عید میلادالنبی ﷺ /صاحبزادہ امانت رسول

عید میلادالنبی ﷺ  کی شرعی حیثیت یہ ہے کہ یہ فرض و واجب نہیں اور نہ ہی حرام ہے۔ یہ ایک مباح عمل ہے۔ ایسا عمل جو مباح ہو اس میں شدت اختیار نہیں کرنی چاہیے۔ مباح عمل میں شدت اختیار کرنے سے‘ انسان اعتدال و توازن کی راہ سے ہٹ جاتا ہے۔ جو لوگ نہیں مناتے انہیں حرام و کفر کے فتوے نہیں دینے چاہئیں اور جو مناتے ہیں وہ اسے ”جائز“ ہی خیال کریں ۔ ہر حال میں ہمیں ”غلو“ سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اسلام ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ جب بھی کوئی مسئلہ پیدا ہو اسے قرآن و سنت پہ پرکھیں جو اس معیار پہ پوری اترے وہ درست ….جو اس پہ نہ اترے وہ درست نہیں ہے۔
‏‎ مذہب یہودیت کے مطابق تورات میں جن کا ذکر کر دیا گیا تھا وہ حلال اور باقی سب کچھ حرام تھا لیکن امت محمدیہ کیلئے وسعت پیدا کی گئی‘ اسلام میں حرام اشیاءکا ذکر کر دیا گیا ہے ان کے علاوہ باقی سب کچھ مباح ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اسلام کا دامن مذہب یہودیت کی طرح تنگ ہوتا‘ افراط و تفریط کے باعث لوگ فطری آزادی سے محروم ہو کر مذہب سے تنگ آ چکے ہوتے‘ جولوگ ان مسائل میں حرام و ناجائز کے سخت فتوے دیتے ہیں وہ بھی اپنی رائے کا جائزہ لیں اور جو جواز میں حد سے بڑھ جاتے ہیں وہ بھی ضرور سوچیں۔جو کچھ ہمارے ہاں ہوتا ہے“ اس بارے عرض کروں گا جب ایک عمل جائز ہے تو اس عمل کے اظہار کے طریقے اپنے ماحول‘ حالات‘ ثقافت اور تہذیب کے مطابق ہی ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں قمقموں‘ لائٹس اور جھنڈوں کے ذریعے خوشی کا اظہار ہوتا ہے۔ ہاں !بس تین باتیں ہمیشہ مد نظر رکھیں۔ جب آپ عید میلادالنبی ﷺ منائیں تو آپ کے اس عمل سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے‘ راستے بند نہ کریں‘ کسی بیمار کو تکلیف اور کسی طالب علم کی تعلیم و مطالعہ کا حرج نہ ہو۔ جب آپ جلسہ کر لیں تو اختتام کے بعد‘ سڑکوں پر نان کے ٹکڑے‘ ہڈیاں اور شوربہ نہ پھیلا ہو۔ آدھی رات یا دیر تک‘ پروگرام نہ جائے‘ مختصر ہو اور جلد ختم ہو۔ بزرگوں نے ہمیشہ سادہ اور مختصراً اہتمام کیا‘ وہ اپنے گھر میں ہی محفل منعقد کر کے اپنی روح کو تسکین دیتے تھے۔ دوسری بات خودنمائی‘ تصنع اور دکھاوا سے پرہیز کریں۔ اگر آپ دولت مند اور صاحب ثروت ہیں تو اخلاص و ہمدردی کا پہلو ہمیشہ مدنظر رکھیں۔ تیسری بات بھی یاد رکھیں ‘ آپ ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں بھوک‘ ننگ‘ مفلسی‘ جہالت اور دکھی لوگ بہت ہیں۔ حضور ﷺ سے محبت و عشق کا ایک ثبوت آپ کی امت کا خیال رکھنا بھی ہے۔ اگر آپ میلادالنبی ﷺ پہ خرچ کر رہے ہیں دوسری طرف ایک بیمار دوائی نہ ہونے کے باعث تڑپ تڑپ کر جان دے رہا ہے تو ہمارے نبیﷺ کی خوشی اس بیمار کے علاج و صحت میں ہے۔ اگر آپ میلادالنبی ﷺ کے جلسے پہ لاکھوں خرچ کر رہے ہیں دوسری طرف ایک بچہ تعلیم کی دولت سے محروم ہے تو رسول اللہ ﷺکی رضا اس بچے کی تعلیم میں منحصر ہے۔ ہم سب احباب ایسے لوگ جانتے ہوں گے جو ہر سال حج اور کئی عمرے ادا کرتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ ان کے حج اور عمرے قبول کرے لیکن حج صاحب استطاعت پہ زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے اور عمرہ فرض نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے مکہ و مدینہ میں رہ کر بھی حج زندگی میں ایک بار ادا فرمایا تو ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے مال و دولت کا بہاﺅ نادار اور غریب لوگوں کی طرف کردیں۔
‏‎ اب یہاں رکیے اور سوچئے! کیا وجہ ہے کہ ہم ایسا کیوں کرتے ہیں؟اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں حج و عمرہ کی ادائیگی‘ میلادالنبی ﷺ کے منانے پہ رغبت دی جاتی ہے لیکن اس طرف توجہ کم دلائی جاتی ہے کہ معاشرے سے‘ جہالت کا خاتمہ بھی ثواب کا کام ہے۔ اگر آپ حج پہ نہ جائیں اور کسی غریب بچی کے جہیز کیلئے وہی رقم دے دیں تو آپ کو اس کا بھی ثواب ہو گا۔ اگر آپ جلسہ میلاد النبی ﷺ کا اہتمام سادگی سے کریں اور اس کے بدلے کسی غریب طالبعلم کا داخلہ بھیج دیں اور کتابیں لے کر دے دیں تو آپ کو اس کا بھی اجر ملے گا۔
‏‎ تمام مسالک کے علمائے کرام لوگوں کی تربیت اس اصول پہ کریں کہ اسلام خدمت انسانیت کی تعلیم دیتا ہے ؟ بدقسمتی سے ‘علمائے کرام اپنے اپنے مسلک کا نکتہ نظرپیش کرنے پر سارا زور صرف کر دیتے ہیں اور لوگوں کی تعلیم و تربیت کا معاملہ نظر سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ علمائے کرام جائز ناجائز کے مسئلہ میں الجھ کر اصل موضوع سے ہٹ جاتے ہیں۔ کوئی میلادالنبی ﷺ مناتا ہے‘ منائے ….یا کوئی نہیں مناتا ‘نہ منائے ….کم از کم ایک اچھا انسان بننے پر تو کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ اگر ہم اپنی ذات میں اسلام کی بیان کردہ اعلیٰ خصوصیات پیدا کریں اور علمائے کرام بھی اس کا پرچار کریں تو ہم ناحق جانبداری‘ شدت پسندی ‘ تنگ نظری اور تعصبات سے بالاتر ہو کر سوچ سکتے ہیں
اللہ تعالی راہ اعتدال کو پسند فرماتا ہے
آخر میں بقول پیر سید نصیرالدین نصیر علیہ رحمہ
اگر ہم اپنے اپنے عقائد کا عقائدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے موازنہ کریں تو ہم پر ہمارے عقائد کی بےاعتدالیاں کھل کر سامنے آسکتی ہیں

Facebook Comments

صاحبزادہ امانت رسول
مصنف،کالم نگار، مدیراعلیٰ ماہنامہ روحِ بلند ، سربراہ ادارہ فکرِ جدید

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply