سکون :کائنات کا اَزلی اصول۔۔شکیل طلعت

سکون ! کائنات کا ایسا بھید ہے جو عام ذہنوں پر منکشف نہیں ہوتا۔ اسے پانے کے لئے انسان نے کیا کیا نہیں کھوجا، مذہب ایجاد کیا کہ سکون پاسکے، مراقبہ ، یوگا، سائنسی تراکیب ، ادویات ، سب سکون فراہم کرنے کے طریقے  ہی تو ہیں۔

سبھی ایجادات کے پیچھے انسانی زندگی کو سہل کرنے کے مقاصد کارفرما تھے، زندگی سہل ہونا بھی سکون کی ہی علامت سمجھی جاتی ہے۔ پوری میڈیکل سائنس بھی سکون بیچ رہی ہے کیونکہ  بے سکونی سے بڑی  بیماری  کوئی نہیں۔ اور یوں اربوں ڈالر کا ایک پورا شعبہ دنیا میں ہر دم پَنپ رہا ہے۔ لاکھوں لوگ اس شعبے سے منسلک ہیں اور میڈیکل سروسز کے عوض اپنی زندگیوں میں سکون لانے کے خواہاں ہیں۔ یعنی سکون ایک ایسا نا مکمل چکر ہے جسے ہر کوئی اپنی بساط کے مطابق پورا کرنے کے چکر میں ہے۔ اعلیٰ تعلیم، پیشہ ورانہ مہارت، کاروباری کامیابی ، سب کچھ سکون کا متقاضی ہے اور سکون کے حصول کا ذریعہ بھی۔

یوں سمجھ لیجیے کہ سکون انسان کا فطرتی سٹیٹ آف مائنڈ ہے اور ساری کائنات کی default setting بھی ہے۔ جیسے ہر ڈیجیٹل پراڈکٹ کی ایک ڈیفالٹ سیٹنگ ہوتی ہے، ایسے ہی انسان کے لئے سکون حاصل کرنے کی فطری جستجو انتہائی نیچرل اور اس کا birth right ہے۔
سکون کے اندر ایک ہزار کہکشائیں گم ہیں اور بے سکونی ہمیں اندرونی دنیا سے disconnect کرتی ہے۔ اندرونی عجائباتِ عالم کو روحانیت بھی کہا جاسکتا ہے، روحانیت کیا ہے؟ یہ الگ موضوع ہے مگر اس ساری کائنات میں اگر کوئی اس لفظ یا اس سائنس سے آگاہ ہے تو وہ حضرت انسان ہے، اپنی دماغی پیچیدگی و ہمہ وقت کے تخلیقی جنون ، بے پناہ تجسس ، ہمالیہ سی یادداشت اور عقلی استدلال سے۔

جانور، اشجار اور دیگرelements میں دماغ کا وہ حصہ موجود نہیں جو صرف انسانی دماغ کی کرامت ہے تبھی ان تمام elements کی یادداشت اور دکھ برداشت کرنے کی صلاحیت اور پھر اظہار کی خوبی بھی مفقود ہے۔ مگر اپنے اس محدود دماغی وصف کی وجہ سے نباتات ، چرند پرند وغیرہ انسان سے زیادہ فوکسڈ ہیں یا یوں سمجھ لیجیے کہ ہمہ وقت مراقبہ کی حالت میں ہیں۔

مراقبہ کیا ہے ؟ دماغ سے ہر طرح کے اندیشے، وسوسے ، خوف اور ہر قسم کی فکر سے لا پرواہ ہوجانا۔ ماضی کے بھیانک پہلوؤں اور مستقبل کی نا امیدیوں سے نجات پانا ۔۔۔ لمحۂ موجود کی برکتوں سے فیضیاب ہونا۔

انسان کو دیگر skills کی طرح meditation پر بھی عبور ہونا چاہیے۔ دماغ پُرسکون تو ساری ہستی پُرسکون۔

بے سکونی سوچ کے انتشار کا نتیجہ ہے۔ بے سکونی بیماری کا دوسرا نام ہے۔ لفظ disease پر غور کیجیے ۔۔۔ یہ دو الفاظ کا مرکب ہے dis اور ease، یعنی بے سکونی۔

میرے نزدیک خدا کا دوسرا نام سکون ہے ۔” خدا ” کائنات میں خاموشی اور سکون میں پنہاں ہے ، خدائی معاملات یا بارگاہِ ایزدی میں hustle نہیں ہے۔ جس چیز کو جتنا وقت درکار ہے اسے فراہم کیا جاتا ہے۔

بندوں کو ، ان کے معاملات کو خدا خاموشی سے دیکھ رہا ہے۔ مگر انسانی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتا۔ ہاں کچھ دلوں پر الہام کرتا ہے اور اس کی یہ پروردگارانہ چال ہی ، کُن فیکون کی عملی شکل ہے۔

قرآن میں فرمایا گیا، اللہ کے ذکر میں سکون ہے۔ میں کہتا ہوں ’’سکون میں خدا ہے‘‘۔ سکون کا ایک لمحہ ، اضطراب زدہ ساری زندگی سے افضل ہے۔ سکون میسر ہو تو دنیا کی ہر نعمت ہیچ ہو جاتی ہے،تذبذب ، اضطراب ، زیادہ کی طمع ، حسد، بغض ، سب کچھ ایک آن میں ختم ، valueless ، کیونکہ انسان کی بے سکونی کی وجہ سوچ کے یہی منفی محرکات ہیں۔

جب انسان کو کوئی غم ہوتا ہے تو قرآن تلقین کرتا ہے:
’’انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘

اب اس  کے ترجمے پر غور کیجیے ، آج آپ کو اس کا ایک دلفریب پہلو بتاتا ہوں۔ ذرا دیر کے لئے رُک جائیے اور ٹھہر کر سمجھیے ۔۔۔ چونکہ سکون انسان کی default state of mind ہے۔ لہٰذا ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم اسی فطرتی سٹیٹ آف مائنڈ میں واپس چلے جائیں گے۔ یعنی اس غم یا خوشی کے مختصر دورانیے کے بعد ہم اپنی اصلی حالت (default setting) میں واپس چلے جائیں گے۔ اس آیت کو بہت محدود کر دیا گیا ہے اور سوائے فوتگی اور غم کے کہیں استعمال نہیں کیا جاتا۔ دیکھا جائے تو یہ ایک ماہر نفسیات کی تجویز کردہ affirmation جیسی ہے۔

ماہر نفسیات بھی مریضوں کو verbal statements تجویز کرتے ہیں کہ فلاں trigger کے موقع پر خود کو باور کرانا ہے۔ بہت سے ready made جملے آپ کو پڑھنے کو مل جائیں گے ، خاص طور پر اگر کسی نے self help books پڑھ رکھی ہوں ، دن میں بار بار دہرائیں ۔۔ میں طاقتور ہوں ، کامیاب ہوں ، تندرست ہوں پھر ایک وقت آتا ہے کہ ذہن اسی کو سچ سمجھ لیتا ہے اور یہی حقیقت بن جاتی ہے۔

لہٰذا علم کو اتنا محدود مت سمجھیے۔ علم کائنات کی وسعتوں سے بھی بڑھ کر وسیع ہے۔ ایک بات جولوگوں کا عمومی رویہ ہے وہ چیزوں کو جانے بغیر جھٹلا دیتے ہیں کیونکہ وہ ان کی سمجھ میں نہیں آتیں ۔ کسی چیز کے سمجھ میں نہ آنے کی وجہ سے اس چیز کی اہمیت ہرگز کم نہیں ہوتی بلکہ یہ رویہ جہالت میں مزید اضافے کا سبب بنتا ہے اور معاشرتی بگاڑ جنم لیتے ہیں۔ العلم النور ۔۔۔ یعنی علم روشنی ہے ،جہالت کا علاج علم سے کیجیے۔ قرآن بار بار کہتا ہے ’’پوچھو ان سے جنہیں علم عطا کیا گیا‘‘ اور حدیثِ مبارکہ ہے ’’علم مومن کی گمشدہ میراث ہے‘‘۔

اب دلچسپ بات یہ ہے کہ قدرت نے کچھ انسانوں کا سکون کہیں اور رکھ دیا ہوتا ہے۔ کوئی اسے نشہ آور اشیاء میں ڈھونڈتا ہے، کوئی عشق میں، کوئی خدا کی تلاش میں، کسی کو موسیقی سن کے سکون ملتا ہے تو کسی کو میوزک تخلیق کرکے، کسی کو لکھ کے، کسی کو مطالعہ سے ۔ کسی کو انا کی تسکین میں، کسی کو قربانی دے کے، کسی کو چھین کے ، کوئی سب لُٹا کے بھی خوش ۔ غرضیکہ دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کامِ نہنگ !

مجھے بہت سے ناولز اور بائیو گرافیز پڑھنےاور پھر کریمنلز و جسم فروشی کا دھندہ کرنے والوں کے انٹرویوز کرنے کا اتفاق ہوا (انہی موضوعات پر فائن آرٹ کے کچھ تھیسز پراجیکٹس بھی کیے)۔ ان افراد کو قتل کرکے، ظلم کرکے یا دیگر جرائم کرکے سکون ملتا ہے۔ شروع میں ان جرائم کے محرکات بدلہ یا ضروریات زندگی پوری کرنے کے ہوتے ہیں مگر انہیں پتہ ہی نہیں چلتا کب یہ ضرورت کی ٹرین جسمانی و ذہنی سکون سے کانٹا بدل چکی ہے اور وہ پیشہ ور گینگسٹرز بن چکے ہیں۔ جب تک خبر ہوتی ہے تب زندگی کے پلیٹ فارم پر عزرائیل آخری سیٹی بجا رہا ہوتا ہے۔

گویا ساری کائنات میں ہر تخلیق، ایجاد ، جبر، ظلم و زیادتی کے پیچھے ایک ہی محرک ہے ۔۔۔ سکون کی تلاش۔ پھر یوں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ایک شے کی بربادی دوسری شے کی تکمیل ہے !

ہے غنیمت کہ اسرار ہستی سے ہم
بے خبر آئے ہیں بے خبر جائیں گے

سکون عبادت میں ، محبت میں ، تخلیق میں یا کسی بھی مثبت سرگرمی میں ملے تو اس سے بڑی نعمت کوئی نہیں۔ خواہش کی تکمیل میں سب سے بڑا سکون چھپا ھوا ھے۔ اپنا سکون خود تلاش کیجئے ، اِدھر اُدھر نہیں ، اپنے اندر ۔

Advertisements
julia rana solicitors

پیدائش سے بسترِ مرگ تک ۔۔۔ انسان ہر چیز کو اہمیت دیتا ہے ، ہر چیز کو مکمل جاننا چاہتا ہے مگر اپنی ذات کو سب سے زیادہ نظر انداز کرتا ہے ۔ خود کو نظر انداز کرنا چھوڑیئے، سکون سے بیٹھ جائیے ، کہیں کوئی مقابلہ نہیں ہو رہا، آپ کا مقابلہ کسی سے بنتا ہی نہیں ۔ آپ ہر لحاظ سے ممتاز و افضل ہیں۔ اپنی ذات کو پہچانیے، معاشرے کی نظر سے خود کو پرکھنا چھوڑیئے اور زندگی پُر سکون بنایئے ، یہ عبادت بھی ہے اور انسان کی ازلی ضرورت بھی ، کائنات کا راز بھی اور پروردگار کی منشا بھی۔

Facebook Comments

شکیل طلعت
سوچ کے کھڑے (ٹھہرے ہوئے) پانی میں کنکر مارنا میرا مشغلہ ھے اور کچھ نہیں تو اس کا ارتعاش اہلِ نظر اور بلند عزم کے حامل لوگوں تک ضرور جائے گا اور وہ ان پہلوؤں پر ضرور سوچنے پر مجبور ہوں گے جن کا تذکرہ لوگوں نے اپنی روزمرہ گفتگو میں ممنوع کر رکھا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply