تبصرہ کتاب: ” پارچے” از مرزا یسین بیگ تبصرہ نگار: صادقہ نصیر۔

زیر نظر کتاب” پارچے” کینیڈا میں مقیم مشہور مزاح نگار، ٹی وی ون کینیڈا کے اینکر، ادیب و شاعر مرزا یسین بیگ کی کی معرکتہ الآرا تصنیف ہے۔ اس کو بیگ پبلشر نے کینیڈا سے شائع کیا ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن 2016 میں اور دوسرا ایڈیشن 2020 میں منظر عام پر آیا اور تیسرا ایڈیشن جولائی 2022 میں ۔اس کتاب کو حاصل کرنے کے لئے فون نمبر 416489622اور ای میل myainb@yahoo.com
پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔۔اور اس تعارف کو پڑھنے والوں سے گزارش ہے کہ وہ اس کتاب کو خرید کر پڑھیں اور ضرور خریدیں اور ضرور پڑھیں۔

مجھے یہ کتاب ملی تو حسب مزاج تساہل کی بنا پر ایک طرف رکھ دیا شاید اس لیے کہ یہ مزاح کی ایک عام سی کتاب لگی زیادہ سے زیادہ ایک بات سرورق پر لکھی تھی”نئے دور کا مزاح”
مزاح کے بارے میں عام تاثر ہوتا ہے کہ لطیفے، شگوفے اور پھکڑ بازی اور فحش گوئی کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے۔ مرزا یسین بیگ کی ایک اور کتاب “پاپی” بھی نظر سے گزری ہے ۔اس خیال سے یہ کتاب دوبارہ اٹھانی پڑی کہ اتنی سنجیدہ کتاب کے مصنف کا مزاح کیسا ہوگا۔ اس تجسس کے ہاتھوں اس کتاب کا مطالعہ شروع کیا تو محسوس ہوا کہ یہ کتاب تو شیطان کی آنت کی طرح طوالت پکڑتی جا رہی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ دیکھنے میں تو عام ضخامت کی کتاب پر پڑھنے میں تمامتر احساسات،توانائیوں کو مجتمع کرکے پڑھنے والی مزاحیہ کتاب گرفت میں لیتی گئی۔ اس کتاب میں باتیں ہی کچھ ایسی لکھی گئی ہیں کہ ایک جملہ اور لفظ تو کیا لفظوں کے اوپر نیچے زیر زبر پیش اور نقطے بھی پڑھنے پڑے۔ اور ہر نقطہ اپنے تئیں رنگ ظرافت میں لپٹے شگوفے اور ایسے جملے ہیں کہ خود بخود ہنستے جائیے اور لوٹ پوٹ ہوتے جائیے کہ پیٹ میں بل پڑے تو قریب کوئی اٹھانے والا نہ ملے اس لیے احتیاط کے طور پر کسی کو ساتھ بٹھا لینا حفظ ما تقدم کے طور پر اچھا ہے اور کینیڈا میں تو خاص طور پر سیفٹی فرسٹ پر کام کرنا چاہیے ۔ مگر مصنف نے ان ظریفی نقطوں میں ایسے المیے اور سانحے چھپا رکھے ہیں جن کو صرف وہی آنکھ اور ذہن سمجھ سکتا ہے جو لطیفا خبیرا کی صفت رکھتا ہے ۔ اور اسے ہی محسوس ہو سکتا ہے کہ ان شگوفوں، مزاحیہ جملوں کو لکھتے وقت مصنف نے کیسے آنسو میں قلم ڈبوۓ ہوں گے۔ اور ثابت کردیا کہ مزاح نگار کتنا حساس ہوتا ہے۔ دراصل یہ بات مسلمہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی مزاح نگار پہلے کسی ناپسندیدہ بات پر جلتا ہے، کڑھتا ہے اور روتا ہے پھر بے بس ہو کر خود کلامی میں مسکراتا ہے اور اپنا غم غلط کرنے کے لئے قہقہہ بھی لگاتا ہے اور وہ کسی کو اپنے دکھ کے ہنستے چہرے کے ساتھ کچھ کہنا چاہتا ہے تو یہیں سے اس کی مزاحیہ تخلیق کا جنم ہوتا ہے۔ اور ایسی تخلیقات سے لوگ واقف بھی ہوں گے۔لوگ پڑھتے ہیں ، مسکراتے ہیں اور مزاح کو محفلوں میں بیٹھ کر سناتے ہیں اور قصہ ختم۔

Advertisements
julia rana solicitors london


لیکن مرزا یسین بیگ کی کتاپ”پارچے” قصے ختم کرنے والا قصہ نہیں ہے ۔ بادی النظر میں یہ صرف ہنسانے والا نسخہ ہے۔
میں نے یہ کتاب ایک عام قاری کی حیثیت سے بہ غرض شوق جملہ در جملہ ، لفظ بہ لفظ اور نقطہ در نقطہ پڑھی ہے اور میں اس کتاب کو دوسرے قارئین کو راغب کرنے کے لئے اپنا موقف پیش کرنے کی جسارت کرتی ہوں۔
اس کتاب کا عمومی تعارف یہ ہے:
اس کا اولین جملہ ایک بڑی سوچ اور وسعت نظر کی عکاسی کرتا ہے اور گہرائی رکھتاہے۔
مرزا یسین لکھتے ہیں”صنف مزاح میں کوئی فرقے بازی نہیں صرف فقرے بازی ہوتی ہے ۔ہر شخص بے وضو مسکرا سکتا ہے قہقہے لگا سکتا ہے۔ پوپلے بھی مزاح چبا کر ہضم کر سکتے ہیں۔ دعوت عام ہے۔ ورق الٹائیں اور خون جلاۓ بغیر خون بڑھائیں”
اس سے مصنف کی بے لوث خواہش کا اظہار ہے کہ وہ خوشیاں , مسکراہٹیں اور قہقہے بانٹنا چاہتے ہیں۔ مجھے تو لگا کہ وہ خاموشی سے ثواب بھی کما رہے ہیں کہ مسکرانا بھی صدقہ ہے۔انتساب اپنے بچوں کے نام ہے جنہیں وہ ہمیشہ خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔
اس کتاب میں کئی انوکھی اصطلاحیں بھی نظر آئیں گی اور منفرد جملے جو مصنف کی منفرد شخصیت کی عکاسی کرتے ہیں۔جیسے فہرست مضامین کو”ترتیب شگفتگی” کا نام دیا ہے۔یہ کتاب بڑے سائنٹفک انداز میں ترتیب دی گئی ہے۔اس کو عنوانات کے لحاظ سے چھ حصوں پر تقسیم کیا گیا ہے جیسے:
پہلے حصے میں عمومی عنوانات سے رنگ ظرافت بکھیرتے ،قاری کو قہقہوں میں لوٹ پوٹ کرتے مختصر مضامین ہیں جو عنوانات میں تنوع لئے ہوۓ ہیں۔ جو رنگ ظرافت, مزاح اور کاٹ دار چاقو کی طرح طنز سے بھی لبریز ہیں اور ایسا طنز کہ مرتامراتا بھی نہیں اور پانی بھی نہیں مانگتا۔قاری پڑھتے پڑھتے مسکراتا ہے، قہقہے لگاتا ہے اور لوٹ پوٹ ہوتا ہے جیسے زعفران کے کھیت میں ہو۔اسے یوں لگتا ہے کہ ایسا تو میرے ساتھ بھی ہوا تھا مگر میں ہنسا نہیں تھا شاید اسے ادراک ہی مصنف نے کروایا۔
ان لوٹ پوٹ کرتے مضامین میں یہ عنوانات ہیں:
قصہ ہوائی سفر کا،گرمیاں اور گوریاں،کتوں کا ڈپریشن،بیوی بلوغت کی ڈگری،جرابیں جوتوں کی معروف گرل فرینڈ ہیں،چاکلیٹ گناہ کم کرتی ہے،عقد ثانی،مولوی کو سلام، ووٹر اور لیڈر،نہانے سے پہلے یہ تحریر ضرور پڑھیں، انٹر نیٹ انسان کا تخلیق کردہ سیارہ،ٹوپی بڑے کام کی چیز ہے، اپنا بڑھاپا اور جرم قبول کرنا آسان نہیں۔
اس کے علاوہ شادی کھانا آبادی، سردی حد درجہ اسلامی لگتی ہے، ادبی تنظیمیں اور لاء اینڈ آرڈر کے مسائل ،تعزیتی پروگراموں کی افادیت، شلوار قمیض کپڑے اور بجلی کا اسراف، چائے شراب کی سوتیلی بہن، سر سبز دنیا اور ہمارا سبز پاسپورٹ، پاکستانی شریعت،ریلوے اور جمہوریت کی پٹری،مقدس گاۓ اور بیل، گے گذری باتیں، رمضان اور عید کے لواز مات، مغربی عورتوں کا جواب نہیں اور نہاری کی یاد میں۔
کتاب کا دوسرا حصہ بے جان اشیا کو مزاح کا نشانہ بناتا ہے جیسے:
پنکھا، استری اور بیوی کے بغیر گزارہ نہیں، دل چپل کے بعد سب سے زیادہ چرائی جانے والی چیز, میز کو امن کا نوبل پرائز ،انگوٹھی سے مزے اور سلاد کے لئے سبزی کا قتل وغیرہ۔
تیسرے حصے کو مصنف نے” چہرے جو میرے اپنے ہیں”
اس حصے میں وہ معروف شخصیات کا تعارف بھی کرواتے ہیں جن کو ہر خاص وعام جانتا ہے مگر جب مصنف کے ذریعہ ان کی رو نمائ ہوتی ہے تو ایسے کہ یہ معروف اور مشہور شخصیات دو ٹکے کی ہو رہتی ہیں اور یہ وہ تمام معروف شخصیات ہیں جنہوں نے پاکستان کے عوام کو ہمیشہ اپن طاقت، سیاست ،ذلالت اور سفاکیت سے دو ٹکے کا بناۓ رکھا۔ لیکن پاکستان کے عوام نے کبھی یہ محسوس نہیں کیا کہ وہ ذلیل ہو رہے ہیں۔ مرزا یسین بیگ کمال فن سے پہلے ان بے وقوف لوگوں کو ان کے بارے میں مزاح کے سہارے ہنسا ہنسا کر اس نہج پر لے آتے ہیں کہ قارئین کے کے آنسو نکل آتے ہیں اور یہی خوشی کے بے وقوف آنسو قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ کتنے بے وقوف تھے ۔ آج سمجھے تو یوں مصنف قاری کی صدیوں سے بند أنکھیں بھی کھولنے کا فریضہ انجام دیتے نظر آرہے ہیں جن بند آنکھوں کی وجہ سے پاکستان بھی خواب غفلت میں پڑا رہا ہے۔ ان شخصیات میں جن کا ذکر ہے ان میں سندھ کے آخری بزرگ رہنما سید قائم علی شاہ ہیں جن کی طویل عمری کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں” قائم علی شاہ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ انسان لا فانی ہے” ،
چوہدری نثار وگ اور وزارت کے بغیر نہیں جچتے، آصف علی کی انار کلی، نواز شریف پیدا ہوتے ہی میاں بن گئے، بارھواں کھلاڑی بارھواں صدر پاکستان ممنون حسین۔
چہرے جو میرے اپنے ہیں میں صرف ان سیاسی شخصیات کا ہی ذکر نہیں مصنف مرزا یسین بیگ نے کچھ اور بھی شخصیات کا ظریفانہ مگر بہت مؤدبانہ اور دل کی اتھا ہ گہرائیوں کے خلوص کے ساتھ ذکر کیا ہے بلکہ اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ اتنی عقیدت کے ساتھ کہ شاید وہ خود بھی رو پڑے ہوں گے تبھی “روتے روتے ہنسی آگئی ہے” کے مصداق یہاں بھی اپنے آنسوؤں کو مزاح کے ٹشو پیپر سے صاف کرتے ہوئے قارین کو ہنساتے اور رلاتے رہے ہیں۔
ان عنوانات کے تحت جو چہرے رقم کئے ہیں ان میں قمر علی عباسی، صبیح منصور، نیو کراچی سے نیو یارک تک کے خالد عرفان،سوشل قد آور پرویز صلاح الدین،رفیقوں کے رفیق سلطان رفیق سلطان،دھنک بکھیرنے والا سرور سکھیرا،شاعر کی حمایت میں حمایت علی شاعر، آپا شکیلہ رفیق اور عرفان ستار۔ ان سب پیارے چہروں میں سے کوئی بھی مصنف کی حس ظرافت سے نہیں بچ سکا۔ مگر اس ظرافت میں عقیدت کے موتی صاف چمکتے نظر أتے ہیں۔اپنا تعارف بھی وہ کراتے ہیں جس کا عنوان ہے”اپنی تعزیت آپ” اور دو مضامین اور ہیں ذکر ایک موصوفہ کا اور دوسرا “موصوف بھی کسی سے کم نہیں”
ان دو مضامین میں مؤنث شاعر و ادیب یعنی شاعرات فیشن زدہ اور ہلکی فطرت کے حامل بوڑھے ٹھرکی ادب نوازمرد شاعر اور ادیبوں کو اعزاز استہزا بخشا ہے اور ہوشیار کیا ہے سنجیدہ اور اصلی ادبی لوگوں کو۔
“چہرے جو میرے اپنے ہیں” میں مشہور سکالر ماہر نفسیات اور بہت بڑے منفرد قبل المسیح کے یونانی فلاسفروں کی طرح نظر آنے والے مگر غائب المنظر ڈاکٹر خالد سہیل بھی بچ کر نہیں نکلے ان کی شخصیت کے مضمون کو مصنف نے عنوان دیا ہے”آؤ ڈاکٹر خالد سہیل کو ڈھونڈیں”
مرزا یسین لکھتے ہیں کہ ہم خالد سہیل کو دیکھ تو سکتے ہیں مگر ڈھونڈ نہیں سکتے۔
مزید یہ کہ “یہ مرد ہو کر عورت سے زیادہ بے صبرے ہیں۔ عورت نو ماہ میں بچہ جنتی ہے اور ڈاکٹر سہیل چھ ماہ میں کتاب جنتے ہیں”
مستزاد یہ کہ “انہوں نے دنیا کا ہر حق ادا کیا ہے سواۓ حق مہر کے”
اور یہ بھی کہ”حقوق زوجیت ادا کرنے کے لئے قلم کا سہارا لیتے ہیں”
پارچے لکھنے والے مرزا یسین نے تو بل گیٹ کو بھی نہیں چھوڑا۔ وہ ان کی بے پناہ دولت سے بالکل مرعوب نہیں ہوۓ اور ان کی شخصیت کو”بل گیٹ جن کو خدا نے چھپر پھاڑ کی بجائے ونڈو پھاڑ کر دیا”
بل گٹ کے بارے میں وہ ایک مفروضہ قائم کرتے ہیں کہ اگر وہ پاکستان میں ہوتے تو ان کا کیرئر کیسا ہوتا مثلََا:
اگر گجرانوالہ میں ہوتے تو۔۔۔۔۔۔۔۔
لاہور میں ہوتے تو۔۔۔۔۔۔۔
اسلام آباد میں ہوتے تو۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئٹہ میں ہوتے تو۔۔۔۔۔۔۔۔
پشاور میں ہوتے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کراچی میں ہوتے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سب پڑھنے اور سر دھننے کے لائق ہے۔
کتاب کا چوتھا حصہ”کتابی باتیں” کے عنوان سے ہے جس میں مختلف مشہور ادیبوں کی تصانیف کو بھی ظرافت کی روشنائی سے قلم بھگو کر لکھا ہے۔ مثلا بلند اقبال کی کتاب کا ذکر کیا توعنوان دیا”میری اکیاون کہانیوں کی ماڈرن جھاڑ پھونک”
آپا شکیلہ رفیق کی دو کتابیں وغیرہ
کتاب کا پانچواں حصہ” تبرکات علیل جبران” کے نام سے ہے ۔علیل جبران ان کا اپنا تخلیق کردہ کردار ہے جسے وہ اپنا ہم زاد قرار دیتے ہیں۔ اس حصے میں بلا عنوان لا تعداد جملے ہیں جو وہ اپنی اس زیر نظر کتاب کی ثوابی عبادت کے آخر میں پرشاد یا تبرک کے طور پر بانٹتے ہیں۔
کتاب کا آخری حصہ “بازگشت” کے نام سے ہے جس میں مصنف نے اپنی ہی گزشتہ مطبوعہ کتاب ” دیسی لائف ان کینیڈا” پر معروف ادیبوں کے تعارفی و تبصراتی نوٹ شامل کئے ہیں۔
اختتامی نصیحت:
جو احباب اس تعارفی تبصرے کو پڑھ رہے ہیں انہیں مشورہ ہے کہ اس کتاب کو ضرور پڑھیں کہ یہ کتاب محض مزاح نہیں ہے بلکہ اپنی نوعیت میں ایک مسیحا،مصلح ، غمگسار،تحریک اور دلنواز دوست ہے ۔
اگر آپ ہنسنا بھول گئے ہیں،رو رو کر آپ کی آنکھیں خشک ہو گئی ہیں، آپ جل جل کر اور کڑھ کڑھ کر بے بس ہو گئے ہیں معاشرے کی منافقتوں پر بولنے کی بجاۓ خود بھی منافقت کے پاتال میں گر گئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ کو کوئی ہاتھ پکڑ کر اس پاتال سے نکالے تو “پارچے” کو پڑھیئے ۔ اگر آپ مذہب کے نام نہاد ٹھیکے داروں کے ہاتھوں پریشان ہیں اور آپ کا ایمان ان ٹھیکیداروں کے ہاتھوں  متزلزل ہے ،آپ کا قبلہ درست نہیں ہے اور آپ مذہب کے ٹھیکیداروں کی منافقتوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے تھر تھر کانپ رہے ہیں اور بولنے کی جرات نہیں ہے اس کتاب سے ایسی قوت ملے گی کہ حرارت ایمان سے مغلوب ہو کر اپنے ایمان کا قبلہ درست کرکے شرک کی گمراہیوںسے بچ سکتے ہیں۔ دیر نہ کریں “پارچے” پڑھیں۔ اور آخری بات کہ اگر آپ جنت میں ایجنٹوں کی مدد کے بغیر براہ راست پوائنٹ سسٹم پر ویزہ لینا چاہتے ہیں تو “پارچے” پڑھئے اور ہنستے مسکراتے بلا دوزخ کے خوف و ہراس کے جنت میں امیگریشن حاصل کریں۔ تمام رہنما اصول اسی ہنستی رلاتی پرخچے اڑاتی کتاب میں ملیں گے۔

 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”تبصرہ کتاب: ” پارچے” از مرزا یسین بیگ تبصرہ نگار: صادقہ نصیر۔

  1. آپ کا پارچے پر لکھا تبصرہ پڑھا ۔ میں نے یہ کتاب دو برس پہلے پڑھی تھی۔جب یاسین بیگ 2022 میں پاکستان آئے تو انھوں نے مجھے عطا کی تھی ۔ جن دنوں میں یہ کتاب پڑھ رھا تھا تو میرے ایک بچپن کا اوپن ھارٹ سرجری کروانے کے بعد ایک قریبی گیسٹ روم میں محو استراحت تھا۔ میں ھر روز اس کو کتاب کا ایک مضمون سناتا ۔ وہ اور اس کی فیملی اتنا ھنستے کہ مجھے ایک مضمون سے زیادہ پڑھنے کی اجازت نہیں تھی۔ پھر وہ صحت یاب ھو کر گھر چلا گیا ۔ لیکن اب وہ اور اس کی بیگم مجھ سے ملنے آتے ھیں تو ایک مضمون پارچے کا ضرور سنتے ھیں ۔ اب میں دوبارہ پارچے پڑھ رھا ھوں۔
    میں نے آپ کے تبصرے پر تبصرہ لکھنے لگا تو قلم رک گیا ۔کیونکہ میں اس تبصرے سے اچھا نہیں لکھ سکتا ۔ آپ جو بھی کام کرتی ھیں ، دل و جاں سے کرتی ھیں ۔ سلامت اور خوش باش رھیں ۔ پارچے پر ایک یاد گار تبصرہ کرنے پر مبارک باد

Leave a Reply