علموں بس کریں او یار ۔ ۔ ۔ !

وہ جون کی ایک گرم سہہ پہر تھی۔ تیسری منزل پر میرے دفتر کے دروازے پر کھٹکا ہوا اور ایک انتہائی بال زدہ چہرے نے اندر جھانکا۔ کچھ خیر خیرات مل جائے، بھاگ لگے رہن۔ وہ کوئی مانگنے والا تھا۔
میں نے حسب معمول کچھ ریزگاری نکالی، جو ایسے موقعوں میں سخاوت کا بھرم رکھنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر ریزگاری لے لی، اور اسے چوم کر اپنے چوغے میں ڈال لیا۔ پھر ہال میں لگے اے سی کو دیکھ کر بولا، کچھ اے سی کی ٹھنڈی ہوا کی بھی خیرات کر دے اللہ والیو! اگر حکم ہو تو ادھر تھوڑی دیر ہوا لے لوں، باہر بہت گرمی ہے۔
میرا آفس بوائے کسی کام سے باہر تھا، اور میں دفتر میں اکیلا تھا۔ مجھے پہلے ہی حیرانی تھی، اسکو میں نے پہلے بار ادھر دیکھا تھا، اور ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ کوئی مانگنے والا تین منزل سیڑھیاں چڑھ کر ہمارے دفتر تک آئے۔ میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ وہ ہال میں رکھے ملاقاتیوں والے صوفے کے ساتھ ٹیک لگا کر قالین پر بیٹھ چکا تھا۔ ایسی جگہ جہاں اے سی کی ٹھنڈی ہوا بالکل اس کے سر پر پڑ رہی تھی، اور اس کے پراگندہ بالوں کی لٹیں ہوا سے ہل رہی تھیں۔
نیچے دو منزل کسی نے اجازت نہیں دی جی، اے سی میں بیٹھنے کی، وہ خود ہی بول پڑا۔ آپ سخی بندے ہیں، آپکا ماتھا دیکھ کر میں سمجھ گیا تھا آپ منع نہیں کریں گے۔ وہی بھک منگوں والی چاپلوسی، میں نے دل میں سوچا اور واپس اپنی میز کی طرف چلا گیا۔
نہیں جی، دعائیں تو ہم ہر ایک کے لیے کرتے ہیں، مگر کبھی کبھی دل سے بھی نکلتی ہے دعا۔ مجھے لگا اس نے میری سوچ پڑھ لی ہے۔ اللہ آپ کے کاروبار میں برکت دے۔ نئے نئے کام میں مشکل تو ہوتی ہے۔ وہ پھر دعائیہ انداز میں بولا۔
نیا کام؟ تم ادھر کب سے بھیک مانگ رہے ہو جو تمہیں پتہ ہے کہ ہم نئے کام کرنے والے ہیں؟ میں نے ایسے ہی اسکو سوال کردیا۔
نہیں جی، میں تو ادھر ، اس سڑک پر پہلی بار آیا ہوں۔ پہلے میں شہر میں شاہ عالمی میں رہتا تھا۔ پچھلے ہفتے میرے بھائی وال نے مجھے کمرے سے نکال دیا تو میں ادھر چلاآیا۔ ادھر میرا ایک پرانا بیلی ڈرائیور ہے کسی بڑے صاب کا۔ اسکا اپنا کواٹر ہے۔
تو پھر؟ میں نے سوالیہ انداز سے اسکو دیکھا۔ تمہیں کیسے پتہ کہ ہم نئے کام کرنے والے ہیں؟ اس نے ہلکی سی ہنسی ہنسی اور میری طرف ایسے دیکھا جیسے کوئی پروفیسر اپنی کلاس میں کسی نوارد کو دیکھتا ہے۔ پتہ چل جاتا ہے جی، اور میں نے تو ایسے ہی کہا ہے، غلط بھی ہو جاتا تو آپ نے کونسا میری جان کڈھ لینی تھی جی۔ زیادہ سے زیادہ مجھے گرمی میں باہر کڈھ دینا تھا۔
مجھے لگا میں نے ایک بیوقوفانہ سوال کیا ہے۔ واقعی یہ کوئی خاص بات نہیں تھی، اس نے تکا لگایا ہوگا۔ میں نے اسکو نظر انداز کر کے اپنا کام شروع کر دیا۔ مجھے ایک ضروری ای میل اپنے کلائینٹ کو ابھی بھیجنا تھا۔ میں اپنے لیپ ٹاپ پر انگلیاں چلانے لگا۔ وہ میری طرف متاثر کن انداز میں دیکھ رہا تھا۔
آپ کی طرح ہمارے کام میں بھی دماغ کا بڑا استعمال ہوتا ہے جی۔ اس نے کہہ کر میرا دل ہی جلا ڈالا۔ کہاں ہاتھ پھیلائے در در بھٹکتے رہنا، اور کہاں مارکیٹ کی تجزیاتی رپورٹیں لکھنا۔ میرا دل کیا اس کو ابھی نکال باہر کروں۔
کیسا دماغ کا استعمال؟ میں نے زرا تیز لہجے میں پوچھا۔ وہ بھی سمجھ گیا میرے لہجے کے تیکھے پن کو۔ زرا دھیمے لہجے میں سر جھکا کر بولا، صاب جی! یہ بات صحیح ہے کہ آپ پڑھے لکھے ہو، اور ہم انپڑھ۔ مگر جی اس بنانے والے نے دماغ سب کو برابر دیا ہے۔ بس سب اسکو استعمال نہیں کرتے۔ میں جی، اپنے دماغ کا بہت استعمال کرتا ہوں، بالکل آپ کی طرح جی۔
میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا، تو تمہارا یہ مطلب ہے کہ دربدر دھکے کھاتے ہوئے روٹی کے ٹکڑے مانگنے کا فیصلہ تم نے سوچ سمجھ کر کیا ہے ، اپنے دماغ کو استعمال کر کے۔ میں نے پوری کوشش کی تھی کہ میرے الفاظ زیادہ سے زیادہ تکلیف پہنچانے والے ہوں۔ اور میں کامیاب رہا، اس میں۔ اس نے ایک زرا افسوس سے میرے طرف دیکھا، جی یہ تو میرے رب کا فیصلہ تھا، میرے دماغ نے رب کا فیصلہ ماننے کی صلاح دی تو میں نے مان لی۔
اسکے جواب نے میری کمینگی کو واپس میری طرف اچھال دیا۔ واقعی پتہ نہیں کونسے حالات ہونگے جو اس نے بغیر بتائے مجھے سمجھا دیا کہ یہ حالات اس کے پیدا کردہ نہ تھے۔ میں نے تھوڑا شرمندگی محسوس کی، اور یونہی بات کرنے کی خاطر پوچھا، تو تمہارا دماغ کن باتوں میں استعمال ہوتا ہے؟
ہر بات میں جی، اسکی بشاشت میری زرا سی توجہ سے لوٹ آئی، ہر بات میں۔ یہ جو میں آپ، اس دنیا میں ایسے بیٹھے ہیں، آپ کرسی پر، میں قالین پر، یہ جو لوگ گاڑیوں میں جا رہے ہیں، جو جہاز اڑا رہے ہیں، جو ملک چلا رہے ہیں، یہ سب جی، میں نے اپنے دماغ سے ان سب کا جواب ڈھونڈا ہے جی۔
اب میری سمجھ میں آنے لگا، وہ اصل میں عقل سلیم (کامن سینس) کی طرف اشارہ کر رہا تھا کہ دنیا کے یہ سارے جھمیلے اس نے اپنی عقل سے سمجھے ہیں۔
اچھا تو یہ بتاؤ کہ تمہارا “دماغ” کیا کہتا ہے کہ خدا نے یہ دنیا کیوں بنائی ہے؟ میں اب اسکی باتوں میں مزہ لے رہا تھا۔ وہ محض ایک باتونی بھک منگا تھا، یہ میں سمجھ چکا تھا۔
اس نے میرے سوال کے جواب میں تھوڑی دیر سوچنے کی ایکٹنگ کی، جیسے واقعی وہ اپنے “دماغ” کو استعمال کر رہا ہو ، پھر بولا، جی آپ نے ایسا سوال پوچھا ہے جو پہلے میں نے کبھی نہیں سوچا۔ مگر ابھی میں نے سوچا تو اسکا جواب یہ ہے کہ میں یہ نہیں جان سکتا کہ خدا نے یہ دنیا کیوں بنائی۔ میں تو جی اپنے ڈرائیور دوست کے بارے میں پورا نہیں جانتا کہ اس نے پچھلے برس اپنی بیوی کو طلاق کیوں دی، تو میں خدا کے اتنے بڑے کام کو کیسے جان سکتا ہوں۔ اور پھر خدا جیسا کوئی دوسرا بھی نہیں جس کو دیکھ کر میں سمجھ سکوں کہ خدا ایسی حرکتیں کیوں کرتے ہیں۔
مجھے اپنے جواب سے غیر مطمئن سمجھتے ہوئے وہ مزید بولا، دیکھیں جی، میرا خیال تو یہ ہے کہ آپ کو ابھی ایسے سوال نہیں سوچنا چاہیں جن کا جواب کبھی نہیں ملنا، کیہ فیدہ۔
کیسے نہ سوچوں؟ مجھے اگر یہ پتہ نہیں چلے گا کہ خدا نے یہ دنیا کیوں بنائی، تو مجھے یہ کیسے پتہ چلے گا کہ خدا نے مجھے کیوں بنایا ہے؟ اور میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ میں نے اس کے سامنے مصنوعی پریشانی سے سر پکڑ لیا۔
وہ پھر سے ہلکی ہنسی ہنسا، لو جی اتنی آسان بات۔ واقعی پڑھے لکھے بندے کا دماغ کتابوں کی وجہ سے ۔ ۔ ۔ وہ کہتے کہتے رک گیا، میرا مطلب ہے جی کہ یہ تو سامنے کی بات ہے، اس کے لیے خدا کو اور اسکے کاموں کو جاننے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ اپنے آپ کو جان لو، اپنے کام کو سمجھ لو، اور بس۔ بس یہی آپ کی زندگی کا مقصد ہے۔
اس نے اتنی سادگی سے یہ کہا، اور اتنے یقین سے، کہ پل پھر کے لیے میرا دل چاہا کہ اسکو کوئی مہا بابا مان کر اسکے چرنوں میں بیٹھ کر دنیا تیاگ دوں۔ کاش زندگی اتنی آسان ہوتی۔ کاش میں اس بھکاری جیسا ہوتا، جسکا دماغ صرف “دماغ” کی سنتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے۔ میری زندگی تو واقعی کتابوں نے عذاب کر دی۔
یار، یہ اتنا آسان نہیں ہے، بس اپنے آپ کو جان لو، یہی زندگی کا مقصد ہے، ہونہہ۔ میں نے اسکی نقل اتاری اور کچن میں پڑی برقی کیتلی کو آن کر دیا، میں چائے کی شدید طلب محسوس کرنے لگا تھا۔
جی سر جی، یہ اتنا ہی آسان ہے۔ اس نے پھر اپنی بات پر اصرار کیا۔ آپ جی سب کتابوں کو بھول جاؤ، جو بھی آپ نے پڑھا ہے، سب چھوڑ دو جی۔ بس آپ سوچو کہ آپ نے کیا کرنا ہے، اور وہ کر دو۔ بس وہی آپ کی زندگی کا مقصد ہے۔ اسی کے لیے آپ پیدا ہوئے ہو۔ وہی آپ کا خدا آپ سے چاہتا ہے۔
او بھائی جی، میں نے تھوڑا بلند آواز میں کہا، اگر میرا دل چاہے کہ میں ڈاکا ماروں، کسی کو قتل کر دوں، یا کسی کا مال ہڑپ کر لوں، تو کیا وہی میری زندگی کا مقصد ہوگا؟ کمال بات کرتے ہو تم بھی؟ چائے پیو گے؟ میں اپنے لیے ایک کپ بنا رہا تھا، تو سوچا اب اس کے لیے بھی بنا ہی دوں۔
جی صاب جی، مہربانی، اللہ آپ کو اور زیادہ دے، چائے تو میں بہت شوق سے پیتا ہوں۔ ہاں جی، آپ شوق سے ڈاکا مارو جی، قتل کردو۔ اگر آپ کا دماغ آپ کو بتاتا ہے کہ یہ آپ نے کرنا ہے تو آپ اسی مقصد کے لیے بنے ہو۔
اب اس نے دماغ استعمال کرنے کی شرط لگا دی تو مجھے سوچنا پڑ گیا، گویا وہ کہہ رہا تھا کہ بنانے والے نے آپ کے اندر ہی مقصد کا فہم رکھ دیا ہے۔ آپ اس فہم سے باہر سوچ ہی نہیں سکتے۔
تو تمہارا مطلب ہے کہ یہ جو سب الٹے سیدھے کام دنیا میں ہو رہے ہیں، یہ خدا کی مرضی سے ہو رہے ہیں؟ میں نے چائے کا کپ میز پر رکھتے ہوئے اس سے کہا، تم اوپر بیٹھ جاؤ، چائے پی لو۔ وہ فوراً اٹھ کر صوفے پر بیٹھ گیا، اسکے چہرے پر واضح تاثر تھا کہ وہ صوفے کی نرمی اور آسائش کا مزہ لے رہا ہے۔ اس نے چائے کا کپ پکڑا اور آنکھیں بند کر کے چرس کا سوٹا لگانے کے انداز میں زور سے چائے گا سڑکا لگایا۔ سڑرررر ۔ ۔ ۔ کی آواز خالی دفتر کے ہال میں گونج گئی اور میرا یقین اور پختہ ہو گیا کہ کتابیں پڑھے بغیر یہ اجڈ و گنوار محض ایک باتونی بھکاری ہے، اور کچھ بھی نہیں۔
مرضی تو جی مجھے خدا کی کوئی پتہ نہیں، میں ایسے کیوں کہوں جی۔ مگر یہ تو میں آپ دیکھ ہی رہے ہیں ناں کہ بندہ بشر کتنا بے بس ہو جاتا ہے بعض وقت۔ تو میرا “دماغ” کہتا ہے کہ یہ سب لوگ جو کرتے ہیں ناں، یہ بے بس ہیں، کوئی باہر کے حالات کی وجہ سے، کوئی اندر کی حالت کی وجہ سے۔ میرا دوست ملک دوست محمد بھی بے بس ہے جی، وہی دوست جس کے کمرے میں میں رہتا ہوں جی، وہ بڑے صاب کا ڈرائیور۔ میں نے زور سے سر ہلایا تاکہ اسکو پتہ لگ جائے کہ میں اسکے دوست تک پہنچ گیا ہوں، اب وہ آگے بات کرے۔
جی، میرا دوست بھی بے بس ہے جی، بیس سال سے ایک پرائی عورت سے پیار کر رہا ہے، جو کسی دوسرے کے ساتھ بچوں کی ماں بن چکی ہے اب تک۔ کہتا ہے اس کے گاؤں کی ہے، بچپن میں وہ مجھے بھنے ہوئے بھٹے لا کر دیتی تھی۔ اب یہ تو جی اسکے اندر کی حالت ہے نا۔ آپ باہر سے جتنے مرضی زور لگا لو، وہ بے بس و بے سہارا ہی رہے گانا۔
دوستو! سچ پوچھیں تو اس مرحلے پر میں تقریباً ڈھیر ہوگیا۔ وہ انپڑھ اور گنوار بھکاری محض کامن سینس سے ، فلاسفی اور نفسیات کی وہ باتیں کر رہا تھا جن کے لیے کئی کتابیں پڑھنا بھی ناکافی ہوتا ہے۔ مجھے لگا کہ کہیں واقعی میں کتابیں پڑھ پڑھ کر ان سے باہر دیکھنے کی آنکھ سے ہی محروم ہو چکا ہوں۔ اسی لمحے مجھے یہ بھی خیال آرہا تھا کہ ہمارے اکثر صوفیا نے بھی “علموں بس کریں او یار” کا نعرہ لگایا ہے۔ تو کیا علم ہی عقل کا پردہ تو نہیں ہے ؟
دیکھو!، یہ جو اتنا علم ہے انسان کا۔ پیر پیغمبر اتنے آئے دنیا میں۔ اچھا برا سکھانے کو۔ یہ کرنا ہے وہ نہیں کرنا۔ اسکا حساب ہونا ہے اس کی پکڑ ہونی ہے۔ یہ سب کچھ نہیں تمہارے خیال میں۔ تم اپنے آپ کو اور اپنے دماغ کو ہی سب کچھ سمجھے بیٹھے ہو؟ میں نے اسکو اپنے انداز میں پکڑنے کا سوچا۔
وہ پھر ایک ہلکی ہنسی ہنسا، چائے کا ایک اور سڑکا لیا اور بولا، دیکھیں نا جی! سب پیر پیغمبر بھی تو ایک ہی بات کہتے ہیں نا، کہ اچھے کام کرو، کسی کو تنگ نہ کرو۔ وہی بات تو ڈھور ڈنگر بھی ہمیں سکھا دیتے ہیں۔ کتا جب تک ہلکاؤ نہیں ہوتا وہ بھی کسی کو نہیں کاٹتا جی، کہ کاٹتا ہے۔ اور ہلکاؤ کتے کا تو آپ کو زیادہ پتہ ہوگا جی، وہ تو بے بس ہوتا ہے، اسکو تو بیماری ہوتی ہے۔ اس سے تو ہم نے بچنا ہے، اس کی زمہ داری کوئی نہیں ہے جی۔
تو تمہارا مطلب ہے کہ دنیا میں جتنے برے لوگ ہیں وہ ہلکاؤ کتے جیسے ہیں ؟ بے بس اور بیمار؟
بالکل جی، بالکل۔ اس نے یقین سے سر ہلایا۔ جب تک کتے کا دماغ کام کرتا ہے، وہ کاٹتا نہیں ہے، انسانوں سے ڈرتا ہے۔ اپنے مالک کے پاؤں میں لوٹتا ہے، پوشل ہلاتا ہے۔ مگر جب اسکے اندر کی حالت بدل جاتی ہے تو وہ ہلکاؤ ہو جاتا ہے، اسکے بس کی بات نہیں رہتی، وہ باقی سب کی زمہ داری اور آزمائش بن جاتا ہے۔
تو جی میرا دماغ تو یہی کہتا ہے کہ اگر تو آپ کے اندر کی حالت ٹھیک ہے تو آپ کوئی غلط کام کر ہی نہیں سکتے۔ جب آپ کرنے لگو گے تو دماغ آپ کو بتا دے گا۔ اور اگر آپ کے اندر خرابی آ گئی تو پھر آپ بے بس ہو جی، باقی سب کے لیے آزمائش۔
تو تمہارا خیال ہے کہ یہ “بے بس” مگر برے کام کرنے والے لوگ بھی خدا جنت میں ڈال دے گا؟ انکو بھی عیش کی زندگی ملے گی؟ میں اسکی فلاسفی سے متفق نہیں تھا، اسلیے اسکو مذہب کی طرف موڑ دیا۔ مگر اس کے جواب نے مجھے پھر چاروں شانے چت کر دیا۔
نا جی ۔ ۔ ۔ نا ۔ ۔ نا ۔ ۔ نا ۔ ۔ ۔ وہ خالی کپ میز پر رکھتے ہوئے بولا۔ جب کوئی کتا ہلکاؤ ہو جاتا ہے تو دنیا کی نعمتیں بھی اس کے لیے حرام کر دی جاتیں ہیں۔ آپ نے دیکھا نہیں، اس کے منہ سے رال ٹپک رہی ہوتی ہے، آنکھیں کسی کی بچھان نہیں کرتیں۔ بس جی میرا دماغ کہتا ہے کہ جب کوئی اندر سے بے بس ہو، اور برے کام کرنے لگے تو وہ دنیا کی آزمائش کے لیے رکھ چھوڑا ہوتا ہے۔ وہ ہلکاؤ کتے کی طرح ہی ہوتا ہے، آخر میں اس نے مر کھپ جانا ہوتا ہے۔
تو صاب جی، مجھے یہ تو نہیں پتہ کہ خدا کی جنتوں میں کون جائے گا اور کون نہیں۔ مگر میرا دماغ یہ ضرور کہتا ہے کہ جو ہلکاؤ ہو جاتا ہے، وہ خدا کے کسی کام کا نہیں رہتا۔ وہ ردی ہو جاتا ہے۔ کوڑا کباڑ۔ جس کو جلا دیا جاتا ہے۔
وہ اٹھ کھڑا ہوا، اچھا صاب جی، خدا آپ کو بہتا دے، آپ نے ایک فقیر کی اتنی دیکھ بھال کی۔ اے سی کی ٹھنڈی ہوا، گرم چائے اور آپ کے مہنگے صوفے پر بیٹھنے کا بڑا مزہ آیا۔ میرا دن سونا بن گیا۔ واہ جی واہ۔
اس کے جانے کے بعد نا جانے کیوں میں اپنے ہاتھ میں چائے کا کپ لے کر صوفے پر بیٹھ گیا اور گرم چائے کا سپ لیتے ہوئے اے سی نکلتی ٹھنڈی ہوا کو اپنے چہرے پر محسوس کرنے لگا۔ مجھے بہت مزہ آرہا تھا۔

Facebook Comments

محمودفیاض
زندگی سے جو پوچھا ہے، زندگی نے جو بتایا ہے، ہم نے کہہ سنایا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”علموں بس کریں او یار ۔ ۔ ۔ !

Leave a Reply