رواق۔افسانوی مجموعہ/خالددانش

بند ہونٹوں سے کوئی آہ نکلنا چاہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

زیرِ مطالعہ افسانوی مجموعہ ،غماز ہے کہ سلمی کشم نے حتی الامکان کوشش کی ہے کہ ہر افسانے کی بنت میں جملوں کا دروبست مناظر ،کرداروں اور کہانی کو مضبوطی سے آگے بڑھایا جائے اور پھر سلمی کشم نے احسن طریقے سے اپنی فکر کو عملی جامہ پہنا ہی دیا۔۔
ساٹھ سال پیچھے چلے جائیں تو افسانہ اپنی اصل روح کے ساتھ زندہ دکھائی دیتا رہا ہے،ہمارے افسانہ نگاروں نے فن افسانہ کو جو چہرہ عطا کیا تھا اسے مدنظر رکھتے ہوئے اب یہ کہنا پڑے گا کہ۔۔
“آج کے افسانے کا اس قدیم حسن سے تعلق بتدریج کم ہوتا چلا جا رہا ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔”
یاد رکھیں۔۔آج کے افسانے کی بے چہرگی بے وجہ بے سبب نہیں ہے۔اس تنزلی اور افسانے کے معیار کا گراؤ دراصل ہر آن بدلنے والی زندگی سے تخلیق کار کا گریزاں رہنا ہے۔
جب افسانہ نگار خوف کی ننگی تلوار سر پر لٹکی محسوس کرنے لگے اور علم حق اٹھانے میں ڈرنے لگے تو سمجھو کہ اس کی جرات زندانہ جواب دے چکی ہے،
بس یہیں سے افسانے کی موت کا آغاز ہوا،پھر افسانہ کچھ یوں بھی رو بہ زوال ہوا کہ جب تہ بہ تہ علامت نگاری نے اچھے افسانے کا معنی و مفہوم ہی تہہ خاک ملا دیا جو افسانہ نگار اور قاری کے درمیان حد فاصل بن گئی۔۔
لیکن اگر انور سجادڈاکٹر رشید اور منشا یادجیسی قابل قبول علامت نگاری افسانے کا حصہ بنائی جائے تو کہانی کی خوب صورتی ،معنویت اور تہہ داری بہر صورت پراثر رہے گی، مگر جہاں فیشن کے طور پر علامت کو استعمال کیا جائے گا تو خوب سمجھ لیجئے کہ افسانہ قاری کے لیے یک سر ناقابل فہم ہو جائے گا۔ ایسی حالت میں تخلیق کا زوال پذیر ہونا یقینی ہو جاتا ہے۔
افسانے کی دنیا میں قدم رکھنے والے افسانہ نگاروں کی قلم سے بکھرے موتی قابل تعریف ہیں، بس ہمیں غلام عباس،احمد ندیم قاسمی ،کرشن چندر اور منٹو کو دلجمعی اور انہماک کے ساتھ پڑھنا اور نووارد افسانہ نگاروں کو پڑھانا ہے تاکہ وہ دنیائے افسانہ میں اپنا مقام بنا سکیں،جیسے آج سلمی کشم کا ہر افسانہ بلندیوں کو چھوتا نظر آ رہا ہے۔۔
سلمی کشم کے افسانے، چپ، رَن لکشمن ،اُترن، گود،جونک،اورمخنّث،پڑھنے کے بعد بے ساختہ داد دینی پڑی کہ ہر کہانی کا بہاؤ لمحہ بہ لمحہ ورطہ حیرت میں ڈال رہا ہے۔۔
سلمی کشم کے قلم سے بکھرے افسانے زندگی کا ایک رخ بیان نہیں کرتے بلکہ زندگی آئینے کی صورت دکھائی دینے لگتی ہے،جہاں رشتوں کا تقدس ،ایمانی حلاوت،عروج و زوال،ابحاث و دلائل،ہجر و وصال،نفرت کے مقابل محبت کا سینہ سپر ہونا اور اصلاح معاشرہ کی روشن لکیریں نظر آتی ہیں جو سلمی کشم کے وسیع و بسیط مطالعے کی ترجمانی ہے۔۔
سلمی کشم کے اکثر افسانوں میں معاشرتی اور سماجی انتشار کو حددرجہ سلیقہ مندی سے بیان کیا گیا ہے جس سے قاری کو ذہنی کوفت اور ذہنی تناؤ نہیں ہوتا بلکہ سہل و رواں جملے اسے آگے پڑھنے پر اکساتے رہتے ہیں۔
یہی خوبی افسانہ نگار سلمی کشم کے مشاق ہونے کی دلیل ہے۔
سلمی کشم کی اضافی خوبی جو مجھے مذکورہ مسودے کے افسانوں میں موجزن نظر آئی وہ مضبوط پلاٹ ،کردارنقطہ نظرمکالمےاغاز و اختتام اور اسلوب بیان ہے۔۔
پلاٹ۔۔
سلمی کشم نے ہر افسانے میں واقعات کی ترتیب کو ملحوظ خاطر رکھا اور بالترتیب افسانے کو آگے بڑھاتی چلی گئیں جس سے افسانے میں پختگی کا عنصر نمایاں ہوا یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ افسانہ بھٹک نہ سکا اور منطقی انجام متاثر کن ثابت ہوا۔۔
کردار ۔۔
کہانی کے متحرک کرداروں،ان کی حرکات و سکنات،خیالات و نظریات اور حالات و واقعات کو سلمی کشم نے انتہائی معنی خیز طریقے سے پیش کیا جس سے افسانوں کا بیانیہ بہ آسانی ابھر کر سامنے آ گیا ہے۔
نقطہ نظر۔۔
سلمی کشم نے اپنے افسانوں کی خوب صورتی کو چہار چند کرنے کے لئے اپنے مدلل نقطہ نظر کا سہارا لیا ہے جو قاری کے لئے کسی حد تک قابل قبول بھی ہو گا۔۔
مکالمے۔۔
کرداروں کے درمیان ہونے والی گفتگو میں سلمی نے عمدہ تراکیب سے جملے مزین کئے ہیں جس سے ہر کردار کا ظاہر و باطن عیاں ہو گیا جو سلمی کشم کی مشق سخن پر واضح دلیل ہے۔
آغاز و اختتام۔۔
زیر نظر افسانوں کا متاثر کن پہلو یہ بھی ہے کہ قاری ابتداء میں ہی متاثر ہو جاتا ہے اور یہی پسندیدگی اسے اختتام تک پہنچنے میں کارگر ہوتی ہے۔۔
اسلوب و بیاں۔۔
آخر میں یہی کہوں گا کہ طرز نگارش کافی حد تک اثر انگیز ہے جب کہ بعض افسانوں کا کینوس چھوٹا ہے ،مگر اس کے باوجود ہر افسانہ خود میں اثر سموئے ہوئے ہے۔۔
سلمی کشم کو اس مثالی کاوش پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ملتمس ہوں کہ اپنے مطالعے کی روشنی میں نئے آنے والوں کی رہنمائی کریں۔
رب العالمین سلمی کشم کے علم و فن میں برکت عطا فرمائے آمین

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply