جغرافیہ کے قیدی (19) ۔ امریکہ ۔ ابتدا/وہاراامباکر

جب یورپی سترہویں صدی میں امریکہ پہنچ کر آباد ہونے لگے تو جلد ہی احساس ہو گیا کہ یہاں کا مشرقی ساحل قدرتی بندرگاہوں اور زرخیز زمین سے بھرپور ہے  اور جن علاقوں سے یہ آئے تھے، ان سے بہت مختلف ہے۔ اپنے مقامی وطنوں کے بادشاہوں اور جاگیرداروں کے جبر سے آزاد اپنی دنیا بسا سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس وجہ سے یہ یورپ کے رہنے والوں کیلئے پُرکشش رہا اور آنے والوں کے جانشینوں نے یہاں پر ان سے پہلے بسنے والے مقامی لوگوں سے ان کی آزادی چھین لی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابتدا میں 13  کالونیاں آباد ہوئیں۔ ان میں سے آخری جارجیا تھی جو 1732 میں قائم ہوئی۔ یہ سب اپنی جگہ پر آزاد تھیں۔ اور یہ امریکہ کی انقلابی جنگ (1775 سے 1783) تک۔ رہا۔ اس وقت تک آبادی پچیس لاکھ ہو چکی تھی۔شمال سے جنوب تک ایک ہزار میل تک پھیل چکی تھیں جبکہ مغرب میں اپالاچی کے پہاڑوں تک ہی گئی تھیں۔ اس سے آگے جانے میں دو رکاوٹیں تھیں۔
ایک تو پہاڑ تھے جو 1500 میل لمبے تھے۔ یہ بہت بلند نہیں تھے لیکن آگے بڑھے میں رکاوٹ تھے۔ دوسری رکاوٹ سیاسی تھی۔ برطانیہ کی حکومت نے ان پہاڑوں کے مغرب میں آبادی سے منع کر دیا تھا۔ اس کی ایک وجہ برطانوی مفاد تھا۔ برطانوی سلطنت یہ یقینی بنانا چاہتی تھی کہ تجارت اور ٹیکس مشرق کی طرف ہی رہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکہ کا اعلانِ آزادی 1776 کو ہوا۔ اور اس کے نتیجے میں ہونے والی جنگ کے بعد اس نئے ملک کی پیدائش ہوئی۔
انیسویں صدی کے آغاز تک اس نئے ملک کی قیادت کو زیادہ علم نہیں تھا کہ یہ مغرب کی طرف سمندر سے ہزاروں میل دور تھی۔ چند مہم جو، مقامی امریکیوں کے راستے استعمال کرتے ہوئے مسسپی تک پہنچے تھے۔
اس وقت تک کی نوزائیدہ متحدہ امریکی ریاست غیرمحفوظ تھی۔ مسسپی کا مغربی کنارہ فرانسیسیوں کے پاس تھا اور نیو اورلینز کے شہر تک تھا۔ اور یہ فرانس کو خلیج میکسیکو سے ہونے والی تجارت کا کنٹرول دیتا تھا۔ اور یہاں سے مغرب تک پھیلی ہوئی وسیع و عریض زمین کا بھی۔
امریکی صدر تھامس جیفرسن نے 1802 میں کہا کہ “اس دنیا کے نقشے پر ایک جگہ ہے جہاں پر جس کا بھی قبضہ ہو، وہ ہمارا قدرتی اور مستقل دشمن ہو گا۔ یہ جگہ نیو اورلینز ہے”۔
فرانس سے اس مستقل دشمنی کا حل 1803 میں غیرمعمولی طریقے سے کر لیا گیا۔ یہ جنگ کے ذریعے نہیں کیا گیا بلکہ امریکہ نے یہ پوری زمین فرانس سے قیمتاً خرید لی۔ یہ لوزیانا معاہدہ تھا اور خریدی گئی زمین کا رقبہ آج کے سپین، اٹلی، فرانس، برطانیہ اور جرمنی کو ملا کر بننے والے رقبے جتنا تھا۔ اس کے ساتھ مسسپی کا طاس بھی آ گیا اور یہاں سے امریکی پاور کا بہاؤ بھی شروع ہوا۔
اس کی قیمت ڈیڑھ کروڑ ڈالر مقرر ہوئی اور قلت کی ایک جنبش نے ملک کا رقبہ دگنا کر دیا اور اسے دنیا کے بہترین پانی کی ٹرانسپورٹ کا راستہ بھی دے دیا۔ اس طاس میں جتنا دریائی سفر کا راستہ ہے، وہ باقی تمام دنیا کے راستوں کو جمع بھی کر دیں تو ان سے زیادہ ہے۔ دنیا میں کسی بھی اور جگہ اتنی دور تک میدانوں میں اتنا زیادہ اور اتنی شاخوں میں پانی نہیں بہتا۔ اور اس کی اپنی لمبائی 1800 میل ہے۔ یہ تجارت کا قدرتی راستہ ہے جو کہ بندرگاہ تک پہنچتا ہے۔ یہ سڑک کے ذریعے سفر اور تجارت کے مقابلے میں کئی گنا سستا ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply