اور میں نم دیدہ نم دیدہ (25)-ابوبکر قدوسی

مقام خندق سے نکلے تو ہمارے رہبر عبدالعلیم نے اعلان کیا کہ اب ہم کعب بن اشرف کے قلعے کے کھنڈرات دیکھنے جا رہے ہیں ۔ دیکھا جائے تو مسجد فتح اور فتح مبین کے مناظر دیکھ کر کعب بن اشرف کا قلعہ دیکھنا ہی بنتا تھا کہ سلسلہ ہائے فتوحات کا تسلسل رہے ۔

ہوا کچھ یوں تھا کہ برسوں پہلے آسمان سے اترنے والی تختیوں میں یہ خبر لکھی گئی کہ اس سلسلہ ہائے انبیاء کا اختتام کھجوروں والی سرزمین پر ہوگا جہاں نخلستانوں کے جھنڈ ہیں اور جھنڈوں کے بیچ میں محبتوں کے بہتے جھرنے خبر دیتے ہیں کہ وہ دس ہزار قدوسیوں کے جھرمٹ میں آئے گا ۔ کتاب مقدس میں لکھا ہے کہ وہ آخری نبی ہوگا ۔ آل یعقوب یعنی بنی اسحاق میں انبیاء کا سلسلہ دراز صدیوں سے چل رہا تھا اور چلتا ہی چلا آ رہا تھا ۔ بنی اسحاق پہ ہزاروں ابتلائے آئیں کبھی کوئی آ کے ان کی آبادیوں کو برباد کر گیا ، کبھی کسی نے غلام بنایا ، کبھی بخت نصر آیا اور سب کو ہانک کے بابل کو لے گیا ۔ اس سے پہلے فرعون کی صدیوں غلامی کرتے رہے ۔ اب تھک چکے تھے اور امید تھی کہ یہ آخری نجات دہندہ آئے گا اور پھر دنیا میں ازل تک ان کا عروج رہے گا ۔
سو کتنے ہی قبیلے ان نخلستانوں میں اٹھ آئے ۔ اب اس بات پہ ذرا غور کیجئے کہ یہ وہ لوگ تھے جو اولاد اسحاق میں انتہائی متقی ، پرہیزگار ، اپنی مذہبی کتابوں میں کی گئی پیشین گوئیوں پر مکمل اور کامل ایمان رکھنے والے تھے ۔ جن کے دل میں کوئی تشکیک نہ تھی ۔ یہی سبب تھا کہ وہ ہزاروں میل دور صحراؤں کو عبور کرتے یثرب میں آ کر ٹھہرے ۔ہر دین و مذہب میں یہ وہ طبقہ ہوتا ہے کہ جو دین کی بنیادی تعلیمات پر سختی سے کار بند ہوتا ہے لیکن یہاں سب کچھ عجیب ہو گیا
ہم تو سمجھے تھے کہ برسات میں برسے گی شراب
آئی برسات ، تو برسات نے دل توڑ دیا

یہ سب یہاں آ کر بیٹھے تھے کہ آخری پیام بر اس علاقے میں آئے گا تو ضرور لیکن یہ جیسے طے کئے ہوئے تھے کہ آخری نبی بھی بنی اسحاق میں ہی آئے گا ۔۔۔ اصل میں صدیوں سے ان کے ہاں انبیاء کی آمد کا سلسلہ یوں چلا آ رہا تھا کہ ان کو جیسے اب ” عادت ” سی ہو گئی تھی ، کچھ وہ خود کو سب سے اعلیٰ و ارفع سمجھتے تھے ۔ لیکن آخری نبی بنی اسماعیل میں چلے آئے ۔ جو ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہو گیا ۔ان کے علماء کو آپ کی آمد کی خبر ہوئی تو ان کے دل ٹوٹ گئے ۔ اس کیفیت کا منظر ام المومنین سیدہ صفیہ بنت حی بن اخطب کی زبان سے بیان ہوا کہ جب رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم یثرب میں تشریف لائے تو ان کے والد آپ سے ملنے گئے ۔ وآپس آئے تو رنگ اڑا ہوا تھا اور شدید ترین پریشانی چہرے سے ظاہر تھی ۔

کیسا عجیب معاملہ کہ نسلیں گزر گئیں اس علاقے میں انتظار کرتے اور جب معلوم ہوا کہ نبی  tw  آ گئے ہیں تو خوشی کی بجائے غم کے بادل چھا گئے ۔۔۔محض اس سبب سے وہ ان کے اجداد کی نسل سے نہ آئے تھے ۔۔ بدبختی کی انتہا تھی ۔

سیرتِ ابنِ ہشام میں روایت ہے کہ ، سیدہ صفیہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ میرے والد حیی بن اخطب اور چچا ابو یاسر صبح کے وقت رسول محترم ﷺ کی خدمت میں پہنچ کر اسلام کے بارے میں مذاکرات کرتے ہیں۔ انہیں یقین ہوگیا کہ حقیقتاً آپ نبی آخر الزماں ﷺ ہیں۔ جب آپ سے گفتگو کے بعد مغرب کے وقت واپس آئے تو نہایت تھکے ماندے دکھائی دے رہے تھے۔
چچا ابو یاسر میرے والد سے پوچھتے ہیں :
أَھُوَ ھُوَ ؟ ” کیا یہی وہ نبی ہے جس کا تذکرہ تورات وانجیل میں پایا جاتا ہے ؟ “
والد : کیوں نہیں یہ وہی رسول ہے۔
ابو یاسر : أَتَعْرِفُہٗ وَتُثَبِّتُہٗ ؟ ” کیا واقعی تو اسے پہچانتا ہے ؟ “
والد : ہاں میں اچھی طرح پہچانتا ہوں۔
ابویاسر : فَمَافِیْ نَفْسِکَ مِنْہُ ؟ ” پھر آپ کا کیا ارادہ ہے ؟ “
والد : عَدَاوَۃٌ وَاللّٰہِ مَابَقِیْتُ ” کہ اللہ کی قسم ! جب تک زندہ ہوں عداوت کا اظہار کرتا رہوں گا “۔

اس ایک روایت سے آپ اچھے طریقے سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہودی کیسے بدبخت تھے کہ سینکڑوں سال سے اس علاقے میں آخری نبی کے استقبال واسطے بیٹھے ہوئے تھے اور محض اس سبب اس آخری نبی کے ساتھ مستقل دشمنی اور عداوت والا رشتہ قائم کر لیا کہ وہ ان کی نسل سے نہ تھے۔

کچھ ہی دیر میں مدینے کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے ہم کھجوروں کے ایک جھنڈ سے آگے کھنڈرات کے بیچ میں کھڑے تھے یہ کعب بن اشرف کا قلعہ تھا جس کے محض اب کھنڈرات باقی ہیں ۔ چند ایک دیواریں وہ بھی قد آدم ۔ بیشتر گر چکی ہیں اور زمین سے مشکل سے ایک آدھ فٹ بلند باقیات موجود ہیں ۔ اس تمام علاقے کو انتظامیہ نے لوہے کی تاروں سے ” مقید ” کر رکھا ہے ۔ یقیناً اپنے وقت میں یہ بلند و بالا رہا ہوگا لیکن اب زمانے کی گردشوں نے اس کو زمین کے برابر کر دیا ہے کھنڈرات کے پیچھے کھجوروں کا کوئی باغ تھا اور بائیں طرف ایک پرانا مکان ، ویرانی یہاں پر ٹپک رہی تھی اور تاریخ کے فیصلہ کن موڑ پر نا درست فیصلے کرنے والوں کا نوحہ پڑھ رہی تھی ۔

کعب بن اشرف ایک مالدار یہودی سردار تھا اور صرف مالدار ہی نہ تھا بلکہ اعلی درجے کا شاعر بھی تھا اس سبب عرب بھر میں اس کے اثرات گہرے تھے۔ کعب بن اشرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض اور عداوت میں حد سے بڑھا ہوا تھا ۔ جب قریش کو بدر میں شکست ہوئی تو اس کو ایسا صدمہ ہوا کہ مکہ جا پہنچا قریش کے مقتولوں کے مرثیے پڑھے ۔ خود بھی رویا ان کو بھی رلایا اور پھر قریش کے سردار سیدنا ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ کو ہاتھ پکڑ کے بیت اللہ میں لے گیا ۔ بیت اللہ میں کھڑے ہو کر اس نے عداوت و بغض پر حلف اٹھایا اور ان سے بھی حلف لیا کہ ” مدینے میں مسلمانوں کو ختم  کر کے ہی سکھ کا سانس لینا ہے ”

دوسری طرف انصار اور مدینہ کی یہودیوں کا آپس میں امن کا اور مدینے کے تحفظ کا معاہدہ تھا ۔ اس معاہدے کی موجودگی میں کعب بن اشرف کی یہ سرگرمیاں ہرگز قابل برداشت نہ تھیں۔ لیکن معاملہ ادھر تک ہی نہ رکا کعب نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازشیں شروع کر دیں ۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اجازت دی کہ اس کے ساتھ جو معاملہ کرنا ہے کر دیجئے کہ جس کا یہ مستحق تھا ۔ سو سیدنا ابو سلمہ اس کے قلعے میں گھس گئے اور رات کے اندھیرے میں اس کو قتل کیا اور واپس لوٹ آئے اور یوں کعب محض تاریخ کا ایک مغضوب حصہ بن کے رہ گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply