• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جونا ہیرنگ،رابن رافیل اور اب سنتھیا رچی ۔۔۔اورنگزیب وٹو

جونا ہیرنگ،رابن رافیل اور اب سنتھیا رچی ۔۔۔اورنگزیب وٹو

پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کی ایک لمبی تاریخ ہے جو قیام پاکستان کے بعد لیاقت علی خان کے پہلےدورہ امریکہ سے شروع ہوتی ہے اور کئی اتار چڑھاؤ کے ساتھ دونوں ممالک اپنا رشتہ قائم رکھے ہوئے  ہیں۔یہ رشتہ بڑا پیچیدہ ہے اور تنازعات معاہدات نفرت محبت اعتماد اور شکوک کی ایک لمبی تاریخ رکھتا ہے۔امریکہ نے ہی پاکستان کو سیٹو اور سینٹو جیسے معاہدات کا رکن بنایا اور پاکستان کو سوویت یونین کے خلاف فرنٹ لائن ریاست کے طور پر استعمال کیا۔پاکستان ہی امریکہ اور کمیونسٹ چائنہ کے درمیان تعلقات کے قیام کی وجہ بنا اور پشاور سے اڑنے والے جاسوس طیارے ہی سوویت یونین کی جاسوسی کے لیے استعمال ہوتے رہے۔پاک بھارت دو بڑی جنگوں کے دوران پاکستان کو امریکہ کی سفارتی حمایت حاصل رہی اور بھارت روس کی مدد سے پاکستان کو توڑنے میں کامیاب رہا۔پہلی افغان جنگ کےدوران امریکہ اور پاکستان نے مل کر سوویت یونین کو شکست دی جبکہ دوسری افغان جنگ میں بھی پاکستان اور امریکہ بطور اتحادی کام کرتے رہے۔دونوں ممالک کے درمیان بڑے تنازعات بھی رہے جن میں پاکستان کا ایٹمی پروگرام وجہ نزاع بنا رہا۔امریکہ پاکستان پر دہشتگردوں کی مدد کا الزام لگاتا رہا جب کہ پاکستان امریکہ کو مطلبی دوست کے طعنے دیتا رہا۔یہ ایک لمبی تاریخ ہے جو ان گنت واقعات کرداروں اور سنسنی خیز لمحات سے بھرپور ہے۔

حال ہی میں جب پاکستان اور امریکہ طالبان کے ساتھ امن معاہدے کی کامیابی کے لیے کام کر رہی  ،ایک امریکی شہری اور بلاگر سنتھیا رچی کا نام پاکستانی میڈیا اخبارات اور ٹیلی وژن کی زینت بنا ۔سنتھیا رچی کے بقول پہلی دفعہ وہ پاکستان 2010 میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں سیلاب زدگان کی مدد کے لیے آئیں اور اسی دوران ان کی آمدروفت طاقت کے ایوانوں تک ہونےلگی۔پیپلز پارٹی کے دور میں سنتھیا رچی کی رسائی ایوان صدر تک تھی اور پی پی پی کی اہم شخصیات ان سے رابطے میں رہتی تھیں۔سنتھیا اس دوران پاکستان کے مختلف حصوں میں اپنی ڈاکیومنٹری کے سلسلے میں سفر کرتی رہیں اور پاکستانی قوم اور ثقافت کا مثبت تاثر پیدا کرنے کے لیے بھی کافی کام کیا۔سنتھیا رچی کا نام اس وقت عوامی طور پر سامنے آیا جب انہوں نے نقیب اللہ محسود کے قتل کو بختاور بھٹو کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی۔سنتھیا کے مطابق بختاور بھٹو اور نقیب اللہ محسود کے درمیان تعلقات کی خبر پاکر آصف زرداری نے اپنے ”بہادر بچے“ راؤ  انوار کے ذریعے محسود کو قتل کروایا۔سنتھیا کے انکشافات کا سلسلہ اس وقت بڑھا جب اس نے بے نظیر بھٹو کے حوالے سے ایک متنازعہ ٹویٹ میں دعویٰ کیا کہ انہوں نے اپنے دور حکومت میں زرداری سے تعلقات رکھنے کی پاداش میں اپنے محافظوں کے ذریعے ایک ماڈل سے جنسی زیادتی کروائی۔اس ٹویٹ کے بعد پی پی پی اور سنتھیا کے درمیان لفظی جنگ چھڑ گئی اور پی پی پی نے سنتھیا کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا اعلان کر دیا۔سنتھیا رچی پر پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنان کے حملوں کے بعد امریکی صحافی نے بلاول ہاؤس میں مقیم ڈیوڈ نامی غیر ملکی شخص کی موجودگی پر سوالات اٹھائے  اور ایک طوفان کھڑا کر دیا۔

سنتھیا کے بقول پیپلز پارٹی کے لوگوں نے ان کے گھر والوں کی معلومات حاصل کر لی ہیں اور انہیں قتل اور آبروریزی کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔سنتھیا نے ان دھمکیوں کے جواب میں پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر داخلہ رحمان ملک پر جنسی زیادتی کا الزام لگایا ہے۔ان کے مطابق یہ واقعہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں ایوان صدر میں پیش آیا۔اس کے علاوہ خاتون صحافی نے پیپلز پارٹی کے بڑے رہنماؤں سابق وزیراعظم گیلانی اور مخدوم شہاب الدین پر دست اندازی کے الزامات بھی لگائے ہیں۔ان الزامات نے کرونا میں الجھے میڈیا میں ایک ارتعاش پیدا کیا ہے اور سوشل میڈیا پر سنتھیا کے حامیوں اور مخالفین میں جنگ جاری ہے۔پیپلز پارٹی اور ان کے ہمنوا جن میں ن لیگ اور دوسری فوج مخالف جماعتیں اور لبرل طبقات شامل ہیں وہ سنتھیا کو اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ کہہ رہے ہیں جبکہ حکمران جماعت تحریک انصاف کے حامی سنتھیا کو حمایت کا یقین دلا رہے ہیں۔

سنتھیا رچی پاکستانی حکمران طبقات کے ساتھ عوامی حلقوں میں بھی جانی پہچانی جاتی ہیں اور انکے پاکستان کے لیے جذبات اور تاثرات کی تعریف کی جاتی ہے۔سنتھیا اور پیپلز پارٹی کے درمیان یہ جنگ کہاں تک جاۓ گی اور اس امریکی صحافی کی ڈوریں کس کے ہاتھ میں ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے  گا، مگر سنتھیا رچی کی پاکستان میں موجودگی اور مقتدر حلقوں کے ساتھ تعلقات کو تاریخ کے تناظر میں دیکھنا ہو گا۔

سنتھیا رچی پہلی امریکی خاتون نہیں جس نے پاکستانی سیاست میں بھونچال برپا کیا بلکہ اس سے بہت پہلے ضیا الحق کے زمانے کا مشہور کردار جونا ہیرنگ کی شکل میں سامنے آیا۔ذہین و فطین خوبصورت جونا ہیرنگ کا تعلق امریکہ کے دولت مند اور با اثر ترین حلقوں سے تھا اور ان کا حلقہ احباب ریاستوں کے سربراہوں تک پھیلا ہوا تھا۔جونا ہیرنگ اردن کے شاہ کی قریبی دوست تھیں لیکن انہیں سب سے زیادہ شہرت جنرل ضیا کی قربت کی وجہ سے ملی۔جونا ہیرنگ سے جنرل ضیا کی شناسائی ستر کی دہائی میں ہوئی اور ہیرنگ نے جنرل ضیا کے فوجی انقلاب کی بھرپور حمایت کی۔روس کے افغانستان پر حملے کے بعدجنرل ضیا نے جونا ہیرنگ اور انکے شوہر رابرٹ ہیرنگ کو پاکستان آنے کی دعوت دی اور انہیں روس کے خلاف امریکی مدد لانے کے لیے کردار ادا کرنے پر قائل کیا۔جونا ہیرنگ نے جنرل ضیا کی اسلام آباد میں منعقدہ ضیافت میں شرکت کی اور ضیا نے واشنگٹن کی کمزور حمایت کا شکوہ کیا۔ اسی ملاقات میں ضیا نے انہیں قائل کیا کہ وہ سی آئی اے کے افسران کو مہاجرین کیمپ تک لانے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔ٹیکساس کے امیر ترین حلقوں سے تعلق رکھنے والی ہیرنگ نے افغانستان کے پہاڑی علاقوں اور میدان جنگ تک پُر خطر سفر کیا اور اس جنگ کی تباہی اور کمیونسٹ خطرے پر فلمبندی بھی کی۔

امریکہ واپس جا کر ہیرنگ نے سی آئی اے کے چارلی ولسن سے ملاقات کی اور کمیونزم کے خلاف جنگ میں نہایت اہم کھلاڑی بن کر سامنے آئیں۔جونا ہیرنگ اور جنرل ضیا کے درمیان قربت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ضیا مس ہیرنگ کا فون سننے کے لیے انتہائی اہم میٹنگز بھی روک دیتے تھے۔جونا ہیرنگ نے اردن امریکہ اور پاکستانی قیادت کے درمیان پل کا کردار ادا کیا اور ضیا نے انہیں پاکستان کے قومی اعزاز سے بھی نوازا۔جونا ہیرنگ امریکہ کے سرمایہ دار طبقات سے قریبی تعلقات رکھتی تھیں اور انہی سرمایہ داروں کے عطیات سے ہی ڈالرز کی بوریاں بھر کر پاکستان بھیجی جاتیں۔جونا ہیرنگ اور ضیا الحق کی قربت کو میڈیا اور پاپولر کلچر میں بھی بے حد شہرت ملی اور دنیا بھر کے اخبارات اس امریکی  حسینہ اور پاکستانی جرنیل کی کہانیوں سے بھرے رہتے جنہوں نے سوویت یونین جیسی عالمی طاقت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔

جونا ہیرنگ کے بارے میں سابق وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان کہتے ہیں کہ وہ جنرل ضیا کا کان تھی اور یہ بد ترین تھا۔مشہور ہالی ووڈ اداکارہ جولیا رابرٹس نے چارلی ولسن وارز کے نام سے بننے والی فلم میں جونا ہیرنگ کا کردار ادا کیا جبکہ ضیا الحق کا کردار بھارتی اداکار اوم پوری نے ادا کیا۔مشہور پاکستانی ناول نگار اور صحافی محمد حنیف نے اپنے شہرہ آفاق لیکن متنازعہ ناول A Case of Exploding Mangoesمیں ضیا اور مس ہیرنگ کی قربتوں کو فکشن میں ڈھالتے ہوۓ اس موضوع پر کئی صفحات مختص کیے ہیں۔

جونا ہیرنگ کے بعد جس امریکی خاتون نے پاکستان کے مقتدر اور عوامی حلقوں میں مقبولیت حاصل کی وہ آنجہانی امریکی سفیر آرنلڈ رافیل کی سابقہ بیوی اور ڈپلومیٹ رابن رافیل ہیں۔رابن پہلی دفعہ اپنے شوہر آرنلڈ رافیل کے ساتھ اسلام آباد آئیں اور سوویت وار کے دوران امریکی سرگرمیوں کا مرکز سفارت خانہ ہی پاکستان سے ان کی قربت کا مرکز بنا۔رابن رافیل نے پاکستانی سیاستدانوں ایجنسیوں صحافیوں اور کاروباری طبقات سےذاتی تعلقات قائم کیے اور جلد ہی وہ پاکستان میں ایک جانی پہچانی شخصیت بن گئیں۔رابن رافیل نے مختلف مواقع پر بطور امریکی سفارت کار پاکستان میں خدمات سر انجام دیں اور انہیں پاکستانی امور پر سب سے ماہر امریکی شخصیت سمجھا جانے لگا۔رابن کے تعلقات صرف پاکستانی مقتدر حلقوں تک ہی نہیں تھے بلکہ ان کی رسائی میدان جنگ میں لڑنے والے طالبان تک بھی تھی۔رابن رافیل وہ پہلی سینئر امریکی سفارت کار تھیں جنہوں نے طالبان امیر مُلا عمر سے ملاقات کی اور افغانستان میں طالبان حکومت کی حمایت کی۔

رابن رافیل نے جنوبی ایشیا کے لیے بطور معاون سیکرٹری آف سٹیٹ کام کرتے ہوۓ مسئلہ کشمیر کے حل کی کھلم کھلا حمایت کی جس پر انہیں بھارت میں سخت نا پسند کیا جانے لگا۔بھارت نے رابن کو پاکستان کا اثاثہ قرار دیتے ہوۓ انہیں نہ صرف امریکہ کے ساتھ تعلقات میں رکاوٹ قرار دیا بلکہ انہیں امریکی مفادات کے لیے نقصان دہ شخصیت کا نام بھی دیا۔رابن رافیل نے ریٹائر منٹ کے بعد مشرف دور میں واشنگٹن میں پاکستانی لابی کے لیے کام بھی کیا۔

2009 میں رابن کو امریکہ کے نمائندہ خصوصی براۓ پاکستان افغانستان رچرڈ ہالبروک میں شامل کیا گیا اور انہوں نے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششیں جاری رکھیں۔سلالہ چیک پوسٹ پر ہونے والے حملے کے بعد رابن امریکہ کی طرف سے معافی اور دوبارہ تعلقات کی بحالی کی حامی رہیں۔رابن رافیل اور پاکستانی سفارت کار صحافی ملیحہ لودھی کے درمیان بے حد قربت رہی جس نے امریکی ایجنسیوں کو شکوک و شبہات میں مبتلا کیے رکھا۔پاکستان میں امریکی سفیر سے زیادہ اہم شخصیت سمجھی جانے والی رابن رافیل کو ان کے نک نیم ”رابن“ سے مخاطب کیا جاتا۔

2014 میں ایف بی آئی نے امریکہ میں رابن کی رہائشگاہ پر چھاپا مارا اور بہت سارا ریکارڈ قبضے میں لے لیا۔رابن رافیل پر پاکستان کو اہم معلومات دینے کا الزام لگایا گیا اور ان پر مقدمہ چلایا گیا البتہ اس مقدمے کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔سی آئی اے کے بروس ریڈل کے مطابق ایجنسیاں یہ سمجھتی ہیں کہ رابن رافیل پاکستان کے بے حد قریب ہے اور اب اس شہرت سے جان چھڑانا ان کے لیے نا ممکن ہے۔رابن رافیل اور پاکستان کا نام ہمیشہ ایک ساتھ جڑا رہے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جونا ہیرنگ اور رابن رافیل کے بعد اب ایک اور امریکی حسینہ سنتھیا رچی کی پاکستان میں دلچسپی اور اقتدار کے ایوانوں میں ہونے والی سرگوشیاں کیا کیا رنگ  لاتی  ہیں اس کے لیے تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا البتہ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے ایک ”نہتی“امریکی لڑکی اتنی بڑی مچھلیوں پر ہاتھ کسی بڑے شکاری کے سہارےہی ڈال سکتی ہے۔

Facebook Comments

Aurangzeb Watto
زندگی اس قدر پہیلیوں بھری ہےکہ صرف قبروں میں لیٹے ہوۓ انسان ہی ہر راز جانتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply