“لیکاں” پہاڑی خاکوں پر مشتمل ایک بہترین تخلیق/قمر رحیم خان

جنگ اخبار میں طویل مدت تک اپنے کارٹونوں کے ذریعے پاکستان کی سیاست، معیشت اور معاشرت کا جو نقشہ جاوید اقبال پیش کرتے رہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ان کا ہر کارٹون ایک کہانی ، ایک تاریخ، ایک المیے کا بیان ہے۔اگر یہ کارٹون اپنے کیپشن اور تاریخ کے ساتھ چھپ جائیں تو ہم جیسے کتاب دشمنوں کو پاکستان پر مزید کسی مطالعہ کی ضرورت نہ رہے۔یہ آڑھی ترچھی لکیریں پاکستان کے شب و روز کا انمول اظہار ہے۔یہ ایک فنکار کے اپنے مشاہدات و تجربات کو بیان کر نے کی وہ شکل ہے جو اگر نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ جاوید اقبال کے یہ کارٹون مجھے تب یاد آئے جب میں نے ڈاکٹر صغیر صاحب کی پہاڑی خاکوں پر مشتمل نئی تصنیف “لیکاں” کی ورق گردانی شروع کی۔میرے نزدیک الفاظ کے ذریعے ایک شخصیت کا پورٹریٹ جمع کارٹون بنانا خاکہ نویسی کہلاتا ہے۔کہنے کو یہ آسان مگر حقیقتاًخاصا مشکل کام ہے۔ اس کا اندازہ مجھے اوّل اوّل کبیر خان صاحب کے خاکے پڑھ کر ہو ا، پھر”یادوں کی بارات” میں شامل خاکوں نے میرے خیال کو اور بھی پختہ کر دیا۔”کندن” پڑھا تو بھی اپنے خیال کی تصدیق ہوئی اورپھر جب “دوزخی” کی بے باکی کو دیکھا تو میں اپنے خیال پر ایمان لے آیا۔”کالو بھنگی” ایک ایسا افسانہ ہے جس سےکالو بھنگی کا خاکہ نکال دیا جائے تو کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔

اس طرح کی تحریریں پڑھ لینے کے بعد کسی نئی کتاب کو ہاتھ لگاتے ہوئے آدمی دس بار سوچتا ہے۔ لیکن “لیکاں” میں نے ہاتھ آتے ہی پڑھنا شروع کر دی۔ پہلی وجہ یہ تھی کہ اپنے ہاں کے کسی بھی ادیب یا شاعر کو میں جلد پڑھنا شروع کر دیتا ہوں۔ لیکن “لیکاں” کو فی الفور پڑھنے کی وجہ یہ تھی کہ اس میں میرا خاکہ بھی چھپا تھا۔ میں نے اپنا خاکہ پڑھا اور پھر سردیوں کی دھوپ میں جنگلے کی ٹیک لگا کر دیر تک یہ سوچتا رہا،ڈاکٹر صغیر کے کتنے روپ ہیں۔ ان کے کتنے روپ ایسے ہیں جن میں ان پر چڑھا روپ دیکھ کر خوشی بھی ہوتی ہے اور یہ خواہش بھی دل میں پیدا ہوتی ہے ، کاش اپنا بھی کوئی روپ سروپ ہوتا!بس ایک ہی بات پر میں کنفیوز ہوں ۔ وہ مجھے صاحب مطالعہ شخص قرار دے رہے ہیں۔ یا تو یہ طنز ہے یا ان کی معلومات ناقص ہیں۔بعینہ برادرم حمید خان ،سردار انور ، عزیزی وسیم اعظم ، عتیق بھائی اور سردار صغیر صاحب سے خان اشرف صاحب تک سبھی خاکے پڑھنے کے بعد میں نے دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا کہ پہاڑی کو ایک بڑا خاکہ نگار مل گیا ہے۔

پھر ایک صبح غازی ممتاز صاحب کا خاکہ پڑھا تو یادوں کا ایک سیلاب امڈ آیا۔ جس میں ہر ایک یاد کاغذی کشتی کی مانند دیر تلک ہچکولے کھاتی اور غرقاب ہوتی رہی۔ گھنی ،گہری بھوری داڑھی جس میں پورا چہرہ ڈھکا ہوا، حتیٰ کہ داڑھی کے بال آنکھوں تک تجاوز کیے ہوئے۔مونچھوں کے لمبے، سیدھے اور مضبوط بال کہ مسکرانے پر بھی دانت مشکل سے نظر آئیں۔ درمیانی ناک اور چھوٹی چھوٹی آنکھوں پر ‘لیکاں’ بھری سفید چمکتی پیشانی اور اس پر ایک فکر مند دماغ۔ڈارک گرین کلر کا کمانڈو کوٹ ، متناسب جسم پہ صاف ستھرا لباس ، مسکراتے چہرے کے ساتھ نرم گرم گفتگو کے دوران چائے کی چُسکیا ں اور سگریٹ کی دھُونی ۔ شہر کے ایک کونے میں، دکانوں کی چھت پر ،سردیوں کی دھوپ میں اب بھی بہت سے لوگ بیٹھتے ہیں مگر وہ نہیں ہے۔

دیر بعد یادوں کی راہداریوں سے باہر نکل پایا۔ بے ارادہ، یونہی ورق الٹتے پلٹتے حفیظ بھائی (پیرزادہ حفیظ) کا نام بھی سامنے آگیا۔ دل کا ایک اور زخم کھلا اور پھر کھلتا ہی چلا گیا۔ اب اس شہر میں کوئی کس سے ملے؟ وہ جیسے ملتا تھا،کم ، بہت ہی کم لوگ ایسے ملے ہیں۔جن میں سردار رشید حسرت صاحب کا نام سر فہرست ہے۔ ان کا خاکہ بھی کتاب میں شامل ہے۔پھر دل کی کیفیت ایسی ہوئی کہ ایک ڈیڑھ ماہ تک “لیکاں” تو درکنار کوئی بھی کتاب کھول کر دیکھی نہ کچھ لکھا۔

اگلی نشست میں سردار آفتاب صاحب کی شخصیت میرے سامنے تھی۔ یوں میرے لیے یہ کتاب ایک امتحان بن گئی اور میں بمشکل تمام ہی اسےختم کر پایا۔ کتاب کی آخری تحریر ڈاکٹر صاحب کا اپنا خاکہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں ؛ ” اُچا قد، کرنگڑُو بال، سمجھی نا کھنگرے موافق، چوڑا جیا متھا، بڑیاں اکھیں جنّیں وچ لو تے تھئی فہ پتہ نئیں انّیں نا پانی کیدوں مری گیا سا۔لمبے لمبے ہتھ، بے ٹہنگی جول ٹور،ہلّاں کیتے نے پیر، اے اُس اُونٹے جیا دا جس نی کوئی کل سدّھی نئیں۔سچ یو دا کہ اے تھیا اے بے ٹہنگا جیا۔نہ اس لائے نا پتہ ، نہ کھادے نا پتہ”۔

ڈاکٹرصاحب نے اپنے والدین، دادا، بہن ،بھتیجی ، دیگر اقربااور چند ایک احباب کے علاوہ کچھ ادبی شخصیات کے خاکے کتاب میں شامل کیے ہیں۔ کبیر صاحب پر ان کا خاکہ بڑے بھائی سے محبت کا انمول اظہار ہے۔ کتاب میں شامل 31 شخصیات میں سے زیادہ تر کو میں کسی نہ کسی حد تک جانتا ہوں۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ڈاکٹر صاحب نےرو رعایت سے کام لیا نہ لگی لپٹی کہی ۔ ہر ایک کے بارے میں اپنی رائے کا کھل کر اظہار کیا۔ جو جیسا تھااسے تقریباً ویسا ہی بیان کیا۔ مرچ مصالحے یا گُڑ شکر کا استعمال نہیں کیا۔ اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب کی طنز و مزاح کی صفت بھی نمایاں ہو کر سامنے آئی ہے۔ اپنا خاکہ لکھتے ہوئے وہ پورے جاوید اقبال نظر آتے ہیں۔ خاکے میں ایک شخصیت کے تمام (معلوم ) محاسن کو بیان کیا جاتا ہے۔ مگر کیسے بیان کیا جانا چاہیے؟ اس کا دارومدار خاکہ نگار کے مشاہدہ اور انداز بیان پر ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس باب میں اپنے خاکوں پر خاصی محنت کی ہے۔سبھی تحریریں ہلکی پھلکی ، عام فہم اور کافی حد تک مزاح سے بھرپور ہیں۔ان شخصی خاکوں میں مقامی کلچر کی جھلک بھی نمایاں نظر آتی ہے۔ ان کے دادا کا خاکہ اس کی بہترین مثال ہے۔

کتاب کا ہر ایک خاکہ اپنے حجم کے اعتبار سے متوازن اور مواد و معیار کے حوالے سےایک نمونے کا درجہ رکھتا ہے۔ اکثر خاکے ساڑھے تین صفحات پر مشتمل ہیں اور اپنی شخصیت کا مکمل احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ اختصار نثر کی بڑی خوبیوں میں سے ایک ہے۔ اوراس درجہ کا اختصار جو اپنے موضوع کا احاطہ انصاف کے ساتھ کر سکے بہت بڑی خوبی ہے۔ ڈاکٹرصاحب نے اس ضمن میں کمال مہارت سے کام لیا ہے۔ اتنی نپی تلی تحریر یں جو مختصر بھی ہوں، مکمل بھی اور متوازن بھی اور پھر سونے پہ سہاگہ یہ کہ پہاڑی زبان میں ہوں ، “دینی” کی روشنی میں سوئی کو دھاگہ لگانے کے مترادف ہے۔ پہاڑی زبان میں خاکہ نگاری کا آغاز ہی ہمارے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔ جبکہ اس درجہ کی خاکہ نگاری کہ اسے اردو خاکہ نگاری کے مقابل پیش کیا جا سکے ، یہ پہاڑی زبان کی بہت بڑی خدمت ہے۔ اس خدمت پر ہم ڈاکٹر صاحب کے تہہ دل سے احسان مند ہیں۔

“لیکاں ” پہاڑی زبان میں لکھے گئے خاکوں کی پہلی کتاب ہے۔ لیکن لگتا ہے ڈاکٹر صاحب مستقل خاکہ نگار ہیں اور لیکاں خاکوں پر مشتمل ان کی سب سے اچھی تخلیق ہے۔اس سے قبل پہاڑی نثر میں ڈاکٹر صاحب نے افسانہ، ناول،سفر نامہ اور مضامین، پر کام کیا ہے۔ ان سب اصناف پر پہاڑی میں پہلی بار کام ہوا ہے۔ ان کے تین افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ بعض افسانے اتنے اچھے ہیں کہ یقین نہیں آتا پہاڑی زبان میں اتنا اچھا افسانہ لکھا جا سکتا ہے۔اس اعتبار سےجہاں وہ پہاڑی کے پہلے اور بڑے افسانہ نگار، سفر نامہ نگار اور ناول نگار ہیں وہاں خاکہ نگاری میں بھی ان کا فن اپنے عروج پر ہے۔یوں میرے لیے اس بات کا تعین کرنا مشکل ہے کہ کس صنف میں ان کا کام سب سے اچھا ہے۔ البتہ یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کی ریاضت نے انہیں پہاڑی کا بڑا ادیب اور ایک معتبر نام بنا دیا ہے۔مجھے انتہائی خوشی ہو گی کہ ان کے اس مقام تک اور بھی کوئی پہنچ پائے لیکن اس کا امکان کم ہی نظر آتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ان کے زیر بحث خاکوں کے حوالے سے مجھے زیادہ خوشی اس بات پر بھی ہے کہ کچھ ایسے لوگ جن سے ہمارا بڑا پیارا تعلق تھااور جو کبھی ہماری محفلوں کی جان تھے اورہمارے شہر کی رونق تھے اور جن کی اب صرف یادیں باقی رہ گئی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ان پر لکھ کر نہ صرف انہیں پھر سے زندہ کر دیا ہے۔بلکہ ان سے وابستہ یادوں کو اور اس دور کو اس نداز میں بیان کیاہے کہ جو کوئی بھی ان خاکوں کو جب بھی پڑھے گا، گزرا ہوا یہ دور اسے زندگی سے اور زندگی عطا کرنے والے سے قریب تر کرتا چلا جائے گا۔ میرے نزدیک اس کتاب کا یہ پہلو سب سے اہم اور سبق آموز ہے۔ادب برائے ادب یا ادب برائے زندگی کی بحث سے بڑھ کر ادب برائے بندگی میرے نزدیک ادب کی سب سے بڑی خدمت ہے۔ خاکہ نگاری کی صنف کا یہ پہلو پہلی مرتبہ میرے سامنے آیا ہے اور اس نے مجھے بے حد متاثر کیا ہے۔ در حقیقت کام آنے والا ادب وہی ہے جو انسان کو اس کی حقیقت سے آشنا کر دے۔ ڈاکٹر صاحب کی یہ تصنیف اس طرح کا پورا سامان لیے ہوئے ہے۔ڈاکٹر صاحب کو ان کے قلم نے جہاں قارئین اور ادبی حلقوں میں ایک خاص مقام اور اعتبار بخشا ہے ،امید ہے اور دعا بھی کہ ان کا قلم خدا کے حضور بھی انہیں سر خرو کر دے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply