• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کے نام تحریکِ شناخت کے رضاکار اعظم معراج کا کھلا خط

وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کے نام تحریکِ شناخت کے رضاکار اعظم معراج کا کھلا خط

وزیراعظم پاکستان
محمد شہباز شریف
وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد
محترم وزیراعظم صاحب
اسلام و علیکم
آپکو ،دوسری بار وزیراعظم منتخب ہونا بہت مبارک ہو۔ میں آپکی توجہ ایک ایسے ہی مسئلے کی طرف دلوانا چاہتا ہوں ۔جو آپ اپنی جماعت کے ذریعے بڑی بے ضرر سی آئینی ترمیم سے حل کروا سکتے ہیں۔ اس مسلئے کے حل سے نہ صرف ملک کے تقریباّ90لاکھ غیر مسلم دھرتی کے بچے خؤش ہو جائیں گے۔۔جن کے ووٹوں کی تعداد جون 2022 تک الیکشن کے اعداد و شمار کے مطابق 39,56,336 تھی۔ اگلے انتخابات میں یہ تعداد کم از کم ایک (1)کروڑ تک پہنچ چکی ہوگی ۔ پاکستان میں ووٹ اور آبادی کا تناسب تقریباً آدھا آدھا ہے ۔۔جس سے یقیناً آپکی جماعت کو 50لاکھ ووٹروں کی ہمدردیاں بھی حاصل ہونگی. گوکہ یہ 50لاکھ ووٹرز بظاہر کوئی بڑا پریشر گروپ نہیں لیکن ان 50لاکھ اقلیتی ووٹروں کی ہمدردیاں آپکی یا جو بھی جماعت اس مسلئے کوحل کرنے کی کوشش میں پہل کرے گی ،اسکو قومی اسمبلی کی پنجاب اور سندھ سے 20اور صوبائی اسمبلیوں کی کم ازکم 50 نشستوں پر یقینی فتح دلوا سکتی ہیں ۔۔ جس میں سے آدھی نشستیں پنجاب کی ہیں ۔۔اس سے اس سیاسی جماعت کو بین الاقوامی نیک نامی بھی حاصل ہو گی ۔جو بھی یہ پہل کرے گی ۔جس کی آج کے دور میں غریب ملکوں کے سیاسی جماعتوں کو نئے بین الاقوامی سیاسی پس منظر میں ضرورت ہوتی ہے۔ مجوزہ آئینی ترمیم کی بابت تجویز پیش کرنے سے پہلے میں آپکو اپنا مختصر تعارف پیش کر دوں ۔
میرا نام اعظم معراج ہے ۔ میں تحریک شناخت کا ایک رضاکار ہوں۔اس فکری تحریک کا نہ کوئی انتحابی سیاسی یا مذہبی ایجنڈا ہے۔اور نہ یہ کوئی این جی او ہے۔ یہ تحریک دنیا بھر کی اقلیتوں خصوصاً پاکستان کی اقلیتوں کو” پیغام انضمام بزریعہ شناخت برائے ترقی و بقاء” دیتی ہے۔میں اس خط کے ساتھ اپنا اور تحریک کا تفصیلی تعارف منسلک کر رہا ہوں ۔اس خط کے ذریعے میں آپکی توجہ پاکستانی مذہبی اقلیتوں کے ایک اہم مسلئے کی طرف دلوانا چاہتا ہوں۔ان پر 16انتخابات میں 6 بار 3انتخابی نظاموں کے تجربات کئے گئے۔لیکن یہ پاکستان کی سیاسی,حکومتی,ریاستی ، دانشور اشرفیہ اور اقلیتوں کے نمائندوں کی بہت بڑی ناکامی ہے،،کہ پاکستان کے غیر مسلم شہری/مذہبی اقلیتں کبھی بھی ان نظاموں سے مطمئن نہیں ہوئے۔۔۔ وجہ اسکی یہ تھی کہ ، مخلوط انتخاہی نظام میں اقلیتوں کو مذہبی شناخت کی نمائندگی دینا تقریباً نہ ممکن ہے ،جبکہ ضیاء الحق والے جداگانہ میں اقلیتیں اپنے آپ کو سیاسی اچھوت اور معاشرتی شودر سمجھتے تھے ۔موجودہ اچھوت پن ختم ہؤا تو اقلیتوں کی مذہبی شناخت پر نمائندے چننے کا حق 3 چار افراد کے پاس چلا گیا جو جمہوری اقدار کی نفی ہے ۔۔تحریک شناخت نے ان تمام نظاموں جن کی شروعات 1909 کے انڈین ایکٹ المعروف مارلے منٹو اصلاحات سے ہوتی ہے۔اس وقت سے موجودہ نظام تک کے نظاموں کےبغور مطالعے کے بعد ان نظاموں کی خوبیوں ،خامیوں سے اخذ کرکے پاکستان کے معروضی سیاسی و معاشرتی حالات سے ہم آہنگ ایک لالحہ عمل تیار کیا ہے ۔جو ایک بے ضرر آئینی ترمیم سے ممکن ہے ۔جس کو اگر ایک جملے میں سمویا جائے تو وہ یوں ہوگا ۔
“اقلیتوں کے لئے موجودہ دوہری نمائندگی کے انتخابی نظام میں مذہبی شناخت والی نمائندگی کو بے ضرر آئینی ترمیم سے دوہرے ووٹ سے مشروط کرکے ایسا بنایا جائے ،جس سے ہر مذہبی نمائندگی والے نمائندے کو اس مذہبی کمیونٹی کے اقلیتی شہریوں کے ووٹوں سے ہی چنا جائے۔ جس کمیونٹی کی مذہبی شناخت کی نمائندگی وہ شخص جس بھی ایوان میں کرتا ہو”۔
یہ مکمل لالحہ عمل و مطالبہ کتابی صورت میں اردو اور سندھی میں چھپ چکا ہے۔ جس کے بارے میں آگاہی دنیا بھر تحریک شناخت کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے بے لوث رضا کار کتابوں ،کتابچوں ،قومی وکمیونٹی کے اخبارات ،رسائل ،پوسٹرز ،وڈیو کلپس ٹی وی انٹرویوز ودیگر ذرائع سے تقریباّدہائی سے متاثریں و ذمدارین کو دے رہےہیں ۔لیکن یہ ہمارے اس جمہوری نظام کا ایک تاریک پہلو ہے، کہ 98فیصد رائے عامہ ہموار ہونے کے باوجود اس مسلئے کو آپ یا آپ جیسے چند قائدین نے ہی حل کرنا ہے۔۔۔ 98فیصد اقلیتی شہری موجودہ اقلیتی انتخابی نظام سے غیر مطمئن و ںے چین ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے ،کہ آپکے اقلیتی رفقاء آپکو کبھی اس سیاسی فائدے کا نہیں بتائیں گے ۔۔ جو اس آئینی ترمیم کے لئے پہل کرنے والی جماعت کو ہوسکتاہے۔میں یہ کتابچہ آپ کو بھیج رہا ہوں۔ جسکی مدد سے آسانی سے آپکے سیاسی مشیر آئینی ترمیم کا مسودہ تیار کر سکتے ہیں ۔۔میرے خیال میں اس بے ضرر آئینی ترمیم سے اقلیتوں کا یہ 78سالہ پرانا مسلہ حل کرکے ،وطن عزیز کی مذہبی اقلیتوں کے 80 فیصد معاشرتی،سماجی و سیاسی مسائل کے حل کا خود کار نظام ترتیب دے سکتے ہیں۔جس سے یقیناً پاکستان کا ایک بہت ہی روشن پہلو دنیا بھر میں جائے گا۔کیونکہ آج کے جدید دور میں ریاستوں کی ترقی ناپنے والے اشاریوں میں سے ایک اشاریہ یہ بھی کہ اس ملک وقوم کے کمزور طبقات مثلاّ بچے ،عورتیں اور اقلیتں کتنی خؤش اور مطمئن ہیں ۔
آئین پاکستان کی کئی شقیں پاکستان کے ان محب وطن دھرتی واسی شہریوں کے بنیادی جمہوری ،انسانی، شہری حقوق کے خلاف ہیں۔لیکن یہ امن پسند محب وطن شہری پاکستان کے معروضی سماجی معاشرتی و مذہبی حالات اور تاریخی پس منظر کی وجہ سے جانتے بوجھتے ان سے صرفِ نظر کرتے ہیں ۔ ایسی بے ضرر سی آئینی ترمیم سے ایسی آئینی تفریق کا کچھ مداوا ہوسکتاہے ۔۔لہذا میں امید کرتا ہوں ،کہ اس بے ضرر آئینی ترمیم کے لئے آپ ضرور اپنا حصّہ ڈالیں گے۔یقیناّیہ کام ملک وقوم کے استحکام ونیک نامی کا باعث بنے گا۔ اور آپکے نام کے ساتھ یہ تاریخ بھی رقم ہو جائے گی کہ آپ نے پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے 78سالہ اس مسلئے کو حل کیا ہے۔۔پاکستان کے چوبیس کروڑ انسانوں میں سے بہت کم لوگوں کو یہ منصب نصیب ہوتا ہے۔ کہ وہ تاریخ رقم کر سکے۔ امید ہے آپ اس موقع سے ضرور فائدہ اٹھائے گے ۔۔اس ضمن میں اعانت و معاونت کے لئے میں ہر وقت دستیاب ہوں
واسلام
آپکی رائے اور جواب کا منتظر

اعظم معراج

رضاکار تحریک شناخت
منسلک
1.کتابچہ” تحریک شناخت کے پاکستان کی مذہبی اقلیتوں کے لئے دوہرے ووٹ کے تین نکاتی مطالبے کا جائزہ.یہ کیوں ضروری ہے ۔؟ اور کیسے ممکن ہے ؟۔

2.تعارف تحریک شناخت

Advertisements
julia rana solicitors

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply