گو۔۔ابصار فاطمہ

“آئے ہائے یہ اتنی گندی بدبو کہاں سے آرہی ہے۔”
باجی نے دروازہ کھولتے کھولتے کہا اور عجلت میں باہر قدم رکھا دوسرے ہی لمحے کراہیت کے شدید احساس کے ساتھ وہ اپنی فینسی سینڈل ہوا میں جھاڑ جھاڑ کے اس کے تلے سے غلاظت ہٹانے کی کوشش کرنے لگیں۔
ایک ہاتھ سے بغل میں دبا بڑا سا پرس سنبھالے دوسرے ہاتھ سے دروازے کی چوکھٹ کا سہارا لیے وہ کچھ دیر یہی کوشش کرتی رہیں۔ ساتھ ساتھ بڑبڑاتی جارہی تھیں۔
“افف توبہ، کیا مصیبت ہے۔ کونسے جانور کا ہے یہ۔ اسے بھی ہمارا دروازہ ملا تھا۔ اسکول کے لیے بھی دیر ہورہی ہے گھنٹی نہ لگ جائے۔ پرنسپل جان کو آجائیں گی میری۔”
اتنی دیر میں امی بھی پیچھے پہنچ گئیں۔
“کیا ہوا تم گئیں نہیں ابھی تک؟”
“امی دیکھیں کوئی جانور بالکل دروازے پہ گوبر کرگیا ہے۔ میرے شوز میں بھی لگ گیا۔”
امی نے ناک سکیڑ کر بو سونگھی اور شاید جانور پہچاننے کی کوشش کی۔
“نازنین یہ جانور کے گوبر کی بدبو تو نہیں ہے۔ ایسی شدید بو تو انسان کے گو میں ہوتی ہے۔ ”
“توبہ ہے امی۔ یہاں کوئی انسان کرکے جائے گا کیا۔ کیسی باتیں کرتی ہیں۔ ” باجی نے جھاڑنے کی مشقت ترک کی اور غلاظت والا پاؤں ہوا میں معلق کیے اچھل اچھل کے غسل خانے کے دروازے پہ جا پہنچیں۔
” یہ میں نے کب کہا کہ یہیں کرکے گیا ہوگا۔ مگر گندے علم کرنے والے ایسے کام کرتے ہیں یا کسی نے ہمارے گھر پہ ایسا کچھ کروایا ہوگا تو اس نے کیا ہوگا۔ تھیلے ویلے میں ڈال کے لے آیا ہوگا۔” امی آدھا سا دروازہ کھولے کچھ بدبو کی وجہ سے اور کچھ پردے کی خاطر آدھا سا دوپٹہ ناک پہ رکھے غلاظت کے ڈھیر کا معائنہ کرنے لگیں۔
“ویسے لگ واقعی ایسا ہی رہا ہے جیسے یہیں کیا ہے۔ دیکھ تو اوپر سے سوکھا سوکھا بھی ہے۔”
“ای ی ی ی ۔۔۔۔ امی آپ کیا تفصیلی جائزہ لینے میں لگ گئیں۔ پانی ڈال کے بہائیں ناں۔” سینڈل اور پیر دھوتے ہوئے انہیں بھی امی کی پہچان کسی قدر درست لگی۔ سینڈل دھل تو گئی تھی مگر بری طرح بھیگی ہوئی تھی ساتھ ہی انہیں دوبارہ وہی سینڈل پہننے سے شدید کراہیت محسوس ہورہی تھی۔ وہ جلدی جلدی دوسری سینڈل پہن کر اسکول کے لیے نکل گئیں۔
اسکول سے واپس آتے آتے شدید تھکن ہوچکی تھی۔ دہلیز بالکل صاف تھی اس لیے یاد ہی نہیں رہا کہ صبح کیا ہوا تھا۔
کھانا کھا کے جو وہ سوئیں تو امی نے مغرب کی اذان پہ اٹھایا۔
“اٹھو تمہارا ہونہار شاگرد آدھے گھنٹے سے بیٹھا ہے۔ باجی ہیں کہ سوئے جارہی ہیں۔”
باجی نے انکھوں پہ سے بازو ہٹا کے کسلمندی سے کہا۔
“افف یہ چھٹی کیوں نہیں کرتا کسی دن۔ روز اماں بھیج دیتی ہیں پڑھنا پڑھانا اس نے ہے نہیں۔ بلاوجہ کی مغز ماری کرو۔”
“میں نے تو کہا تھا مت لو اسے، ویسے ہی اتنے بچے ہیں تمہارے پاس ماشاءاللہ بر آمدہ بھرا رہتا ہے۔ کوئی ٹیوشن کی کمی ہے۔ پھر آتا بھی سب سے پہلے ہے جاتا سب کے بعد ہے نرا وقت کا زیاں۔”
“وقت کا زیاں تو ہے لیکن چار پیسے زیادہ آجاتے ہیں ہاتھ میں ان کی اماں کو بھی پتا ہے کہ ان کی اس باؤلی اولاد کو کوئی اور نہیں پڑھائے گا۔ خیر ہے بیٹھا ہی ہے ناں میں بھی تب ہی پڑھانا شروع کروں گی جب باقی بچے آجائیں گے۔ آپ بلاوجہ الجھتی رہتی ہیں۔” باجی نے دوبارہ آنکھوں پہ ہاتھ رکھ لیا
“ارے بیٹھا بیٹھا ہر ایک کو گھورتا رہتا ہے۔ عجیب وحشت زدہ نظریں لگتی ہیں اس کی۔ ساتھ ساتھ رال ٹپکاتا منہ دیکھ کر ایسی کراہیت آتی ہے توبہ۔ بندہ اس کی موجودگی میں کچھ کھا بھی نہیں سکتا۔” امی نے ایسا گھناؤنا منہ بنایا جیسا اس کی رال براہ راست انہی کے منہ میں ٹپک رہی ہو۔ ساتھ ہی ترچھی نظر ذرا کونے میں چٹائی پہ بیٹھے فرقان پہ ڈالی جو سپاٹ نظروں سے ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔ انہیں پکا یقین تھا کہ “اس باؤلے” کو ان کی کوئی بات سمجھ نہیں آتی۔ بلکہ بات ہی کیا اس باؤلے پہ تو مار تک کا اثر نہیں تھا کل کے تھپڑ کا نشان بھی مدھم مدھم ابھی بھی کان کے قریب دیکھا جاسکتا تھا۔ امی کی نظریں اس کی ٹپکتی رال سے ہٹ کر تھپڑ کے نشان پہ جم گئیں۔ کراہت ہمدردی میں بدلنے لگی تھپڑ کی جلن اپنے رخسار پہ محسوس ہونے کو تھی کہ دروازہ بجا اور اماں اس باؤلے سے ہمدردی کرنے سے بال بال بچ گئیں۔
باقی بچوں کا وقت ہوگیا تھا۔ اور چند ہی منٹوں میں مرغی فروش کی دکان پہ رکھے دڑبے کی طرح پورا برآمدہ چھوٹےچھوٹے بچوں سے بھر گیا۔ جو جگہ کی کمی کے باعث ایک دوسرے پہ چڑھے جارہے تھے۔ پریپ، کے جی، پہلی کے بچوں کے درمیان میں بیٹھا ان سے کچھ سال بڑا فرقان الگ ہی مخلوق لگ رہا تھا۔ سب سے پیچھے بیٹھا ہونے کے باوجود سب سے نمایاں لیکن سب سے غیر اہم۔
جب تک باجی آنکھوں پہ ہاتھ رکھے لیٹی رہیں کاپیاں کتابیں کھولنے کی آوازوں کے ساتھ ہلکی ہلکی کھسر پھسر کی آوازیں آتی رہیں۔ جیسے ہی انہوں نے بازو ہٹایا برآمدے میں ایسے خاموشی چھاگئی جیسے کمرے میں خالی کاپیاں پڑی آپ ہی آپ پھڑپھڑا رہی ہوں۔
اور پھر روز کا معمول شروع ہوگیا۔ ذہین بچوں کو آدھا گھنٹے میں ہوم ورک کروا کے باقی بچوں کی ذمہ داری دے دی، کچھ بچے پٹے کچھ پٹے بغیر سسکتے رہے۔ فرقان کو بھی پہلی کے ایک بچے نے کاپی پہ بڑے بڑے حروف لکھ کے پینسل پھیرنے کے لیے دے دئیے جو وہ بیٹھا بیٹھا ٹریس کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ الٹی سیدھی پینسل پھیرتا کبھی رال سے پسیج جانے والے صفحے پہ لکھے حروف کو انگلی سے مٹانے کی کوشش کرتا کبھی انہی حروف کو ربڑ سے مٹاتا۔ سارے بچے پڑھ پڑھا کے چلے گئے اور وہ ایک کاپی کے ایک صفحے سے جھوجھتا رہا۔ برآمدہ خالی ہوگیا پلاسٹک کی رنگین چٹائی سمٹ گئی اور اسے ننگے فرش پہ بٹھا دیا گیا۔
اندرونی کمرے میں رات کا کھانا لگنے کا ماحول بننے لگا۔ پہلے باجی کی امی دسترخوان لے کر گئیں، پھر باجی پلیٹیں لے کر گئیں، باجی کی بھابھی ٹرے میں لبالب بھرے بھاپ اڑاتے خشکہ چاول لے کر گئیں اماں اگلے چکر میں اچار کی بوتل اور دال کا ڈونگہ لگ گئیں، باجی سلاد کی پلیٹ لے گئیں۔ ابو بھائی ہاتھ دھو دھو کر کمرے میں چلے گئے وہ سارا وقت ان سب کو آتا جاتا دیکھتا رہا۔ باجی نے گھور کر دیکھا تو کھسیائے سے انداز میں دانت نکوس دئیے اور پھر کاپی پہ سر جھکالیا۔ کبھی دوبارہ پینسل سے کاپی پہ لکیریں لگاتا رہا کبھی برآمدے میں ادھ کھلی کھڑکی سے اندر گھر والوں کو کھانا کھاتے دیکھتا رہا اور پلیٹوں سے چمچے ٹکرانے کی ٹناٹن سنتا رہا۔ رات مزید گہری ہوتی جارہی تھی۔ کھانا سمٹے بھی دیر ہوگئی باہر گلی میں کتوں کے بھونکنے کی آوازیں آنے لگیں۔ تب جاکر باجی کو یاد آیا کہ بر آمدے کے کونے میں وہ بیٹھا ہے۔
“دکھاؤ کچھ کیا یا روز کی طرح کاپی گیلی کرتے رہے۔” باجی نے اس کے ہاتھ سے کاپی لی۔ ناگواری سے اسے دیکھا۔
“توبہ اب تو میں مار مار کے بھی تھک گئی ہوں کیا کروں تمہارا۔” کاپی بند کرکے اس کے سر پہ ماری اور پھر سامنے پھینک دی۔
” جاؤ بس چھٹی کرو۔ اتنا وقت برباد کرکے بھی دو لفظ نہیں سیکھے۔” اس نے جلدی جلدی کاپی بستے میں ڈالی پینسل باکس کی آدھی چیزیں واپس رکھیں آدھی وہیں بھول کر گھر کی طرف بھاگ لیا۔ بس چار دروازے چھوڑ کے گلی مڑتے ہی تو گھر تھا۔ جہاں امی پلیٹ میں کھانا نکال کے ٹھنڈا چھوڑ کے سوچکیں تھیں۔
اگلا دن پھر اس سے اگلا دن سب یونہی گزرتےچلے گئے۔ غیر معمولی تو بس وہی دن تھا۔ اماں اور نازنین باجی بھی بھول بھال گئیں کہ اس دن کا آغاز کیسا شاندار ہوا تھا کہ ایک دن پھر وہی تحفہ دروازے پہ مل گیا۔ اب کے امی ٹھٹھکیں۔
“نازنین ہو نہ ہو یہ تیرے ٹیوشن کے بچوں میں سے کسی کی حرکت ہے۔” پھر کئی دن تک امی ہر بچے کے جانے کے بعد دیر تک اسے گلی میں جاتا دیکھتی رہتیں مگر مجرم ایسا چالاک تھا کہ پکڑ میں ہی نہیں آتا تھا۔ کئی دن تک کوئی ایسی واردات بھی نہیں ہوئی۔ دھیرے دھیرے سب معمول پہ آنے لگا مگر امی اب بھی ہر بچے کے پیچھے پیچھے جاتی تھیں۔
اس دن بھی سب معمول پہ ہی تھا۔ وہی آدھے گھنٹے پہلے فرقان آیا پھر وہی بچوں کے آتے ہی کھسر پھسر وہی ذہین بچوں کا دوسروں کو کام کروانا کہ ایک دم فرقان کے برابر بیٹھا بچہ چیخ مار کے رونے لگا۔ فرقان نے اس کے بال مٹھی میں کس کے پکڑے ہوئے تھے اور وہ بچہ بلبلائے جارہا تھا۔ درد سے اس کا رنگ فق تھا۔
پہلے تو باجی اپنی جگہ بیٹھے بیٹجے چلاتی رہیں
” ارے چھوڑو اسے بدتمیز، ارے چھڑواؤ اسے۔” وہ بیک وقت کبھی فرقان کو اور کبھی دوسرے بچوں کو مخاطب کر رہی تھیں۔ آخر کار اپنی جگہ سے اٹھ کر آ ہی گئیں۔ فرقان کی کلائی پکڑ کے زور سے مروڑی کی اس کی مٹھی کھل گئی بچہ بستہ چھوڑ کے روتا ہواباہر بھاگ گیا۔ باجی نے پہلے تو تین چار تھپڑ اس کے منہ پہ مارے۔
“جاہل۔۔۔۔ پاگل، ذرا تمیز نہیں ہے وحشی کہیں کا۔ بہت ہوگیا اب میں اس جنگلی کو نہیں پڑھاؤں گی۔ تم اس قابل ہی نہیں ہو کہ تمہںی انسانوں کے ساتھ بٹھایا جائے۔ کھڑے ہوجاؤ دیوار کی طرف منہ کرکے خبردار جو ادھر ادھر منہ کیا ٹانگیں توڑ دوں گی تمہاری۔ ” اور بھی بہت کچھ بولتی رہیں لیکن یہ پوچھنے کی زحمت نہیں کی کہ مسئلہ شروع کیسے ہوا۔ فائدہ بھی کیا تھا پوچھنے کا، اس باؤلے کو کوئی وجہ تھوڑی چاہیے تھی اپنا پاگل پن دکھانے کی۔ ویسے بھی یہ بھی ہفتہ وار معمول کا حصہ تھا۔ وہ کل دوبارہ آتا اور دوبارہ یہی کچھ ہوتا۔
اسی لیے اس کے بعد بھی سب دوبارہ وہی معمول کے مطابق ہوتا رہا۔ بچے چلے گئے۔ برآمدہ خالی ہوگیا، چٹائی سمٹ گئی۔ اسے اپنے پیچھے آتے جاتے قدموں کی آوازیں آتی رہیں،پھر چمچوں کی ٹناٹن کی۔ پھر کتوں کے بھونکنے کی پھر باجی کو وہ یاد آیا کاپی تو آج دیکھنی ہی نہیں تھی یونہی دو تھپڑ دوبارہ مار دئیے اور چھٹی کردی۔
اماں نے بھی گھر سے نکلتے نکلتے کمر پہ دھپ لگا دی۔ پھر گلی مڑنے تک اسے دیکھتی رہیں۔ چند سیکنڈ گلی کے تاریک نکڑ کو گھورتی رہیں پھر دروازہ بند کرکے کنڈی لگادی۔
گلی میں ایک دو منٹ مزید خاموشی رہی پھر گلی کے نکڑ سے دوبارہ وہ سائے کی صورت باجی کے دروازے تک آیا اور اپنی الاسٹک والی شلوار گھٹنوں تک اتار کے بیٹھ گیا۔ رخسار آنسوؤں سے تر تھے ناک بہہ بہہ کر رال سے مل رہی تھی وہ مدھم بھنبھناہٹ جیسی آواز میں کچھ کہتا بھی جارہا تھا۔
“مجھے پاگل کہتی رہتی ہے۔ خود ہوگی پاگل اس کی اماں ہوگی پاگل۔ مارتی رہتی ہے۔ اللہ کرے مر جائے۔ اس کی اماں بھی مر جائے۔ میری اماں بھی جائے۔” منہ سے نکلتی رال بلبلے بن بن کے پھٹتی رہی۔
اس نے شلوار دوبارہ چڑھا لی اور مسکراتا ہوا گھر کی طرف چل دیا جیسے اس گو کے ساتھ اسے ملے تمام غلیظ روئیے بھی وہیں دروازے پہ پڑے رہ گئے ہوں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply