ٹورنٹو(مکتوب/7)بچے من کے سچے/انجینئر ظفر اقبال وٹو

کینیڈین امیگرینٹس کے بچوں کے ساتھ بات کرنا ایک بہت خوشگوار تجربہ ہوتا ہے۔ کینیڈین لہجے کی انگلش میں کچھ اردو شامل کرکے اپنی بات مکمل کر لیتے ہیں۔ ان بچوں نے چونکہ اپنے والدین کی طرح مطالعہ پاکستان نہیں پڑھا ہوتا اس لیے ان کا پاکستان کے بارے میں پوائنٹ آف ویو بڑی حد تک حقیقت پسندانہ ہوتا ہے۔ انہیں اپنے بزرگوں کی پاکستان کے بارے میں باتیں اکثر قصے کہانیاں لگتی ہیں سوائے ان بچوں کے جو ریگولر پاکستان جاتے رہتے ہیں۔

ایک بچے نے بات چیت کے دوران پوچھا کہ یہ کیا بات ہوئی کہ پاکستان کے بہت سے نیشنل سونگ ہیں، جب کہ ہمارا ملک کینیڈا اتنا بڑا ہے اور اس کا کوئی نیشنل سونگ نہیں۔ ایک بچے کو اپنی دادی اماں پر اعتراض تھا کہ وہ اس کے فادر کو بچپن میں جوتے کیوں لگاتی تھیں۔ یہ سیدھا سیدھا چائلڈ ہراسمنٹ کا کیس ہے۔ اسے شاید والد صاحب نے ماسٹر جی کے مولا بخش کا نہیں بتایا ہوگا۔ ایک بچے نے میری طرف سے پاکستان میں جاب کرنے کی آفر یہ کہہ کر مسترد کردی کہ وہاں لوگ ایک دوسرے کو مار ہے ہیں۔

کینیڈا میں دوقسم کے اسکول سسٹم رائج ہیں ایک سرکاری اور دوسرا کیتھولک سکول۔ نصاب تقریباً ایک جیسا ہے لیکن کچھ لوگ کیتھولک سکول کو بہتر سمجھتے ہیں اور اپنے بچوں کو وہیں سے پڑھاتے ہیں۔ تاہم اس سکول کے مذہب سے متعلق لیکچرز پر خاص نظر رکھتے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنے بچوں سے مکالمہ کرتے رہتے ہیں خصوصا LGBT اور سیکس ایجوکیشن کے حوالے سے۔ یہاں آپ بچے پر سختی نہیں کرسکتے اور نہ ہی اسے مار سکتے ہیں۔ صرف بات چیت ہی راستہ ہے۔

مقامی کینیڈین اور مہاجر کینیڈین کی سوچ میں یہ بڑا فرق ہوتا ہے کہ مہاجر کینیڈین سکول کے بعد بھی اپنے بچے پر کڑی نظر رکھتا ہے اس کے ہوم ورک کا حساب کتاب رکھا جاتا ہے ٹیسٹوں میں نمبر کیسے آرہے ہیں اس پر نظر ہوتی ہے جب کہ مقامی کینیڈین صرف سکول کی تعلیم کو ہی کافی سمجھتا ہے۔

اسی لئے مہاجروں کے بچے اکثر امتحانات میں سب سے زیادہ نمبر لیتے ہیں اور اچھے کالج یونیورسٹی میں پہنچ جاتے ہیں، جس کے تعلیمی اخراجات کے لئے ان بچوں کو والدین کی مکمل سپورٹ حاصل ہوتی ہے جب کہ عام کینیڈین بچے اٹھارہ سال کے بعد خودمختار ہو جاتے ہیں اور والدین پر بوجھ بننے کی بجائے اپنے اخراجات خود سنبھالتے ہیں۔

اکثر پاکستانی والدین کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد ان کے بچے کیسے نکلتے ہیں۔ عام معاشرتی رواج کے مطابق آزاد ہوجاتے ہیں یا ان کے ساتھ رہ کر اپنی زندگی آگے بڑھاتے ہیں۔ اپنی زندگی کے ساتھی کا کیسے انتخاب کرتے ہیں؟ کمیونٹی کے اندر شادی کریں گے یا کوئی بے تُکی جوڑی بنائیں گے اور ان کی شادی کب تک چلے گی؟ وغیرہ وغیرہ۔

یہ توظاہر ہے کہ وہاں کے معاشرے کے اثرات یہ بچے ضرور قبول کریں گے لیکن ان میں سے اکثر ” بیبے “بچے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے والدین کی شاید ٹانگیں تو نہ دبائیں یا ان کی بیویاں اپنے سسر کا لوٹا تو باتھ روم میں سیدھا نہ کرکے دیں لیکن انہیں اپنے والدین کی جدوجہد کی قدر ہوتی ہو چند ایک کیسز کو چھوڑ کے اکثر اپنے والدین کے لئے راحت کا ذریعہ بنتے ہیں۔

جو بھی ہے، میں نے ان بچوں کو بہت پر اعتماد پایا۔ انہوں نے اپنے کیرئیر کے مقاصد بنائے ہوئے تھے جنہیں لے کر وہ چل رہے تھے۔ ان کو سوچ میں بہت حقیت پسندانہ اور کلیئر تھی اور انہیں اپنے کینیڈین نیشنل ہونے پر بہت فخر تھا۔ کینیڈین نظام تعلیم نے انہیں فری تھنکر بنا دیا تھا۔ ان میں سے بہت سے بچوں نے وہاں کے تعلیمی نظام میں بہت بڑی بڑی ایچیومنٹس کی ہوئی تھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply