بے وجہ ایک پوسٹ۔۔سلیم مرزا

مجھے عرفان خاں پسند ہے اور آغا سہیل کو رشی کپور ۔
دونوں چلے گئے، دونوں اچھے انسان تھے ۔آغاصاحب نے آج پوسٹ لگائی کہ ان کا موسٹ فیورٹ رشی کپور فوت ہوگیا۔
چنانچہ یہ پوسٹ سراسر آغاصاحب سے جنگ کرنے کیلئے لکھی گئی ہے ۔مجھے امید ہے مجھے دل ہی دل میں گالیاں دیں گے کیونکہ انہوں نے مجھے کہا تھا کہ “چاول کی فصل کاشت کیلئے تیار ہے اگر کنسٹرکشن کی اجازت ہےتو واٹر پمپ بنانے والے کارخانے کیوں بند ہیں ۔پانی کے بغیر چاول کی کاشت ممکن نہیں ،لہذا مہربانی فرما کر، اس پہ لکھیں ۔”
لیکن وہ مرزا ہی کیا جو کوئی اچھا کام کرے، لہذا میں رشی کپور پہ لکھوں گا ۔اور ویسے بھی ایک خوشخبری ملی تھی،فردوس عاشق اعوان کو عہدے سے ہٹادیا گیا ۔ ابھی ٹھیک طرح سے خوش بھی نہ ہوئے کہ عرفان خان چلتا بنا ۔

عرفان خان میرے پسندیدہ اداکاروں میں سے ایک تھا ۔اس نے ہر رنگ اور ہر کردار میں خود کو بڑا فنکار ثابت کیا ۔اداکاری کرنا اور مشہور ہونا ایک اور بات ہے ۔اپنے آپ کو بڑا فنکار ثابت کرنا دوسری بات ہے ۔ہمارے ندیم صاحب بہت اچھے ایکٹر نہیں ہیں ۔مگر انہوں نے انڈسٹری کو بہترین فلمیں دی ہیں ۔یہ واحد پاکستانی اداکار ہے جس کی تمام فلمیں انڈیا نے کاپی کی ہیں ۔
انڈین فلم انڈسٹری کبھی بھی میوزک اور فلم میکنگ میں پاکستانی فلم انڈسٹری کے مد مقابل نہیں رہی ۔انڈیا کی اب تک صرف “بلیک” آسکر  کیلئے نامزد ہوئی ہے مگر پاکستانی فلم انڈسٹری کی چھ فلموں کو یہ اعزاز حاصل ہوا۔

Advertisements
julia rana solicitors

بات ہورہی تھی اداکاری اور کردار نگاری کی ،عرفان خاں کردار میں اور کردار عرفان میں ایسے رچ جاتے کہ سمجھ نہیں آتی تھی کہ فلم کہاں ہے؟
سٹالون سلویسٹر اور سلطان راہی
دونوں کو خبط تھا کہ ان کے اردگردموجود لوگ اور باذوق فلم بین انہیں ایک کمرشل ایکشن ایکٹر سے زیادہ ایک بہترین فنکار بھی مانیں ۔سلویسٹر اسٹالون نے اس سلسلے میں “اوور دی ٹاپ “اور “سٹاپ مائی مام ویل ناٹ شوٹ “جیسی فلموں میں اداکاری کے بہترین جوہر دکھائے ۔دونوں فلمیں احساسات اور تاثرات پہ مبنی تھیں ۔جس میں سلویسٹ نے ڈوب کر اداکاری کی
مگر اس کے چاہنے والوں نے دونوں کو ہی مسترد کردیا ۔
سلطان راہی مرحوم کی ایکٹنگ کے لحاظ سے سب سے شاندار فلم “طوفان “تھی ۔جس میں اس نے خود کو اداکاری کو بلندیوں تک پہنچایا ۔
لیکن اس کا دوسرا شو بھی کسی نے نہیں دیکھا ۔حالانکہ “طوفان “روس اور کنیر کے فلمی میلوں میں جھنڈے گاڑتی پھری۔
رشی کپور بھی عرفان صدیقی کے ساتھ ہی چل دئے ۔یہ کل فوت ہوئے،
یہ بہترین کمرشل اداکار تھے ۔انڈسٹری ان کے گھر کی تھی ۔کپور فیملی موقعے اور حالات کے مطابق ایک آدھ ایکٹر لانچ کرتی رہتی ہے ۔جب تک کرشمہ چلتی رہی کرینہ لانچ نہیں کی ۔جیسے ہی کرشمہ کی مارکیٹ ریٹنگ کم ہوئی کرینہ کو لانچ کردیا ۔
رشی کپور کی آمد راج کپور کی “بوبی “میں ہوئی ۔ڈمپل کپاڈیہ اور رشی کو اس دور کے لحاظ سے تھوڑا آگے جاکر گلیمر بنانے کیلئے کمرے میں بند کرکے چابی گم کر دی گئی ۔
کیونکہ راج کپور کو دو نفسیاتی پرابلمز تھیں،ایک اپنی فلموں میں خواتین کو ننگا کرنا اور دوسرا خود کو چارلی چیپلن سمجھنا، اس احساس کمتری کو راج کپور نے چارلی چیپلن کی آپ بیتی پہ فلم “میرا نام جوکر “بنا کر خوب اجاگر کیا ۔وہ چلتا بھی چارلی چیپلن کے انداز میں تھا،چنانچہ جولی فلم کریلے گوشت سے فل مزین تھی ۔بہترین گانے اور شاندار طبقاتی لو اسٹوری ۔
درمیان میں ہلکا سا مذہب کا ٹچ بھی تھا ۔
کپورے ہندوستانی انڈسٹری کے مزاج آشنا ہیں ۔
فلم ہٹ ہوئی ۔پھر رشی کپور کی بریکیں فیل ہوگئیں ۔
بہترین  ہٹ کمرشل فلمیں اس کی شناخت تھیں ۔
مگر برا ہو ان دوسرے ایکٹروں کا، جب بھی مقابلتاً ایکٹنگ کا مرحلہ آتا ،بیچارے کو کھڈے لائین لگا دیتے ۔
رشی کپور کو پہلا جھٹکا “ساگر “فلم میں لگا ۔دو ہیرو ایک ہیروئن۔۔ محبتی مثلث
رشی نے اپنا من پسند کردار چنا ۔بمبئی کی بجائے ساؤتھ سے کمل ھاسن کو امپورٹ کیا گیا ۔فلم ہٹ ہوئی اور کمل ہاسن کی دھوم مچ گئی
فلم میں کمل ہا سن کا ایک ڈائیلاگ اور اس کی ادائیگی ہی پوری فلم پہ بھاری تھی جب ڈمپل اسے کہتی ہے
“تم انسان نہیں دیوتا ہو ”
تووہ کہتا ہے
“کبھی کبھی انسان بننا بہت مشکل ہوجاتا ہے، آدمی کو دیوتا بننا پڑتا ہے ”
اس کے بعد رشی کپور کو دوسرا جھٹکا شاہ رخ خاں نے دیا ۔یہ ایک ٹی وی ایکٹر تھا ۔ہیما مالنی کی سفارش پہ اسے “دیوانہ “فلم میں رشی کے مقابل ہیرو لیا گیا۔ “دیوانہ” ایک لو اسٹوری تھی ۔دیویا بھارتی بھی اس میں نیا چہرہ تھی ۔
اس فلم میں بھی شاہ رخ خاں نے فلم بینوں کو اپنے علاوہ کسی کو کچھ دیکھنے ہی نہیں دیا ۔
اور بالی وڈ انڈسٹری پہ یوں چھایا کہ جان ہی نہیں چھوڑ رہا ۔
اب رشی کپور محتاط ہوگیا تھا ۔
وہ مثلثی فلموں سے بچتا تھا ۔مگر قسمت ۔۔۔۔۔۔۔
راجکمار سنتوشی کو میناکشی سے محبت تھی ۔اس نے “گھائل ” کےبعدمیناکشی کی سیلف پروجیکشن کیلئے “دامنی” فلم لکھوائی ۔جس کی ساری کہانی ہیروئین کے گرد گھومتی تھی
یہ وہی راجکمار سنتوشی ہے جس نے “گھاتک ” میں میناکشی سے ناراضگی کی وجہ سے ممتا کلکرنی کو کاسٹ کیا تھا اور ایک گانا “کوئی جائے تو لے آئے “بھی فلما لیا تھا ۔ پھر میناکشی سے صلح کے بعد اس بیچاری کو فلم سے باہر کر دیا ۔
ہاں تو بات ہورہی تھی “دامنی “کی۔۔۔
اس میں رشی کپور کے مقابل سنی دیول کو چھوٹا سا وکیل کا رول دیا گیا ۔سنی دیول بھی فنکار نہیں موروثی کمرشل ایکٹر ہے ۔مگر نجانے کیا ہوا ۔اس کی ایکٹنگ کی حس جاگ گئی اور رشی کپور کی بجائے اس فلم کو بھی سنی اور میناکشی لے اڑے ۔
لکھنے کو تو اور بھی بہت کچھ ہے مگر آغا جی کیلئے اتنا ہی کافی ہے کیونکہ آج ان کا پسندیدہ اداکار فوت ہوگیا ہے اور مرنے والوں کی برائی نہیں کرتے ۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply