والدین کا اولین فرض۔۔۔ربیعہ فاطمہ بخاری

ماں باپ وہ ہستیاں ہیں جن کا تذکرہ کرتے ہی خود پہ ایک ٹھنڈک بھرا سایہ محسوس ہوتا ہے۔ ربِ کائنات نے اس کائناتِ ارضی میں موجود ہر مظہرِ فطرت کو انسان کیلئےپیدا فرما کر، اس کیلئے مسخر فرمایا دیا ہے۔ اگر اس کی نعمتوں کو شمار کرنے بیٹھیں تو شاید عمر تمام ہو جائے لیکن اس کی نعمتوں کا شمار ممکن نہ ہو۔ لیکن اس کی عطا کردہ بیش بہا اور بیش قیمت نعمتوں میں سے بلا شک و شبہ والدین ربِ کائنات کی سب سے بڑی نعمت ہیں۔ یہ ایسی ہستیاں ہیں جو خود تو مصائب و آلام مشکلات اور تکالیف میں ہمہ وقت گھری رہتی ہیں لیکن اولاد کو ان مشکلات کی ہوا بھی نہیں لگنے دیتیں۔ ربِ کائنات کی اتنی بڑی کائنات میں کوئی بھی چیز ان کی شفقت، ان کی محبت، انکے پیار اور ان کے احساس کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔
والدین کی اولاد کیلئے شفقت، محبت، احساس اور جذبات کے بارے میں تو کوئی دو رائے ہو ہی نہیں سکتی، لیکن ان شفقتوں کے سائے میں ایک حیوانِ ناطق کو اشرف المخلوقات میں بدلنے کیلئے والدین کتنا اہتمام کرتے ہیں، at the end of the day یہی چیز ان کی بطورِ والدین کامیابی یا ناکامی کا تعیّن کرتی ہے۔ فی زمانہ دوسرے بہت سے معاشرتی مسائل کے ساتھ ایک بہت بڑا اور تکلیف دہ مسئلہ مردوں کے دلوں میں اور ان کی نظر میں اپنی ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے علاوہ دیگر عورتوں کیلئے عزت اور احترام کا فقدان ہے۔

ہمارے مرد اپنے گھروں میں تو عموماً اپنی عورتوں کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کرنے کی نہ صرف کوشش کرتے ہیں بلکہ ان کیلئے ہر ممکن حد تک معاملات کو سہل بنانے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں لیکن جب یہی مرد گھر کی چاردیواری سے باہر نکلتے ہیں تو ان کی عزت اور غیرت کے معیارات یکسر بدل جاتے ہیں۔ اپنے گھر کی عورت کے علاوہ انہیں کوئی عورت قابلِ عزت نہیں لگتی۔ میں بالکل مانتی ہوں کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ جہاں اس سے قطع نظر کہ عورت اپنے گھر سے تعلق رکھتی ہے یا نہیں، ہر عورت کو اس کے شایانِ شان عزت اور احترام دینے والے مرد ہمارے ہی معاشرے کا حصہ ہیں وہیں ایسے مردوں کی معاشرے میں کمی نہیں جن کے نزدیک کسی کی ماں، بہن کی عزت کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ایک طرف ایسے مرد بھی ہیں جو سواری میں اپنی جگہ سے اٹھ کر کسی خاتون کو بیٹھنے کی جگہ دیتے ہیں تو وہیں ایسے مرد بھی ہیں جو بس کی سیٹ پر بیٹھی کسی عورت کا دس منٹ کا سفر اس کیلئے عذاب بنا دیتے ہیں۔ جہاں ایسے مردوں کی بھی کثیر تعداد ہے جو سوشل میڈیا پہ ایک مشعل بردار کی حیثیت سے کئی لوگوں کیلئے مشعلِ راہ بن کر جگمگاتے ہیں تو وہیں ایسے بد کردار مرد بھی بہتات میں ہیں جن کیلئے سوشل میڈیا صرف اور صرف ان کی شیطانی جبلّت کی تسکین کا ایک ذریعہ ہوتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رویّوں کا یہ فرق کیوں ہے؟؟ گو انسانی جبلّت کے ہزار رنگ ہیں جن میں سے ہر ایک دوسرے سے جدا ہے لیکن یہ وہ مقام ہے جہاں آکر والدین کی اولاد کی تعلیم اور تربیت کیلئے کی گئی کاوشوں کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ ہوتا ہے۔ اچھے والدین کی اولاد ہمیشہ گھر سے باہر کی عورتوں کیلئے بھی پاکیزہ نظریات رکھے گی۔
والدین پر بالعموم اور ماٶں پر بالخصوص اولاد کی بھاری ذمہ داری ربِ کائنات کی طرف سے عائد کی گئی ہے۔ ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے کہ ہم بیٹی کو ہوش سنبھالتے ہی تربیت کی کٹھالی میں ڈال دیتے ہیں۔ ان کے اندازِ نششت و برخاست سے لے کر گفت و شنید، اندازِ خوردونوش سے لے کر اندازِ گفتگو تک ہر ہر چیز میں انہیں اچھے اور برے کا فرق بتانا مائیں اپنا اوّلین فرض سمجھتی ہیں اور بالکل بجا سمجھتی ہیں۔ دوسری طرف وہی ماں جو بیٹی کو تربیت کی بھٹی سے گزار کر کندن بنانا چاہتی ہے وہ بیٹے کی تربیت کو یکسر نظر انداز کر دیتی ہے۔ لڑکا ہے، باہر کا مال ہے، گود میں بٹھا کے تو نہیں رکھ سکتی۔ بڑا ہو گا تو خود ہی سمجھ جائے گا۔ یہ اور اس طرح کی بہت سی تاویلات بیٹوں کیلئے مائیں از خود گھڑ لیتی ہیں۔ اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس کے اندر موجود تربیت کی کمی کبھی گھر میں بیویوں اور ماٶں کے ساتھ بد سلوکی کی صورت میں سامنے آتی ہے تو کبھی گھر سے باہر عام عورت کے ساتھ بد تہذیبی کی شکل میں نظر آتی ہے۔ کبھی لمز کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے خفیہ واٹس ایپ گروپ کی کارستانیاں منظرِ عام پر آتی ہیں تو کبھی کسی یونیورسٹی یا مدرسے کے اعلٰی تعلیم یافتہ اساتذہ کی کج رویوں کی صورت میں متشکل ہوتی ہے۔ آج کل فیشن کے طور پر ہر جگہ یہی راگ الاپا جاتا ہے کہ معاشرے میں عورت کے خلاف جرائم کا خاتمہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب عورت کو empower کیا جائے گا۔ بالکل بجا کہ عورت کی empowerment از حد ضروری ہے۔ والدین کا فرض ہے کہ بیٹیوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ اعتماد اور حوصلے بھی عطا کریں۔ لیکن خیال رہے کہ empowerment کا مطلب شرم و حیا اور معاشرتی اقدار کا جنازہ نکالنا ہرگز نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

میرے نزدیک عورت کا با اختیار ہونا محض ایک پہلو ہے۔ اس سے یہ تو ہو سکتا ہے کہ عورت شاید پیش آنے والے مسائل کا شاید زیادہ جرأت اور بہادری سے مقابلہ کرسکتی ہے لیکن معاشرتی سطح پر عورت کو درپیش مشکلات کا خاتمہ یا کم از کم ان میں کمی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم اپنے بیٹوں کی تربیت درست خطوط پر نہیں کرتے۔ ان کے دلوں میں نیکی اور برائی کا تصوّر بالکل راسخ نہیں کر دیتے۔ انہیں یہ احساس نہیں دلاتے کہ ان کا کوئی بھی فعل ان کی اپنی زندگیوں کے ساتھ ساتھ معاشرے پر کس طرح کے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ ہدایت من جانب اللّٰہ ہوتی ہے۔ لیکن بچوں کی کردار سازی میں والدین کا ایک کلیدی کردار ہوتا ہے۔ اور فی زمانہ یہ کردار جتنی مستعدی سے ادا کرنے کی ضرورت ہے شاید ہی کبھی اتنی ضرورت رہی ہو۔ ہم پر بطورِ والدین اپنی اولاد کی تربیت ایک فرض بھی ہے جو ربِ کائنات نے ہم پر عائد کر رکھا ہے اور یہ ایک قرض بھی ہے جو ہم نے معاشرے کو چکانا ہے۔

Facebook Comments

ربیعہ فاطمہ بخاری
لاہور کی رہائشی ربیعہ فاطمہ بخاری پنجاب یونیورسٹی سے کمیونی کیشن سٹڈیز میں ماسٹرز ہیں۔ تدریس کے شعبے سے وابستہ رہی ہیں لیکن اب ایک خاتونِ خانہ کے طور پر زندگی گزار رہی ہوں۔ لکھنے کی صلاحیت پرانی ہے لیکن قلم آزمانے کا وقت اب آیا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply