• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کیا واقعی پاکستانیوں میں کرونا  وائرس کے خلاف امیونٹی بہتر ہے ؟۔۔مرزا یوسف بیگ

کیا واقعی پاکستانیوں میں کرونا  وائرس کے خلاف امیونٹی بہتر ہے ؟۔۔مرزا یوسف بیگ

کرونا وائرس کے بارے میں ہر روز کوئی نہ کوئی نیا انکشاف ہوتا رہتا ہے ۔ یہ سٹرین ابھی تک  اتنا نیا ہے کہ اس کی ایپیڈمیالوجی کے بارے میں یقین سے کچھ کہنا بہت مشکل ہے ۔ انگلینڈ میں کرونا وائرس کا سیزن شروع ہوئے تقریباً دو  مہینے  ہو چلے ہیں اور خیال کیا جا رہا ہے کہ اگلے دو ہفتے تک اس کا پیک یا عروج آ جائے گا ۔ پھر یہ پیک کتنے عرصے تک قائم رہتا ہے اس بارے میں اندازہ لگانا قدرے مشکل ہے ۔ اب تک حاصل ہونے والے ڈیٹے  سے جو معلومات آشکار ہوئی ہیں ان کا خلاصہ پیش ہے۔

کرونا ہر عمر کے لوگوں کو لگ جاتا ہے ۔ پہلے یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ  بچوں کو یہ نہیں  لگتا، لیکن یہ  خیال غلط ثابت ہوا ہے ۔ ایک سال تک کے بچے کرونا سے متاثر پائے گئے ہیں اور بیس سال سے کم عمر والے بچے اس سے ہلاک بھی ہوئے ہیں ۔

دوسری تشویشناک بات یہ ہے کہ کرونا انتہائی سخت لاک ڈاؤن میں بھی پھیل رہا ہے ۔ انگلینڈ میں لاک ڈاؤن کا اعلان بائیس مارچ کو ہوا تھا اور تیس مارچ تک اس پر مکمل عمل درآمد شروع ہو چکا تھا لیکن اس کے باوجود کل چوبیس اپریل کو پانچ ہزار سے زائد نئے کیس سامنے آئے ہیں ۔ ان سب کو کرونا سخت لاک ڈاؤن کے دوران ہی لگا ہے اور ان میں سے بہت سے ایسے لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے پورے مہینے گھر سے باہر قدم نہیں  رکھا ۔ اس سے لگتا ہے کہ کرونا باہر سے آنے والی چیزوں مثلاً ڈاک , پارسل اور شاپنگ بیگ وغیرہ سے بھی پھیل رہا ہے ۔ کچھ ڈاکٹرز کا خیال ہے کہ گھر کے اندر آنے والی آلودہ ہوا بھی اس کا باعث ہو سکتی ہے لیکن اس مفروضے کے کوئی شواہد نہیں  مل سکے ہیں۔

یہ بات اب  واضح ہو چکی ہے کہ اگر کرونا بڑی عمر کے لوگوں کو لگ جائے تو جان لیوا ہی ثابت ہوتا ہے ۔ البتہ درمیانی عمر کے زیادہ تر لوگ اس سے شفایاب ہو جاتے ہیں ۔ ابھی تک بیس سال سے کم عمر کے بہت کم مریض سامنے آئے ہیں لہٰذا ان کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں  کہا جا سکتا، لیکن غالب خیال یہی ہے کہ یہ بچوں میں بھی خطرناک ثابت ہوتا ہے ۔

انگلینڈ میں جاری سخت لاک ڈاؤن کے باوجود چوبیس اپریل تک ایک لاکھ چالیس ہزار کیس سامنے آ چکے ہیں اور ان میں سے اٹھارہ ہزار لوگ ہلاک ہو چکے ہیں ۔ یعنی ہلاک ہونے والوں کا تناسب بارہ فیصد ہے ۔ اس ڈیٹے کو ایج گروپ کے حساب سے دیکھیں تو 80 سال سے زائد عمر والے 6۔6 فیصد , ساٹھ سے اسی سال والے 5 فیصد , چالیس سے ساٹھ سال تک 1 فیصد اور چالیس سال سے کم عمر والوں میں شرح ہلاکت تقریباً نہ ہونے کے برابر یعنی 0۔01 فیصد ہے ۔ دوسرے الفاظ میں اب تک ہلاک ہونے والے اٹھارہ ہزار لوگوں میں چالیس سال سے کم عمر والے صرف 139 ہیں ۔

کرونا اب یورپ سے نکل کر باہر بھی پھیل رہا ہے ۔ سب سے پہلے ترکی اور روس اس کی زد میں آئے ہیں ۔ ان دونوں ملکوں نے انگلینڈ سے پہلے لاک ڈاؤن شروع کر دیا تھا اور جنوری سے مارچ کے آخر تک ان دونوں ملکوں میں کرونا کے صرف چند ہزار مریض تھے لیکن تمام احتیاطوں کے باوجود اپریل کے دوران ان میں مریضوں کی  تعداد یکدم بہت تیزی سے بڑھی ہے اور اب  تقریباً یورپ کے لیول تک ہی پہنچ چکی ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری لاک ڈاؤن کی حالیہ کوششیں کافی نہیں  ہیں ۔

پاکستان میں جاری لاک ڈاؤن کی وجہ سے حالات کافی کنٹرول میں ہیں لیکن  ان حالات میں لاک ڈاؤن کو مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے نا کہ اس میں کمی کرنے کی ۔ اس سلسلے میں حکومتی حلقوں میں پائے جانے والے ابہام اور لوگوں کے لاک ڈاؤن کو توڑنے کی خبریں تشویشناک ہیں ۔ پچھلے ہفتے مقامی ڈاکٹرز نے بھی کراچی میں ایک پریس کانفرنس میں واضح کیا تھا کہ لاک ڈاؤن میں کسی طرح کی بھی نرمی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

اس کے علاوہ عوام میں بھی ایک بڑی غلط فہمی تیزی سے پھیل رہی ہے کہ پاکستان کے لوگوں کی کرونا کے خلاف امیونٹی بہت زیادہ ہے لیکن اب تک کے ڈیٹے سے ایسا کچھ ثابت نہیں  ہو رہا، بلکہ بیانیہ طور پر اس کے برعکس نظر آ رہا ہے ۔ پاکستان میں اب تک 2300 ہلاکتیں رپورٹ ہوئی ہیں ، پاکستان میں مریضوں کی اکثر تعداد بیس سے ساٹھ سال تک کی عمر کے لوگوں کی ہے ۔ کراچی والی پریس کانفرنس میں بھی مقامی ڈاکٹرز نے یہی کہا ہے کہ پاکستان میں نوجوان زیادہ متاثر ہو رہے ہیں ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ اس عمر کے لوگ نسبتاً کم احتیاط کر رہے ہیں ۔ بہرحال وجہ کچھ بھی ہو لیکن اس عمر کے گروپ کی شرح اموات انگلینڈ میں دیکھیں تو وہاں 1 فیصد کے قریب ہے ۔ آپ انگلینڈ کے ساٹھ اور اسی سال سے زیادہ عمر والے گروپ کی شرح اموات کو پاکستان کی شرح اموات سے مقابلہ کر کے غلط نتیجہ اخذ نہ کریں ۔ انگلینڈ میں ساٹھ سال سے کم والے گروپ کی شرح اموات تو صرف 1 فیصد ہے جو کہ پاکستان کے ساٹھ سال سے کم والے گروپ سے آدھی ہے ۔ پاکستان کا چالیس سال سے کم والا ڈیٹا مجھے نہیں  مل سکا ،اس لیے ڈائریکٹ تقابل  ممکن نہیں  ہے، لیکن مجموعی طور پر اتنا ضرور نظر آ رہا ہے کہ کرونا کے معاملے میں پاکستان کے لوگوں کی امیونیٹی یورپ کے لوگوں سے زیادہ نہیں  ہے ۔ فرق صرف ایج گروپ کا ہے ۔ اس کے علاوہ جو خطرناک حقیقت ریکارڈ پر آئی ہے وہ یہ ہے کہ انگلینڈ اور امریکہ میں ایشیا اور افریقہ سے آئے ہوئے لوگوں میں شرح اموات مقامی گوروں کی نسبت دگنی ہے ۔ اس کی وجہ معلوم کرنے کے لیے انگلینڈ میں ایک تحقیقاتی کمیٹی کام کر رہی ہے جس کی رپورٹ سے ہی اصل وجہ معلوم ہو گی لیکن ممکن ہے کہ کمزور امیونیٹی ہی وجہ ثابت ہو ۔ بہرحال وجہ کوئی بھی ہو لیکن اب تک کے ڈیٹے کے مطابق اس غلط فہمی کو دور کر لیں کہ گرمی میں کرونا نہیں  پھیلے گا یا پاکستان کے لوگوں کی امیونیٹی زیادہ بہتر ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پاکستان کے لیے مئی اور جون کے مہینے زیادہ اہم ہیں ۔ اگر یہ خدشات غلط ثابت ہونے لگے تو ڈاکٹر ہی سب سے پہلے آپ کو خوشخبری سنا دیں گے لیکن جب تک کچھ واضح نہی ہوتا عقلمندی اور دانشمندی اسی میں ہے کہ پوری طرح سے احتیاط کی جائے اور لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل کیا جائے ۔ اگر جان بچ گئی تو معاشی نقصان بھی پورا ہو جائے گا ۔ یاد رکھیں , ابھی تک پوری دنیا میں ایک بھی ایسا کیس رپورٹ نہیں  ہوا کہ لاک ڈاؤن میں بھوک کی وجہ سے کوئی مر گیا ہو لیکن کرونا سے دو لاکھ سے زائد اموات حقیقت میں ہو چکی ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply