام زمانہ شہریت کا بل بھی پیش کیا جاتا ہے اور حیرت انگیز طور پر اسے پاس بھی کیا جاتا ہے۔
اگلے ہفتے ہونے والے الیکشن میں آر ایس ایس اور بی جے پی ساورکر کے خواب کو حقیقت میں بدلنے والے ہیں۔ 2019 میں مجوزہ شہریوں کے قومی رجسٹر کو لاگو کیا جائے گا اور حکومتی ورژن کے مطابق undocumented immigrants کو واپس ان کے ممالک بھیج دیا جائے گا مگر حقیقت میں نیو دہلی مسلمان اور عیسائیوں کو بھارت سے باہر نکال پھینکے گی۔ یو سی سی جیسے بلز اس بات کے گواہ ہیں کہ بی جے پی صرف یہاں تک نہیں رکے گی بلکہ بھارت کو مکمل ہندو ریاست بنانے کے ہر وہ ممکن کوشش کرے گی جو وہ کرسکتی ہے یہاں تک کہ قانون میں ترامیم کیوں نہ کرنے پڑیں۔ سیکولر ریاست سے ہندو انتہا پسند ریاست بننے میں اور ایک سو چالیس کروڑ لوگوں کی تقدیر بدلنے میں تقریباً صرف دو مہینوں کا فاصلہ ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply