میں تو چلی چین/شی آن، شاہراہ ریشم اور مسلم کواٹر (قسط12-ب) -سلمیٰ اعوان

شی آن میں اسلامی تاریخ کے ڈانڈے تھانگ Tang سلطنت کے زمانے سے ہی جڑتے ہیں۔پہلی تعمیر تھانگ Tangدور میں ہوئی ۔تھوڑے بہت اضافے آنے والے دورمیں بھی ہوئے ۔ہاں البتہ منگ سلطنت کے زمانے میں اس کی وسعت اور حسن و خوبصورتی کو بہت بڑھاوا ملا۔
اور یہ مسلمان تاجر ہی تھے اِن علاقوں میں اسلام پھیلانے والے ،سچے، کھرے،ناپ تول اور قول و فعل میں سونے جیسے خالص۔ اسی شاہراہ ریشم پر چل کر آتے جاتے تھے۔اور یہی دور تھا جب مسلمانوں نے یہاں پکے پیر بسنا شروع کیا۔ان کا ایک قبیلہ ہئی Huiبہت مشہور ہوا۔مقامی عورتوں کے ساتھ بیاہ رچانے اور اپنے دین کے ساتھ مسلسل جڑے رہنے کے ساتھ مقامی آبادی کا حصّہ بنتے گئے۔سونگ اور یوآن Yuanحکمران بھی ظرف والے تھے ۔انہوں نے تعمیر میں بھی حصّہ ڈالا اور اسے نکھار بھی دیا۔
اور جب وضو کے لیئے جگہ ڈوھنڈی جارہی تھی ۔میں نے ایک پریشان حال خاتون کو دیکھا جو جائے وضو کی تلاش میں سرگرداں تھی۔آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھاما اور پوچھا؟شکر ہے اُسے انگریزی آتی تھی۔تنزانیہ سے تھی۔ابھی گو مگو میں ہی تھی کہ ایک اور معمر خاتون حجاب میں لپٹی قریب آئی اور میرا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹنے لگی۔
ہکابکا سی میں اُسے دیکھتے ہوئے اس کے ساتھ جیسے خود کو گھیسٹنے لگی کہ وہ تو جیسے ہوا کے گھوڑے پر سوار تھی۔تیسرے صحن سے دوسرے پہلے اور پھر وہ ہم ماں بیٹی کو داخلی دروازے سے گزار کر باہر گلی میں لے آئی۔ حیران پریشان سی میں رک گئی۔
اس نے میرے چہرے پر پھیلے تشویش بھرے اضطراب کو محسوس کرتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو کانوں کے پاس لے جا کر نماز کی تمثیلی صورت کا اشارہ دیا۔یہ مناسب سی کشادگی والی گلی تھی جو مسلم علاقے کی نمائندگی کرتی تھی کہ صفائی ستھرائی کا حال خاصا پتلا تھا۔دستی ریڑھیاں ، ایک دو چنگ چی اور رکشے جیسی سواری بھی نظر آئی۔مکان سہ اور چہار منزلہ ضرور تھے مگر تناسب اور حسن کی کمی کاشکار تھے۔سڑک پر چلتے پھرتے لوگ بھی بس ماٹھے سے ہی نظر آئے تھے۔
میرا ہاتھ ابھی بھی اُس مہربان سی دکھنے والی خاتون کے ہاتھ میں تھا۔وہ گلی مڑی۔
بمشکل پانچ مرلہ کے ایک دو منزلہ گھر میں داخل ہوئی۔اندر روح کی گہرائیوں میں اُتر جانے والا ایک مسحور کن منظر تھا۔یہ خواتین کی مسجد تھی۔نیچے کا حصّہ وضو کے لیئے تھا جہاں کتنے ہی اجنبی چہرے ماربل کی سلیب پر بیٹھے وضو کرتے تھے ۔من مو ہنی سی لڑکیاں پاؤں میں موزے پہن رہی تھیں۔ایک ہاتھوں میں کولڈ کریم لگا رہی تھی۔برآمدے میں جتنی عورتیں تھیں انہوں نے ہمیں دیکھتے ہی پیار بھری مسکراہٹ ہونٹوں پر بکھیر کر ہم انجان سر زمین کے ہم ملت باسیوں کو خوش آمدید کہا۔ہم نے کوٹ اُتارے۔وضو کیا۔ایک پیاری سی لڑکی نے تولیہ پیش کیا ۔دوسری نے کریم دی۔اوپر سیڑھیاں چڑھے۔سامنے مُو مُو کو بھگوتا ایک اور ایمان آفروز منظر تھا۔
کمرے میں کوئی پچیس تیس کے لگ بھگ عورتیں ہوں گی۔ہر عمر اور سائز کی۔ چند نماز کی اقامت و سجدہ کی حالتوں میں ۔کچھ ذکر میں مشغول تھیں۔ انہوں نے میٹھی سی مسکان آنکھوں اور چہروں پر بکھیر کر پذیرائی کی۔
پیٹرزبرگ کی نیلی مسجد یاد آئی تھی۔ملتا جلتا ہی منظر تھا۔‘‘اللہ اکبر’’ کہہ کر ہم وحدانیت کے اُس دھارے میں شامل ہوگئے جو وہاں بہہ رہا تھا۔سپردگی اور کیف کی مستی تھی جو انگ انگ میں دوڑ رہی تھی۔آنسوؤں کی یلغار تھی جو گالوں پر بہہ رہی تھی۔ممتا اگر بچوں کی سلامتی کے لیے دعاگو تھی تو حب الوطنی وطن کی زبوں حالی پرشکوہ و گریاں کناں تھی۔
بات چیت کا کوئی ماحول نہیں تھا کہ زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم والی بات تھی۔انہیں غیروں کی زبان سے رتی برابر آشنائی نہ تھی ۔بس مسکراہٹیں تھیں یا آنکھوں سے پھوٹتے کچھ پیار بھرے پیغام۔ درود کی محفل سجی تو شامل ہوئے۔
عمران کا فون تھا پُوچھ رہا تھا۔ہم کہاں ہیں؟مسجد کے مرکزی دروازے پر آنے کا کہا۔جب رخصت ہو کر سڑک پر آئے ۔تو دھوپ بس ‘‘خدا حافظ کل ملیں گے یہیں’’ ،کہہ رہی تھی۔
‘‘ارے کہاں میری جان کل تو جانے تم کن کن کو اپنی طلائی کرنوں میں نہلا رہی ہوگی اور ہم جانے کہاں ہوں گے۔’’
سوچا ہائے مغرب بھی پڑھ لیتے۔وہاں کھڑکیوں پر اتنے دبیز پردے تھے اور موبائل پر وقت دیکھنے کا مجھ اوندھی کو خیال ہی نہیں آیا۔
بہرحال چلو خیر اِس اجنبی سرزمین پر اُسے سجدہ تو کیا نا ۔مگر کیسی نا شکری عورت ہوں۔ پل نہ لگا اندر سے میری الٹی پلٹی منطقی دلیلوں والی فطرت نے تردید بھی کردی۔
‘‘بھئی مسجد ضرور تھی مگر چوبارہ تھا۔ماتھا زمین پر تو ٹکا نہیں ۔’’
اِس سے پہلے کہ میرا شکی ذہن اِس بحث مباحثے کی لڑائی میں کودتا ۔میں نے فوراً کہا۔
‘‘ لعنت ہے تم پر۔دل کو دیکھو اس نے سجدہ دیا۔آنکھوں سے پوچھو اس نے آنسووں کا نذرانہ پیش کیا۔اگر دونوں کام خوش اسلوبی سے ہوئے تو بس پھر سیتئے خیراں اور اگر یہ سب نہیں ہوا تو پھر فائدہ ۔ماتھا لاکھ زمیں پر ٹکریں مارتا پھرتا۔’’
چلو اب مسلم کواٹر کی رنگینیوں سے قلب و نظر کی تسکین اور دہن کی تواضع کرتے
ہیں۔
خدایا رات کی روشنیوں میں اِس کے منظروں کی دلرباعی بڑی جداگانہ رنگوں کی حامل تھی۔لگتا تھا جیسے کائنات بُقعہ نور بنی ہوئی ہے۔کہیں اُمنڈتے ،کہیں سیدھے کھڑے درختوں کی ٹنڈ منڈ شاخیں جو بہار کے نئے پتوں اور شگوفوں کو خوش آمد ید کہتی سچ مچ ایک ہوش رُبا منظر کی گواہ تھیں۔چہل پہل والی آوازوں، رنگا رنگ پکوانوں کی خوشبوؤں ،چینی چہروں کی مسکراہٹوں اور زور و شور سے بلاوے حلال حلال، مسلمان، الحمد اللہ جیسی آوازیں بڑی رومانیت لیے ہوئے تھیں۔بڑی بڑی بانس سے بنی ٹوکریوں میں خشک میوے سجے تھے۔شیشے کے مرتبانوں اور جاروں میں نہ جانے کیا کیا کچھ نظر آتا تھا۔گرما گرم تلوں بھرے نان۔شعلے اگلتے چولہوں پر چڑھی کڑاھیوں میں جانے کیا کچھ تلا جارہا تھا۔سارے میں شاں شاں شوں شوں کی آوازیں سماعتوں سے ٹکراتی تھیں۔
فاطمہ ،خدیجہ مریم نامی بھرے بھرے چہروں والی نوجوان لڑکیاں سروں پر شیف ٹوپیاں اوڑھے چیزیں بیچتی تھیں۔کہیں حجاب سے سر ڈھانپے چولہوں پر جھکی پتیلیوں میں چمچ ڈویاں چلاتی تھیں۔
بڑے بڑے پتھروں والی گلیوں میں چلنا مزہ دے رہا تھا۔ موسم بہت ٹھنڈا تھا۔مگر لوگوں کے ہجوم چکاچوند روشنیوں اور لذیذ پکوانوں کی خوشبوئیں پاگل کئیے دے رہی تھیں۔
دفعتاً مجھے اسی مسلم کواٹر پر لکھا ہوا ایک مضمون یاد آیا تھاجو آنے سے کچھ ہی دنوں قبل پڑھا تھا۔ایک ہزار سال پرانے Huiقبیلے کے لوگ جو یہاں آئے اور پھر یہیں بس گئے۔اُن کی آل اولاد ابھی بھی اسی مارکیٹ میں سو نئیرز کے کام سے جڑی ہوئی ہے۔
دوسرا بنیا من سٹریٹ تھی۔
اب Huiلوگوں کی دکان ملی نہیں۔ ہاں البتہ جب ہم گلیوں میں گھومتے پھرتے
تھے تو دفعتاً انگریزی میں بڑاسا لکھا ہوا نظرآیا۔Welcome to B Islamic Streetاور جب یہ مجھے نظر آئی تو میری کیفیت کچھ ایسی ہی تھی جیسے اِس فوڈ سٹریٹ میں اپناانارکلی والا بانو بازار نظر آجائے۔
بھوک نے کچھ غل غپاڑہ مچانا شروع کردیاتھا۔کیا کھانا ہے ؟چلتے جاتے تھے اور ایک دوسرے سے پوچھتے جاتے ہیں۔بھئی کباب تو ضرور کھانے ہیں۔عمران قیمہ بھرا Roujiamoبند کھانا اور کھلانے کا خواہش مند تھا۔
سعدیہ نے کہا۔‘‘نسرین نے تاکید کی تھی فوٹ پائی شی آن کا تحفہ ہے۔اس سے لُطف اندوز ہونا نہیں بھولنا۔’’
بالا آخر ہم نے ایک میز پر فی الفور قبضہ کرنے کی کوشش کی جوہمارے دیکھتے دیکھتے خالی ہوئی تھی۔کباب بس ٹھیک تھے۔ہاں نان مزے کے تھے۔ذائقے میں بھی اور صورت میں بھی۔ ڈرنک سبھوں نے اپنی اپنی مرضی کے لیئے۔
دفعتاً کہیں میرے اندر ایک خیال نے انگڑائی لی تھی۔جی چاہا تھا کہوں کل ہفتہ ہے عمران کی چھٹی ہے۔رات یہاں کسی ہوٹل میں گزار لیں۔ایک تو تھکن بہت زیادہ ہوگئی ہے۔ نیند آنکھوں میں بھرنے لگی ہے۔اناج نے پیٹ میں جاتے ہی خمار چڑھا دیا ہے۔ جی چاہتا ہے یہیں کہیں لم لیٹ ہوجائیں۔صبح وہاں جائیں اور اس جگہ کو دیکھیں جہاں سے اِس شاہراہ ریشم کا آغاز ہوا تھا۔وہ صحرا جن کی تصویریں ہی دیکھی ہیں۔
مگر سب کچھ دل میں ہی رہا۔ کہہ نہیں پائی۔بہت خرچ ہورہا تھا میرے اوپر۔
اٹھے تو سچی بات ہے اب چلنے کو جی نہیں چاہ رہا تھا۔تاہم ہمارے پاس ابھی تین گھنٹے تھے۔دل کہیں اُس پرانے وقتوں کی سلک مل جانے کا بھی متمنی تھا۔سکارف، سٹول کوئی سونیئر ۔ذہن میں پیاروں کے بھی کئی نام تھے ۔کچھ سستی چیزیں جو سوغات کے طور پر انہیں دے سکوں۔
سچی بات ہے شاپنگ کبھی میرا کریز نہیں رہا۔مگر یہ چین تھا سستا ترین اور مہنگا ترین۔بازار میں جب خریداری کی نظر سے پھرے تو احساس ہوا کہ یہ شی آن بہت سستا ہے۔دیوارِ چین کا جو سونیئر پچاس یوآن کا بیجنگ سے خریدا تھا وہ یہاں 35کا ملا۔ دو خرید لیئے۔کچھ چھوٹی موٹی چیزیں اور لیں۔
دس بجے ہم اسٹیشن پر تھے۔رش کا وہی عالم تھا۔سیٹ پر سر رکھتے ہی میں تو نیند کی وادی میں اُتر گئی۔وادیاں جہاں کہیں دن بھر کے دیکھے گئے منظر تھے۔جہاں تصوراتی اور خیالی دنیا کے وہ پیکر تھے جنہیں پچھلے چند دنوں سے دیکھتی تھی۔قدیم تاریخ سے لبالب بھرا ماحول جس نے جٹ جپھی ڈالی ہوئی تھی۔دھان کے کھیتوں کے سلسلے سورج کی کرنوں میں چمکتے ،نگاہوں کو لبھاتے، چمکتے سبزے سے ڈھنپی پہاڑیوں پر اُگے بانسوں کے جھنڈوں بھرے جنگل،سورج کی سنہری رنگت سے مشابہ گاوں کہ مٹی اور تنکوں کی آمیزش سے ایک اپنایت بھرے تاثر کا حامل ماحول بڑا مانوس سا منظر جو اکثر و بیشتر یادوں اور خیالوں میں ابھرتا تھا۔کہیں صحراؤں میں بھٹکتی پھرتی ،کہیں حیرت زدہ سی قافلوں کے اونٹوں کی گھنٹیوں کی مترنم آوازیں سُنتی۔
اور جب سعدیہ نے جنجھوڑکر اٹھایا کہ ہم بیجنگ پہنچ گئے ہیں۔
اف میرے خدایا۔میں نے حیرت سے اپنے اردگرد بکھری دنیا کو دیکھا۔رات کے تین بج رہے تھے۔اسٹیشن کی رونقوں اور اس کی جولانیوں میں مجال ہے ذرا سی بھی کمی و بیشی ہوئی ہو۔دن اور رات کے تصور کی یہاں نفی ہورہی تھی۔
باہر وسیع و عریض صحنوں کی دُھلائی زور و شور سے جاری تھیں۔موٹی تازی ایک خاتون اونچے اونچے بولتی جارہی تھی۔کیا بول رہی تھی۔پوچھنے پر عمران نے بتایا تھا۔
شوہر کی گالیوں سے تواضع کررہی ہے۔اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔بجائے مدد کرنے کے وہ سو گیا اور اب اُسے دہری فٹیک پڑی ہوئی ہے۔چار بجے چیکروں کی ٹیم نے آجانا ہے۔
تین خوبصورت نوجوان لڑکیاں سڑک پر ٹیکسی کے انتظار میں کھڑی تھیں۔
ہم بھی دیدی کے انتظار میں تھے۔ میں سوچتی تھی۔ترقی کے لیے پہلی ناگریز ضرورت امن کی ہے۔کوئی خوف و خطرہ ہے اِن لڑکیوں کو۔میرے دیس میں کسی سر پھری نے ایسی کوئی ایکٹویٹی کرلی تو بس پھر درندوں کے ہتھے ہی چڑھی۔اور خیر سے لوگوں کا شوروغوغا مجرموں کی گرفتاری پر نہیں اس پر بحث کرے گا کہ وہ رات کے وقت نکلی کیوں؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply