شفیق بٹ صاحب کہیں خود پیر ہی نہ بن جائیں/محمود اصغر چوہدری

یہ پنجاب یونیورسٹی میں ہماری پہلی کلاس تھی ۔ ایک پروفیسر صاحب کلاس میں داخل ہوئے ہم سب احتراماً کھڑے ہوگئے ۔ پروفیسر صاحب فرمانے لگے کہ ایک گزارش ہے کہ آج کے بعد میں جب بھی کلاس میں داخل ہوں تو آپ میں سے کوئی بھی کھڑا نہیں ہوگا کیونکہ فرمان نبوی ﷺ ہے کہ جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ لوگ اس کے لیے کھڑے ہوں تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔اور میں اپنا ٹھکانہ جہنم نہیں بنانا چاہتا ۔

ہم نے بحث کی جناب یہ فرمان عالیشان توان لوگوں کیلئے ہے  جو خود یہ پسند کرتے ہیں کہ ان کے احترام میں کھڑا ہوا جائے ۔ ہم تو آپ کو تعظیم دیں گے وہ کہنے لگے اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ آپ کایہ تعظیم دینا میرے نفس امارہ کو تسکین نہیں دے گا؟ اور یہ تعظیم کب میری پسند میں بدل جائے اور کیاضمانت ہے کہ جب کوئی طالبعلم ایسی تعظیم نہیں دے گا تووہ مجھے بُرا لگنا نہیں شروع ہوجائے گا۔؟ آپ اگر میری تعظیم کرنا ہی چاہتے ہیں تو میری دی گئی تعلیم پر توجہ دیں ۔

پروفیسر صاحب یہ بات کہہ رہے تھے تو ہم اپنے لڑکپن میں پہنچ گئے جب گاؤں میں ایک پیر صاحب آتے تھے لوگ تعظیماً ان کے سامنے کھڑے ہوجاتے اور مصافحے کے وقت ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے ۔ ہمیں یہ غلامانہ پریکٹس اچھی نہیں لگتی تھی ۔ ہم نے اس کا اظہار ایم ناصر سے کیا جو اُن دنوں کالج میں پڑھتا تھا تو اس نے ہمیں ایک طریقہ بتایا وہ کہنے لگا کہ جب مصافحہ کرنے لگو تو پیرصاحب کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں کےحصار میں لے لینا ۔تو اس طرح تمہارے دونوں انگوٹھے اوپر ہوجائیں گے اس طرح بوسہ دیتے وقت تم اپنے ہی ہاتھوں کے انگوٹھوں کو چوم لینا۔ پیر صاحب اور دیکھنے والے یہی سمجھیں گے کہ ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا ہے ۔اس کی اس کاریگری پر ہم سب نے ملکر ایک زور دار قہقہہ لگایا لیکن ہم نے ایم ناصر کے اس فقہی اجتہاد کی بھی پیروی نہیں کی کیونکہ ہمیں اندازہ تھا کہ جب ہم پیر صاحب کےہاتھوں پر بوسہ کے فراڈ سے بھی جھکیں گے تو ہماری کمر میں خم آئےگا اور ہمیں تو ہمارے دین نے یہی سکھایا ہے کہ یہ سر صرف اللہ کی ذات کے سامنے جھکنا چاہیے یہ کمر کا خم تو صرف نماز میں رکوع کے وقت ہی نظر آناچاہیے ۔

خیر جب اگلی دفعہ پیر صاحب تشریف لائے تو مریدین لائین میں لگ کر دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرتے ہوئے جھک کران کے ہاتھوں کو بوسہ دے رہے تھے۔وہ اس خواہش میں تھے کہ پیر صاحب کی نظر کرم ان پر پڑ  جائے ۔ پیر صاحب البتہ ان سب باتوں، رسموں رواجوں سے بے نیاز یاد خدا میں مستغرق تھے ان کی نظریں زمین میں گڑی ہوئی تھیں ۔ وہ کسی کی جانب نگاہ التفات نہیں ڈال رہے تھے ۔ لائین میں جب میری باری آئی تو میں نے مصافحہ تو کیا لیکن بوسہ دینے یا جھکنے کا تکلف نہیں کیا ۔پیر صاحب نے پہلی دفعہ اپنی نگاہ ناز اٹھائی اور میرے چہرے کی طرف غور سے دیکھا۔میں سمجھ گیا کہ یقیناً وہ نظر کرم نہیں تھی ۔ عمر بھر خلش رہی کہ یہ کام صحیح کیا ہے یا نہیں لیکن جب تیس سال بعد برطانوی پارلیمنٹ میں ملکہ کے آنے پر سب کو جھکتے دیکھا اور جیرمی کوربن کو سیدھا کھڑے دیکھا تو یقین آیا کہ میں اکیلا سر پھرا نہیں اس دنیا میں اور بھی ہیں میرے جیسے جو انسان کے سامنے تعظیم کے نام پر جھکنے کو بھی غلط سمجھتے ہیں۔

بہرحال میں یونیورسٹی کے ان پروفیسر صاحب سے متفق ضرور ہوں کہ استادوں کے احترام کا سب سے بہترین طریقہ ان کی تعلیمات پر عمل کی کوشش ہے ۔ چھوٹے بچوں کو سکول کے زمانے سے زبردستی کھڑا کرنے کا اصول جوانی آنے تک انہیں ویل ٹرینڈ غلام ضرور بنا دیتا ہے ۔ اسی لئے وہ شاید کبھی سوال ہی نہیں کر پاتے اور سوال تو علم سیکھنے کی پہلی شرط ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سوال نہیں کرتے ۔ ہماری کسی بھی کانفرنس میں آخر میں سوال و جواب کا سلسلہ نہیں ہوتا ۔ ادب ، احترام اور محبت کے نام پر ہم شخصیت پرستی کی ساری حدیں عبور کرجاتے ہیں۔

محترم دوست شفیق بٹ صاحب اٹلی سے بلاگر ہیں وہ آجکل شخصیت پرستی کے خلاف بہت کچھ لکھ رہے ہیں ۔ اور بہت سی باتوں کی نشاندہی کر رہے ہیں لیکن اس نشاندہی کے بدلے میں انہیں کافی مخالفتیں مل رہی ہیں ۔ ظاہر ہے جب کسی پیروکار کے دلوں میں بسے اس کے  بتوں کو ٹھیس پہنچے گی تو وہ ضرور تلملائے گا ۔ کچھ شخصیت پرست قلمکار میدان میں طعن و تشنیع کا قلم اٹھائے منظر عام پر آئے ہیں اور کھسیانی بلی کی طرح کھمبا  نوچنے کی پریکٹس میں ہیں لیکن بٹ صاحب کو سمجھاؤں گا کہ احتیاط کریں آپ تو ایک سٹیپ آگے چلے گئے ہیں محبت کے نام پر ہمارے دلوں میں مذہبی راہنما تو ایک طرف سیاسی راہنماؤں کی غلامی اس قدر داخل ہوچکی ہیں کہ ایسی ویڈیوز شیئر ہو رہی ہیں جن میں عید کے متبرک موقع پر چھوٹے چھوٹے بچوں کو قیدیوں والے لباس پہنا دئیے ہیں اور ایسی ویڈیوز سامنے آرہے ہیں کہ ایک باریش جوان ایک سیاسی لیڈر سے منسوب جوتوں کو بوسہ دے رہا ہے ۔ ۔۔ فلم او مائی گاڈ کا ایک تاریخی جملہ ہے کہ لوگوں سے ان کا بھگوان مت چھینو ورنہ وہ تمہیں اپنا بھگوان بنا لیں گے ۔ ۔ اس کیس میں بھی ایسا  ہی ہوا ہے ایک لیڈر نے غلامی سے آزادی کا نعرہ لگایا تھا لوگوں نے اب اسی کی غلامی اپنا لی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بٹ صاحب دھیان دیں آپ پیروں کے خلاف اتنا لکھ رہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ آپ کو ہی اپنا پیر نہ بنا لیں ۔

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply