انقلاب/ناصر خان ناصر(1ٍ)

لاہور میں موجود یہ قدیم و تاریخی عمارت جس پر پاک آرمی مدت سے ناجائز طور پر قابض ہے۔ کاش اس عمارت کو میوزیم، یادگار یا اسکول کالج ہی بنا دیا گیا ہوتا تو کتنا بہتر ہوتا۔
یہ انتہائی شرمناک حقیقت ہے کہ قائداعظم کے لواحقین اپنا یہ حق آرمی سے واگزار نہ کروا سکے۔ قائد اعظم کی بیٹی اگرچہ اچھے حالوں میں رہیں مگر ان کے بھتیجے اور دیگر رشتہ دار نہایت کسمپرسی سے اپنا وقت کاٹتے رہے۔ یہ قیمتی جائیداد ان کے حقیقی وارثین کو واپس کر دی جاتی تو ان کی زندگی سنور سکتی تھی۔
اس واقعے سے ملتی جلتی ہماری داستان بھی ہے۔
ہمارے والد صاحب نے جب بطور جے سی او پاکستان آرمی سے ریٹائرمنٹ پائی تو بہاولپور سے پنڈی اسلام آباد منتقل ہونے کی ٹھانی۔
ہمارے بڑے بھائی ڈاکٹر طاہر صاحب نے دھڑا دھڑ امریکہ سے اپنے حق حلال کی کمائی بھجوانا شروع کی۔ اس زمانے میں اسلام آباد میں اُلو بولتے تھے اور عام لوگوں کا خیال تھا کہ یہ نیا دارالحکومت ناکام ہو جائے گا۔
لہذا والد صاحب نے راولپنڈی کے چاندنی چوک کے نزدیک چراہ روڈ پر پونے تین کنال کا پلاٹ لے کر اپنی نگرانی میں خوبصورت گھر بنوانا شروع کیا۔
اس کا نقشہ امریکن آرکیٹیکٹ کی مدد سے بنوایا گیا۔ ہر بیڈ روم کے ساتھ اٹیچ باتھ روم، واک ان کلازٹ، پینڑی و سٹور روم سمیت بڑا کچن ہر چیز دیکھ بھال کر اور سوچ سمجھ کر لگوائی گئی۔ امریکن باتھ ٹوائلیٹ، امپورٹڈ ٹب، اے سی، گیزر، کوکنک ریج اور اوون اس زمانے میں آسانی سے دستیاب نہیں تھے مگر کاوشوں سے منگوا کر نصب کروا لیے گئے۔
چند برس اس گھر میں گزارنے کے بعد والد صاحب کو پنڈی میں تنہائی محسوس ہوئی تو پھر گھر کا سارا ساز و سامان ٹرکوں پر لدوا کر بہاولپور شفٹ ہوئے۔ پنڈی والا گھر کرائے پر اٹھا دیا گیا۔
ہمارا گھر ماڈرن تعمیر ہونے کی بدولت بدنام زمانہ تنظیم ایف ایس ایف کے انچارج مسعود محمود صاحب کو پسند آ گیا۔ یہ تنظیم اسی زمانے میں بھٹو صاحب نے آرمی کے بالمقابل اپنی ذاتی حفاظت اور اسلام آباد کے لیے بنائی تھی۔
ان محترم نے ہمیں تین ماہ کا کرایہ پیشگی ادا کر دیا اور اس کے بعد ہر ماہ کا کرایہ بہاولپور بھجوانے کا وعدہ کر لیا۔
تین ماہ بعد ہی ہمیں پتہ چل گیا کہ اب یہ کرایہ ہمیں کبھی نہیں ملے گا۔ والد صاحب بزرگ آدمی تھے اور بیمار رہتے تھے لہذا یہ ہماری ڈیوٹی لگائی گئی کہ ہم پنڈی آ کر مسعود محمود صاحب سے ملاقات کریں اور ان سے کرایہ وصول کریں۔
جی ہاں جناب! تب ہم کمسن، ناتجربہ کار بھولے بھالے مسکین سے نوجوان تھے۔ جوش جوانی میں تلخ کلامی و جوشیلا پن ہمارا شیوہ تھا۔ پنڈی میں ہمارا کوئی رشتہ دار یا عزیز نہیں تھا۔ بہاولپور سے ہر مہینے تقریباً دو چکر ضرور لگاتے۔ تب ایف ایس ایف کا دفتر سیٹلائٹ ٹاؤن میں ہوا کرتا تھا۔ عزت مآب مسعود محمود صاحب نے تو خیر ہم سے کیا ملاقات کرنی تھی؟ ان کا پی اے ہر بار ہمیں نت نئے بہانے بنا کر ٹرخا دیتا۔
اپنا ہی گھر اندر سے دیکھنے تک کی اجازت نہیں تھی۔ دفتر میں شروع شروع میں تو وہ لوگ کبھی کبھار ایک آدھ دفعہ چائے وائے پلا دیتے تھے مگر بعد میں سارا سارا دن دفتر کے باہر بیٹھ کر بنا نیل و مرام خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا۔ بہاولپور سے راولپنڈی کا سفر بھی تھکا دینے والا ہوتا تھا۔ پھر وہاں رہائش و کھانے پینے کی تکالیف علیحدہ درپیش تھیں۔ اس زمانے میں اپنے سارے دوستوں، ہمسائیوں اور جان پہچان والوں کی اصل پہچان ہوئی۔ بڑے شہروں میں لوگ منہ کے میٹھے ضرور ہوتے ہیں مگر بن بلائے مہمانوں کو زیادہ دن رکھنے کا روادار کوئی بھی نہیں ہوتا۔ ہمارے امیر پڑوسیوں نے تو جلد ہی اپنے رخ اور اخلاق بدل لیے۔ غریب پڑوسیوں کے ہاں بھی ایک آدھ دفعہ ہی ٹھہرا جا سکتا تھا۔ ایک بے حد محترم شخص ہمارے ماموں کے بچپن کے دوست تھے اور ان کی فیملی سے اچھے تعلقات تھے۔ ان آڑے دنوں میں وہی بہت کام آئے۔ ایک اور بزرگ غریب خاتون ہماری منہ بولی نانی بنی ہوئی تھیں۔ انھوں نے بھی سچ مچ یہ رشتہ نبھا دیا۔ خدا ان کو غریق رحمت کرے۔
کرائے کے سلسلے میں کئی برس ہم نے بہاولپور سے راولپنڈی کے سفر کر کر کے جتنے دھکے کھائے ہیں وہ ایک علیحدہ داستان بن سکتی ہے۔ ایف ایس ایف سے گھر خالی کروانا کسی بھوکے مگر مچھ کے منہ سے نوالہ نکالنے کے مترادف تھا۔ ہم جیسے بے بس بے یار و مددگار لوگوں کو صرف خدا ہی کا آسرا اور سہارا تھا۔
خدا خدا کر کے وقت نے اپنی کروٹ بدلی۔ مکافات عمل کے ہاتھوں بھٹو صاحب کا تختہ الٹا گیا، ضیا الحق صاحب کا دور ظلمت ہمارے لیے امید کی کرن بن کر روشن ہوا۔ یہی مسعود محمود صاحب بھٹو صاحب کے مقدمہ قتل میں سرکاری وعدہ معاف گواہ بنے۔ بھٹو صاحب کو پھانسی کی سزا ہوئی اور مسعود محمود صاحب کو بمع ایک اور سلطانی گواہ باعزت بری کر دیا گیا تھا۔
ان تمام حالات کے باوجود بڑی دقتوں، لاتعداد ایم این ایز، ایم پی ایز اور سیاست دانوں کی سفارشوں کی بدولت ہمارا گھر بدقت ہمیں واپس ملا۔ اس تمام عرصے کا کوئی کرایہ ہمیں ادا نہیں کیا گیا تھا اور گھر کی حالت بھی خستہ و مخدوش کر کے اسے واپس کیا گیا تھا۔
اب ہم سوچتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر یقیناً بے حد کرم کیا تھا۔ ایف ایس ایف کے بدمعاشوں نے جہاں ان گنت تعداد میں بھٹو صاحب کے سیاسی مخالفین کو غائب کر کے صفحہ ہستی سے مٹا دیا تھا اور اپنی دہشت گردی سے ملک بھر میں خوف کی فضا قائم کر رکھی تھی وہاں ایک بے یار و مددگار کمسن نوجوان کو بآسانی قتل کر دینا ان کے لیے کہاں کوئی کار غیر ممکن و مشکل تھا؟
جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors

(تصاویر بہ شکریہ محترم ڈاکٹر عقیل عباس جعفری صاحب)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply