سال 2024 شروع ہونے والا ہے اور عوام کے ذہنوں میں معیشت کے مستقبل کے بارے میں بے شمار سوالات گردش کر رہے ہیں۔ کیا آنے والا سال خوشیوں کی نوید لے کر آئے گا یا پھر گزشتہ برسوں کی طرح غموں، کسمپرسی، بے بسی کا نغمہ ہی گاتا رہے گا؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے موجودہ حالات کا گہرائی سے جائزہ لینا ضروری ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ 2023 کافی بڑا چیلنجنگ سال ثابت ہوا۔ سیاسی عدم استحکام، عالمی مندی کی ہوا، روپے کی گرانی اور افراط زر کی اونچی شرح نے عوام کی کمر توڑ ڈالی۔ تاہم، اس کی ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ اس عرصے میں IMF کے ساتھ معاہدے کی تجدید، قرضوں کی ادائیگیوں کے انتظام اور زر تبادلہ مارکیٹ کی اصلاحات جیسی کڑوی گولیاں بھی ہمیں نگلنی پڑیں، جنہوں نے مستقبل کے لیے کچھ بنیاد فراہم کی ہے۔ اب آئی ایم ایف ڈیل کا بیل آؤٹ پیکج نئی برسر اقتدار آنے والی حکومت سے ہی مشروط کیا جا چکا ہے۔ اب اسٹاک ایکسچینج گزشتہ گیارہ برس کا ریکارڈ توڑ کر 65 ہزار پوائنٹس کی بلند ترین سطح پر آگئی، یعنی سرمایہ کاروں کا اعتماد پھر سے بحال ہونے لگا۔ نواز شریف متعجب ہوگئے اور بلاول تذبذب کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔کاغذات نامزدگی جمع ہو چکے۔ الیکشن میں التوا مشکل نظر آتا ہے۔ سیاسی لیڈران کی خاموشی معنی خیز ہے اب نئے سال میں ملک ترقی کی نئی منازل طے کرنے کو تیار ہے۔ کئی سال جس ترقی کو جمود لگارہا اب وہ پھر سے بڑھے گی ملک آگے جائے گا۔ جس مہنگائی نے عوام کو سولی پر لٹکائے رکھنے میں کوئی کمی نہ رکھی اس میں کمی واقع ہوگی۔ من حیث القوم ہمیں اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا سیاسی اناؤں کو پس پشت ڈال کر سیاسی پیشواؤں کو کام کرنا ہوگا۔
ماہرین معیشت 2024 کی معاشی صورتحال کے بارے میں محتاط انداز میں امید کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق، IMF پروگرام کی تکمیل سے ملنے والی امداد، سرمایہ کاری میں اضافہ اور زراعت کی بہتر پیداوار معاشی کی رفتار کو کچھ تیز کر سکتی ہے۔ لیکن یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہے جب حکومت معاشی پالیسیوں میں استحکام برقرار رکھے، غیر ضروری اخراجات میں کمی کرے اور ٹیکس لگانے کے نظام کو بہتر بنائے۔
بنیادی چیلنج یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی سے ہم قدم اس کی معیشت نہیں چل رہی۔ نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنا، زراعت کی پیداوار میں اضافہ، صنعتی شعبے کی ترقی اور برآمدات میں اضافہ یہ وہ کلیدی عوامل ہیں جن پر توجہ دینے کی فوری ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کر کے انسانی وسائل کو بہتر بنانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔
اگرچہ آنے والے سال کے بارے میں یقینی رائے دینا مشکل ہے، لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ 2024 پاکستان کے لیے انتہائی اہم ہے اور اس میں پاکستان کی خوشحالی کے لئے بہت سے اقدامات کئے جائیں گے۔ نئی آنے والی حکومت اگر دور اندیشی سے کام لے اور عوام کے ساتھ مل کر کوشش کرے تو بڑھتی ہوئی مشکلات کے باوجود یہ سال ہمارے لیے ایک اچھا موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ ضروری ہے کہ ہم سب سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر معیشت کی بہتری کے لیے کام کریں، تبھی ہم اپنے بچوں کے مستقبل کو سنوار سکتے ہیں۔
آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی ادارے پاکستان کو قرض اور سرمایہ کاری فراہم کرنے سے پہلے اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ملک کی معیشت مستحکم ہے۔ اس کے لیے حکومت کو افراط زر کو کنٹرول کرنے، زر تبادلہ مارکیٹ کو مستحکم کرنے اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ سیاسی عدم استحکام بھی معاشی ترقی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ اس لیے آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی مالیاتی ادارے پاکستان میں سیاسی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کے عزم کو دیکھنا چاہتے ہیں۔
ملک میں سرمایہ کاری کا ماحول:
سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے ایک سازگار ماحول کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے حکومت کو ٹیکس کی شرح کو کم کرنے، کاروباری قوانین کو آسان بنانے اور سرمایہ کاری کے لیے ضمانتیں فراہم کرنے کے لیے کام کرنا ہوگا۔
آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے حکومت کو ان تمام عوامل پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت ان عوامل کو پورا کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو اس سے پاکستان کو قرض اور سرمایہ کاری کی ایک بڑی مقدار حاصل ہو سکتی ہے۔ یہ سرمایہ کاری ملک کی معیشت کو بہتر بنانے اور عوام کی زندگی کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتی ہے۔
یہاں کچھ مخصوص اقدامات ہیں جو حکومت کو انجام دینے ہیں 25 ارب ڈالر کی ڈیبٹ سروسنک میں سے 11.5 ارب ڈالر اتارنے ہیں اور سرمایہ کاری کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں:
معاشی پالیسیوں میں استحکام برقرار رکھیں۔ حکومت کو افراط زر کو کنٹرول کرنے، ز م تبادلہ مارکیٹ کو مستحکم کرنے اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے جامع اور مستقل معاشی پالیسیاں مرتب کرنی چاہئیں۔
غیر ضروری اخراجات میں کمی کریں۔ حکومت کو غیر ضروری اخراجات میں کمی کرکے اپنے وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
ٹیکس لگانے کے نظام کو بہتر بنائیں۔ حکومت کو ٹیکس چوری کو روکنے اور ٹیکس کی وصولی کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکس لگانے کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
زراعت، صنعت اور خدمات کے شعبوں کو ترقی دیں۔ صرف زرعی ٹیکس لگانا حل نہیں, زراعت معیشت کے لئے بہت اہم ہے تقریباً 23 فیصد جی ڈی پی پر اثر انداز ہوتا ہے اور 48 فیصد لوگ بطور کسان اس سیکٹر کی بڑھوتری کے لئے خدمات انجام دیتے ہیں۔ جب سرپلس ویلیو کے فوائد کسان تک براہ راست پہنچیں گے تب ہی وہ خوشحال ہوگا۔ حکومت کو زراعت، صنعت اور خدمات کے شعبوں کو ترقی دینے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
تعلیم اور صحت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کریں۔ حکومت کو تعلیم اور صحت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کر کے انسانی وسائل کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
اگر حکومت ان اقدامات کو کامیابی سے انجام دے سکتی ہے، تو اس سے پاکستان کو 123 ارب ڈالر کے قرض اور سرمایہ کاری کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔

یہ سال غموں کا نغمہ نہ گنگنائے بلکہ خوشیوں کی نوید لے کر آئے، یہ ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں