روزہ اور پھل/ابو جون رضا

میرا روزے اور مہنگائی پر بھاشن دینے کا کوئی موڈ نہیں ہے۔ سردست دو واقعات بیان کرنے تھے۔ پندرہ سال پہلے کی بات ہے۔ میں اپنی کمپنی کے سی ایف او کے ساتھ افطار سے تقریباً آدھا گھنٹہ پہلے آفس سے نکلا۔ کلفٹن سے گلشن آنا تھا۔ سی ایف او صاحب جو اہل حدیث مکتب سے تعلق رکھتے تھے، انہوں نے سیٹ بیلٹ باندھ کر گاڑی کو جہاز بنا دیا۔ اس قدر تیزرفتاری سے گاڑی چلائی کہ میری اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے ہی رہ گئی۔

گلشن سے ذرا فاصلے پر سڑک  پر اچانک ایک گدھا گاڑی آگئی اور اس نے ٹریفک بلاک کردیا۔ لامحالہ سی ایف او صاحب کو گاڑی آہستہ کرنی پڑی۔ میری سانس بحال ہوئی تو میں نے پوچھا

سر ! یہ اس قدر تیز رفتاری کی وجہ کیا ہے؟ کیا آپ روزہ گھر پر کھولنا چاہ رہے ہیں؟

وہ فرمانے لگے کہ ہاں یار، روزہ کھلنے کا وقت ہوا چاہتا تھا ۔ اس لیے میں نے تیز گاڑی چلائی۔

میں نے عرض کی سر ! کہ پورا  ملک پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ، دونوں کو افطار سے ذرا پہلے جلد بازی کا دورہ کیوں پڑ جاتا ہے؟

اگر فرض کرتے ہیں کہ روزہ کھلنے میں تاخیر ہوجائے تو کیا ہوگا؟ زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ آپ ایک سنت ترک کردیں گے یا شاید روزہ مکروہ ہو جائے گا۔ لیکن اگر حادثہ ہوجائے تو روزہ مکروہ ہونا تو دور کی بات ہے ، آپ کو لینے کے دینے پڑسکتے ہیں اور غلطی کی وجہ سے کسی روزہ دار کو چوٹ پہنچا دی تو روزہ مکمل طور پر برباد ہوجائے گا۔

میں منزل پر اتر گیا، دوسرے دن سی ایف او صاحب مجھے اپنے روم میں بلا کر کہنے لگے کہ یار تم صحیح کہہ رہے تھے۔ میں نے اس پہلو پر غور نہیں کیا تھا۔ تمہارے گاڑی سے اترنے کے بعد میں نے رفتار نہیں بڑھائی اور اطمینان سے گھر پہنچا، اذان ہوچکی تھی اور والد صاحب نے کجھور منہ میں رکھی ہی تھی کہ میں گھر میں داخل ہوگیا۔

آج میں اپنے بیٹے کے ساتھ افطار سے ذرا پہلے گھر سے باہر نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک رکشہ والے اور ایک گاڑی والے میں لڑائی ہورہی تھی۔ اس کی وجہ سے روڈ پر پیچھے پورا ٹریفک جام تھا، لڑنے والوں کو کوئی فکر نہیں تھی کہ کتنے لوگ تکلیف میں مبتلاء ہیں

میرے بیٹے نے مجھ سے پوچھا ! بابا یہ لوگ رمضان میں کیوں لڑ رہے ہیں؟ اتنا ٹریفک جام ہے؟ میں نے کہا کہ بیٹا صبر کا پھل نہیں کھاتے ، اس وجہ سے لڑ رہے ہیں

میرے بیٹے نے معصومیت سے کہا ! بابا صبر کا پھل تو میٹھا ہوتا ہے نا ؟

Advertisements
julia rana solicitors

میں نے کہا ! جی بیٹا، بس پاکستان کے لوگوں نے یہ مٹھاس نہیں چکھی۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply