مستشرقین کا جدید مکتب اور ایک فرنچ اسلاموفوبک ناول /رشید یوسفزئی

نیچے تصاویر میں نظر آنے والی دونوں کتابوں کا تعلق اسلام  سے ہے۔ دونوں انتہائی متنازع  ہیں۔ پہلی  کتاب Crossroads to Islam ایک یہودی اور ایک عیسائی محققین آثارِ قدیمہ کی تحقیق کا نتیجہ ہے۔ جدید مستشرقین orientalists کی ایک مکتبہ فکر ہے جس کو Revisionist School of Islamic Studies کہا جاتا ہے۔ اس مکتبِ  فکر کی اسلام بارے عجیب و غریب دعوے ہیں۔ اوائل اسلام کے چند عشروں کی  تاریخ سے مکمل انکاری ہے۔ اس گروپ میں پیٹریشیا کرون کافی شہرت رکھتی ہے اگر چہ کرون کی  کسی ایک بات سے بھی اتفاق کرنا ناممکن ہے تاہم ان کے تصانیف مکمل نظر انداز کرنے کے لائق بھی نہیں۔ زیر ِ نظر کتاب کراس روڈز ٹو اسلام کے مصنفین بھی اسی مکتب ِ فکر کے ہیں۔ ان کا دعویٰ  ہے پیغمبر اسلام ﷺ  اور اولین چار خلفاء سِرے سے تاریخی وجود ہی نہیں رکھتے۔ بقول ان کے محمڈن ازم حضرت معاویہ رضی اللہ کی ایجاد ہے۔ انہوں نے شام پر حکومت بنائی  تو وہاں ایک مستعد اور گرم عیسائی و یہودی فضا تھی جس میں عربوں کیلئے جگہ نہ تھی۔ سو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے افسانوی کردار اور واقعات گھڑ کے عربوں کی احساس کمتری کے ازالے کا سوچا۔ اس سلسلے کو عبدالملک بن مروان نے آگے بڑھایا۔ اسلام کا لفظ عبدالملک بن مروان کی اختراع ہے۔ دونوں مصنفین کا دعویٰ  ہے کہ اسلامی روایات کے دعاوی کے کوئی خارجی، سائنسی تصدیق ممکن ہی نہیں۔ قرآن شریف تین سوسال بعد بنو عباس کے کاتبین اور سیکرٹریز کی ایک ٹیم نے لکھی۔ دونوں محققین کے تحقیقات عجیب و غریب ہیں۔۔۔۔ اور پھر اگر کوئی یہود و نصاریٰ کی  منظم متعصبانہ تحقیق کی بات کریں تو جواب آتا ہے کہ آپ سازشی نظریات پر یقین رکھتے ہیں اور ہر تحقیق کو عقیدے کیساتھ تولتے ہیں۔ اب ایسی  تحقیق کا بندہ کیا کرے ۔

تاہم  انہوں نے اپنے ہر موقف کی بنیاد ایسی سنجیدہ منطقی اور عالمانہ بنائی ہے کہ عالم ِ اسلام سے مدلّل جواب کی ضرورت فرض عین ہے۔ بد قسمتی یہ ہے کہ عالمِ  اسلام میں مبلغ ہر کوئی ہے، محقق عنقا۔ اور ایسے حملوں کا جواب محقق کا کام ہے۔ یاد رہے کہ یہ ذاکر نائیک، و طارق جمیل اور غامدی جیسے لوگ کبھی بھی مغرب کی  نظر میں محقق نہیں۔ یہ محض مبلغین ہیں ۔

دوسری کتاب عصرِ حاضر کے صف اوّل کے ناول نگار فرنچ ادیب مشل اولبک Michel Houellebecq کا  اسلامو فوبیا Islamophobia بارے شہرہ آفاق متنازع  ناول Submission ہے۔۔۔۔ سب مشن لفظ ہی اسلام کا  مترادف ہے۔ قابل ِ ذکر ہے کہ لفظ اسلام کا  معنی “امن “بالکل غلط ہے۔ جیسا کہ سورۃ حجرات کی  آخری آیات میں ہے اسلام تسلیم ہونے کو  submit or surrender  کہتے ہیں اور اس میں جبر اور زور و طاقت کا  پہلو پوشیدہ ہے ۔ اس ناول سے قبل اولبک کی شہرت و مقبولیت تسلیم شدہ تھی۔ اور مصنف کے نام ہی نے ناول کو بلاک بسٹر بنایا۔ عالم اسلام بارے جدید مغرب کی سب سے زیادہ ذہن سازی اس ناول کے  مرہون منت ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ناول کا  پلاٹ لغو ہے لیکن اسلوب اور ادبیت کی بِنا  پر یہ ایک ادبی شاہکار مانا  جاتا  ہے۔ ایک متوسط عمر یونیورسٹی پروفیسر کی کہانی ہے جو اپنے سٹوڈنٹس کے ساتھ جنسی تعلق رکھتا ہے، پیتا ہے اور رنگ رلیاں مناتا ہے۔ دریں  اثناء فرانس میں انتخابات ہوتے ہیں۔ اسلامسٹ اور سوشلسٹ پارٹیز الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوتی  ہیں۔ فرانس میں شریعت کا نفاذ ہوتا ہے۔ پروفیسر کو ایک اچھے عہدے کی آفر ہوتی ہے۔ ۔۔ بشرطیکہ وہ مسلمان ہوجائے۔۔۔۔ داستان مغرب کی نفسیات میں پوشیدہ اسلام اور مسلمانوں سے ڈر اور نفرت کے جذبات کی عکاسی کرتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسلامی ممالک کی کوتاہ نظری یہ ہے کہ ایسی  کتب   شائع ہوتے  ہی ان پر اپنے ہاں پابندی لگاتے ہیں ۔ جس سے حقیقت کبھی غائب نہیں ہوتی  اور متعلقہ لٹریچر کی وقعت بڑھ جاتی ہے۔ اُلٹا مسلمانوں پر عدم برداشت اور تنگ نظری کے الزام وارد ہوتے ہیں۔ ۔ جبکہ عدم برداشت مغرب اور مسلمانوں دونوں طرفین کا مسئلہ ہے۔ مغرب اشتعال دلاتا ہے۔ مسلمان مشتعل ہوکر خود مزید شکار بنتے ہیں ۔ خیر، یہ کتب اور یہ تحقیق ایسے نہیں کہ ان کے جواب ممکن نہ ہوں ۔ ان کے مدلّل و موثر جواب ممکن ہیں  اور کافی آسان بھی۔ ۔ مگر ممکن تب ہوں گے ، جب اسلامی کمیونٹی کے اربابِ  اختیار اپنے قارئین اور انٹلکچولز پر اعتماد کرکے ان کو پڑھنے اور لکھنے کی آزادی دیں۔

Facebook Comments

رشید یوسفزئی
عربی، فارسی، انگریزی ، فرنچ زبان و ادب سے واقفیت رکھنے والے پشتون انٹلکچول اور نقاد رشید یوسفزئی کم عمری سے مختلف اخبارات، رسائل و جرائد میں مذہب، تاریخ، فلسفہ ، ادب و سماجیات پر لکھتے آئے ہیں۔ حفظِ قرآن و درس نظامی کے ساتھ انگریزی اور فرنچ زبان و ادب کے باقاعدہ طالب علم رہے ہیں۔ اپنی وسعتِ مطالعہ اور بے باک اندازِ تحریر کی وجہ سے سوشل میڈیا ، دنیائے درس و تدریس اور خصوصا ًاکیڈیمیا کے پشتون طلباء میں بے مثال مقبولیت رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply