جہیز

جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی اس کے والدین کی قاتل خاموشی اس کے لئے وبال جان ثابت ہو رہی تھی۔ باپ کی مزدوری سے گھر بمشکل چلتا تھا، لیکن تین لوگوں پر مشتمل اس خاندان نے کبھی ماتھے پر شکن نہ آنے دی۔ لیکن کچھ دنوں سے اسے اندازہ ہوا کہ اس کے امی ابو کافی پریشان ہیں۔ کئی بار وہ سرگوشیاں کرتے بھی پائے گئے لیکن اسے دیکھ کر خاموش ہوجایا کرتے۔ نجانے کیا بات تھی جس نے گھر وہ ماحول پیدا کردیا جو کبھی فاقہ بھی نہ کرسکا۔ اسے یاد تھا کہ جب کبھی انہیں کھانے کو نہ ملتا تو پھر بھی وہ تینوں کس خوش اسلوبی سے گذارہ کرلیتے تھے۔ آخر کیا وجہ ہوسکتی ہے؟

ایک دن صبح صبح جب اس کے ابو جاچکے تھے تو اس نے ڈرتے ڈرتے امی جان سے پوچھا؟ سوال کے جواب میں چہرے کے بدلنے والے رنگ نے اشارہ دے دیا تھا کہ خبر اچھی نہیں، لیکن اس کی ماں ایک حوصلہ مند عورت تھی۔ فوراً سنبھلی اور جھوٹ موٹ کی مسکراہٹ لا کر کہنے لگی کچھ نہیں "تیری شادی سے متعلق فکر مند ہیں"۔ اس نے معصومیت سے کہا، "لو یہ تو خوشی کی بات ہے اس میں فکر مند ہونے والی کونسی بات ہے؟"۔ ماں نے اپنی آنکھوں میں تیرتے آنسوؤں کو سنبھالا اور اس کے بال سنوارتی ہوئی بولی "ہاں بیٹا، وہ تو ہے"۔

چند دنوں میں اس کے باپ کے دوست کے توسط سے کچھ لوگ اسے دیکھنے آئے۔ ایسا لگا وہ بہو نہیں بلکہ کوئی صفائی کرنے والی، کھانا پکانے والی یا کوئی خادمہ جو لڑکے کے ماں باپ کی خدمت کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہو، دیکھنے آئے ہیں۔ اسے لگا کہ جو شہزادے اس نے رومانوی افسانوں میں پڑھے تھے اور جو خواب بنے تھے وہ سب جھوٹ تھے۔ یہ تو وہ دنیا نہ تھی جس میں وہ رہا کرتی تھی۔ وہ تو کسی اور دنیا کی مخلوق تھی، نیلگوں آنکھوں والی گڑیا، ماں باپ کی دلاری گڑیا۔ یہاں تو کہانی ہی الٹ تھی۔ ایک ایک کرکے اس کے خواب چکنا چور ہوتے چلے جا رہے تھے۔ لیکن اس نے ابھی حقیقت کا سامنا کیا کہا ں تھا؟ اس نے ابھی تک جو بھی دیکھا تھا، وہ خواب تھا اور صرف خواب تھا۔

وقت گذرتا گیا اور لوگ اسے خریدنے کی غرض سے ٹٹولتے رہے ۔ لیکن اسے علم نہیں تھا کہ یہ دنیا کا شاید واحد سودا تھا جس میں بیچنے والےکو اپنے سب سے قیمتی سرمائے ساتھ اس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی تھی۔ آدھی رات تک اس نے نرم تکیوں پر سر رکھ کرایک شہزادے کے خواب بنے تھے وہ شہزادہ جو اس کے لئے تاج محل کھڑا کرے گا۔ وہ جس کے ساتھ اس کی زندگی پیار و محبت کی ایک نئی داستاں ہوگی۔ لیکن وہ لا علم تھی اور پھر اس کی باآواز بلند بولی لگائی گئی۔ یہ بولی لگانے والا قیمت طے کرنے میں جلدی نہیں کرتا شروع میں بس اتنا کہتا ہے"ہمیں لڑکی پسند ہے"۔ اب، اب کیا؟ اب تو ناچ گانا ہوگا، خوشیاں ہوں گی، ایک نئی زندگی کی شروعات ہوگی، محبتیں ہوں گی، وصل ہوگا، قربتیں ہوں گی۔ اور کیا ہوگا!
ارے پگلی ، ابھی تو شروعات ہیں۔ ابھی تو مال پسند آیا ہے، سودا طے تھوڑی نا ہوا ہے۔ ابھی تو قیمت طے ہوگی اور اس قیمت کو ہر کوئی جانتا ہے، ہر کسی کوعلم ہے۔ لیکن یہ سن کردینے والے محلول میں ڈوبا ایسا خنجر ہے کہ سامنے کھڑے شخص کا دل چیر کر نکل جائے اور اسے خبر بھی نہ ہو۔ جہیز تو وہ زہر ہے کہ نہ مارتا ہے اور نہ جینے دیتا ہے۔ یہ زندگی نہیں چھینتا، راتوں کی نیندیں چھین لیتا ہے۔

چولہے کے نزدیک باورچی خانے میں ایک دن اس کے امی ابو دونوں بیٹھے پھر سرگوشیوں میں مصروف تھے۔ اس نے بھی ٹھان لی کہ آج گستاخی کر گذرے گی۔ آج خاموشی سے وہ سب باتیں سن لے گی جس نے اس کے ابا اور اماں کے لبوں کی مسکراہٹ چھین لی تھی۔ ارے یہ کیا؟ آج تو وہ بھی خاموش نظر آ رہی تھی۔ کسی نے اس کی بھی مسکراہٹ چھین لی اور اس کی آنکھوں کی چمک کیا ہوئی؟ اس کے چہرے کی ہوائیاں اور شانے پر بے ترتیب بال، لگتا ہے اس کے سینے میں بھی کسی نے وہی خنجر چبھو دیا ہے اور اب وہ اندر ہی اندر آہستہ آہستہ مرتی جا رہی ہے۔ وہ وصل کی کہانیاں، وہ قربت کی چاشنی کیا ہوئی؟ اسکی آنکھوں کی روشنی، اس کے شانوں کے بال؟ یہ سب کہاں گئے؟

آج صبح اس کے ماں باپ بہت خوش تھے۔ کچھ پیسوں کا انتظام ہوگیا تھا، اس کے باپ نے کسی سے ادھار لئے تھے۔ لیکن کمرے میں داخل ہوتے ہی اس کی سانس گلے میں اٹک گئی۔ اس نے جھولے میں جھولتی بیٹی تو دیکھی تھی پر بیٹی کی جھولتی لاش دیکھنا اسے گوارا نہ تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارے معاشروں میں روزمرہ کی کہانیوں میں لڑکی اور اس کا خاندان بے شک پھندوں پہ نہ جھولتے ہوں۔ لیکن یقین مانیے، وہ اندر سے مر جاتے ہیں، انکا خون نچڑ جاتا ہے۔ اگر آپ صاحب استطاعت ہیں اور آپ کی بیٹی کی شادی ہے تو بائیکاٹ کیجئے اس لعنت کا، اگر آپ کی شادی ہے تو ہمت کرکے اپنے اور ان کے والدین کو منع کردیجئے۔ اور جہیز کی رال ٹپکا کر اپنے ہیجڑے پن کا ثبوت مت دیجیے۔ یقین مانیے شادیوں کے سیزن میں، ٹرالیوں اور سواریوں پر جہیز کا سامان نہیں بلکہ والدین کےجنازے اٹھ رہے ہوتے ہیں۔ ایک طرف ڈر ہوتا ہے کہ کہیں ظالم سماج ہماری گڑیا کا جینا حرام نہ کردے اور دوسری طرف مگرمچھ کی طرح منہ کھولے وہ نامرد جن کے ساتھ مرد لکھ کر پٹواری نے سماج کے ساتھ زیادتی کی ہوتی ہے۔

Facebook Comments

محمد حسنین اشرف
ایک طالب علم کا تعارف کیا ہوسکتا ہے؟

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply