صبح ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے برادر عزیز عبدالعلیم کا فون آ گیا کہ وہ ہوٹل سے باہر موجود ہیں ۔ہم پہلے سے تیار تھے سو کچھ ہی وقت میں ان کی گاڑی میں آن بیٹھے ۔ اور اب ہم مدینے کے بعض تاریخی مقامات کو چل دیے ۔ ساتھ ساتھ میں مدینے کی گلیوں بازاروں کو اور عمارتوں کو دیکھ رہا تھا ۔ مدینے کے بارے میں عموماً یہ بات کہی جاتی ہے کہ یہاں کے باسی اہل مکہ کی نسبت نرم خو اور مہربان مزاج کے ہیں ۔ یقیناً ایسا ہی تھا کہ سینکڑوں میل دور جا کر پاک رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو باہوں میں سمیٹ کر اپنے ہاں لے آئے اور دوسری طرف مکہ والوں نے اپنے خاندان میں پیدا ہوئے رسول کو اپنے ہی گھر سے نکلنے پر مجبور کر دیا ۔ پھر رسول مکرم نے مدینے کو یوں سینے سے لگایا کہ جب فتح مکہ پر مال غنیمت میں سے اہل مکہ کو کھلے ہاتھ اور بہت سخاوت سے دینے کے سبب اہل مدینہ سے ایک فرد نے کچھ نامناسب بات کی تو آپ نے اہل مدینہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ” کیا یہ کم ہے کہ میں تمہارے حصے میں آیا اور تم میرے ہو ”
رسول اللّٰہ ﷺ جس وقت سفر سے آتے اور مدینہ کی دیواریں، درخت اور ٹیلے دیکھتے تو مدینہ کی محبت میں اپنی سواری تیز دوڑاتے، اسے ایڑھ لگاتے ، اور بھگاتے، پھر جب بالکل سامنے آ جاتے تو فرماتے:
’’یہ طابہ ہے ، اور یہ اُحد پہاڑ ہے، ہم اس سے محبت کرتے ہیں اور یہ ہم سے محبت کرتا ہے۔‘‘
ہوٹل سے نکلے تو مسجد امام بخاری پر نگاہ پڑی ، وہ سڑک کے اس پار تھی اور ہم اس پار ۔۔۔۔ نگاہوں سے دیدار کیا اور چلتے رہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی قبر پر اللہ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں ہوں اور انوار کی برکھا برسے کہ آپ بلاشبہ امیر المومنین فی الحدیث ہیں ۔ اور آپ نے صحیح البخاری لکھ کر امت پر وہ احسان کیا ہے کہ جس کا قرض چکانا ہم انسانوں کے بس کی بات تو نہیں ۔
ہمارا پہلا پڑاؤ مسجد درع تھا ، اس کو مسجد شیخین ، مسجد البداع اور مسجد العدوہ کے ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے لیکن سب سے زیادہ مشہور نام الدرع ہی ہے کہ جو برادر عبدالعلیم نے ہمیں بتایا ۔ اس مسجد کی قدامت ابھی تک قائم ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ اس مقام پر رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احد کو جاتے کچھ وقت قیام کیا اور زرہ بکتر زیب تن کی ۔ یہاں آپ نے صحابہ کرام کے ساتھ عصر، مغرب اور عشا اور اگلی صبح فجر کی نماز ادا کی اور اس کے بعد میدان احد کی طرف روانہ ہو گئے تھے۔ اس سبب اس کا نام درع پڑ گیا ۔ اس کی تصاویر آپ دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ قدیم عمارت ہے لیکن موجودہ سعودی حکومت نے اس کی مرمت پر توجہ دی ہے البتہ اس کی بنیادی ہئیت کو سلامت رکھا ہے ۔ میں نے اس کی تصاویر بنائی اور اپنے سفر میں پہلی کوئی اپنی ایسی تصویر بنائی کہ جو کہ کسی عبادت گاہ میں ہو وگرنہ حرم مکہ اور مدینہ میں میں نے اپنی تصویر بنانے سے اجتناب ہی کیا تھا ۔
اس کے بعد ہم احد پہاڑ کو نکلے ، جوں جوں احد قریب آ رہا تھا ، دماغ میں خیالات و واقعات کی مالا بنی اور چنی جا رہی تھی ۔ میدان جہاں جنگ ہوئی تھی ، احد پہاڑ کے دامن میں واقع ہے ۔ وہی احد پہاڑ کی جس کو مخاطب کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ :
” یہ احد پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں ”
ہم نے پارکنگ میں ایک طرف گاڑی کھڑی کی اور نیچے اترے ۔ ایک طرف ایک وسیع رقبے پر مدرسہ قائم تھا ، اور اس سے ذرا آگے وہ میدان جہاں شہدائے احد کی تدفین کی گئی تھی ۔ اس قبرستان کو اب ایک چاردیواری کے ساتھ بند کر دیا گیا ہے ۔ دیوار زیادہ اونچی نہیں ، البتہ اس کے اوپر سے لوہے کا جنگہ لگا کر ان قبور تک رسائی ختم کر دی گئی ہے ۔ لیکن آپ جنگلے کے اوپر سے دیکھ سکتے ہیں اور دعائیں کر سکتے ہیں ۔ ہم نے بھی دعا کی اور تصور کیا کہ کیسے اس روز مسلمانوں پر کڑا وقت گزرا تھا ۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک روز رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا احد کے دن سے بھی کڑا کوئی وقت آپ پر گزرا ہے ۔
گو جواب میں فرمایا کہ “طائف کا دن زیادہ مشکل تھا ”
لیکن اس سوال سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمان غزوہ احد کے دن کو ایک مشکل اور کڑا وقت تصور کرتے تھے ۔ اس روز ستر اصحابِ رسول شہید ہوئے ۔ در اصل اس جنگ میں مسلمانوں کا پلہ بدر کی طرح بھاری ہی تھا لیکن ایک جنگی غلطی نے ساری بازی پلٹ دی ۔ میدان کے ایک طرف ایک درہ تھا ، جو احد کے سامنے اور مسلمان لشکر کی پشت پر واقع تھا ۔ اس درے پر رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ سپاہیوں کا دستہ یہ کہہ کے مقرر کیا کہ “بھلے کچھ بھی ہو جائے جب تک میرا حکم نہیں آتا آپ نے یہ جگہ نہیں چھوڑنی ” ۔
جب میدان جنگ میں کفار کی شکست اور مسلمانوں کی فتح کے آثار نمایاں ہوئے تو اس دستے کے کچھ سپاہیوں نے یہ گمان کر کے جگہ چھوڑ دی کہ اب تو جنگ ختم ہو گئی جبکہ دوسری طرف اس دستے کے امیر ان کو اس بات سے روکتے رہے کہ رسول مکرم ﷺ کا حکم ہے کہ جب تک وہ نہ کہیں گے یہ جگہ نہیں چھوڑنی ۔
سیدنا خالد بن ولید ، تب تک مسلمان نہیں ہوئے تھے اور اہل مکہ کے لشکر میں تھے ، اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ لمبا چکر کاٹ کر اس درے سے نکل کر آئے اور اسے خالی پاتے ہوئے مسلمانوں کی پشت پر حملہ آور ہوئے اور جنگ کا پانسا پلٹ دیا ۔ مسلمانوں کا بہت نقصان ہوا ، خود رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوئے ، آپ کے دو دندان مبارک شہید ہو گئے ۔ آپ کے خیمے کی حفاظت کرتے ہوئے کتنے ہی اصحاب مہر و وفا نے اپنی جان کی قربانی دی اسی میدان میں وہ داستان عشق بھی رقم ہوئی کہ جو آج بھی محبت کی دنیا کا ایک زریں باب ہے ۔وہ زیاد ابن سکن تھے کہ جو دبلے پتلے اسی میدان احد میں رسول کے خیمے کے آگے کھڑے تھے کہ معرکہ احد میں جب رسول ﷺ نے آواز بلند کی کہ ” کون ہمارے خیمے کی دربانی کرے گا کہ جب تلواریں چمکیں گی اور تیر اڑیں گے ؟؟
ایک سے زیادہ بار رسولﷺ نے آواز بلند کی تو ہر بار سب سے پہلے لپک کر زیاد ابنِ سکن سامنے آئے اور پھر جب جنگ ہوئی تو یہ تیر و تفنگ جسم پر لیتے رہے ، حتیٰ کہ شہادت پائی ۔ گنا گیا تو جسم پر ستر زخم ۔۔۔۔ستر مہریں اثبات محبت و وارفتگی کی ۔۔۔۔۔اور دم رخصت آقا علیہ السلام بھی آبدیدہ نگاہوں سے زیاد کو دیکھا کیے اور زیاد نے آقا کے قدموں پر رخسار رکھے ، سرور کون و مکاں کا پاؤں مبارک پیچھے ہٹا تو زیاد تڑپ تڑپ اُٹھے ۔۔۔۔۔زیاد کہ ستر زخموں پر نہ تڑپے ، محبوب کے پاؤں کو رخسار سے ہٹا پایا تو تڑپ اٹھے۔۔۔۔۔
آقا ! دم رخصت اس جسم ناتوان سے اپنے پاؤں کو جدا تو نہ کیجیے ۔۔۔
اسی میدان میں رسول ﷺ کے دل کو وہ زخم آیا کہ جو عمر بھر رستا رہا کہ جناب سیدنا حمزہ جو آپ کے چچا بھی تھے اور مکہ کے مشکل دنوں کے رفیق بھی تھے اور یار بھی تھے ، ان کی شہادت ہوئی ۔ شہادت کا اپ ﷺ کو دکھ نہ تھا کہ مسلمان تو میدان جنگ میں آتے ہی شہادت کے لیے ہیں ، فتح شکست کے فلسفے تو کہیں بعد میں اپنی باری پاتے ہیں ۔ ہوا یہ کہ سیدنا حمزہ کی لاش کا مثلہ کیا گیا ، ان کے دل و جگر نکالے گئے ، بے حرمتی کی گئی ۔ یہ ایک بڑا واقعہ تھا جس کی کسک رسول مکرم ہمیشہ محسوس کرتے رہے ۔ یہی سبب تھا کہ جب فتح مکہ کے موقع پر جناب وحشی اسلام قبول کرنے آپ کے سامنے آئے تو آپ نے ان کا اسلام قبول کیا لیکن ان کو کہا کہ کوشش کرنا میرے سامنے نہ آیا کرو آپ میرے سامنے آتے ہو تو مجھے حمزہ یاد آ جاتے ہیں ۔
یہاں چلتے چلتے یہ بتاتا چلوں کہ سیدہ ہند رضی اللہ تعالی عنہا کو بعض لوگ مطعون کرتے ہیں کہ انہوں نے سیدنا حمزہ کی لاش کا مثلہ کیا تو یہ درست نہیں ۔ مسند امام احمد بن حنبل میں موجود روایت میں راوی کی سیدنا ابن عباس سے ملاقات ہی ثابت نہیں سو اس انقطاع کے سبب یہ روایت قابل اعتبار نہیں ہے اور ویسے بھی معمولی فہم و شعور رکھنے والا بندہ بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ اگر محض شہید کرنے پر وحشی کو کہا گیا کہ ” اعراض کیا کریں کہ آپ کو دیکھ کر حمزہ یاد آ جاتے ہیں”
تو سیدہ ہند کے قبول اسلام پر معمول سے زیادہ گرم جوشی کیوں اختیار کی گئی ، اور ایسی کسی پرانی کسک اور تکلیف کا کوئی اشارہ تک نہ کیا گیا اور نہ ایسی کوئی ہدایات جاری کی گئیں ۔ بلکہ محبت بھرے کلمات کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کا کھا کر جوابی کلماتِ محبت ادا کئے اور سید ہند کا مقام قیامت تک کے لیے طے کر دیا اب بھلے کوئی بغض کا مارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عطاء کی ہوئی اس سند محبت کو نہ مانے ۔
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ (فتح مکہ کے موقع پر )سیدہ ہند بنت عتبہ ؓ نے آکر فرمایا کہ :
” یا رسول اللہ ﷺ (اب سے پہلے) روئے زمین پر کسی گھرانے کی ذلت مجھے آپ کے گھرانے کی ذلت سے زیادہ پسند نہ تھی مگر اب مجھے روئے زمین پر کسی گھرانے کی عزت آپ ﷺ کے گھرانے کی عزت سے زیادہ پسند نہیں”
اس پر نبی ﷺ نے فرمایا کہ :
” اللہ کی قسم میرا بھی یہی حال ہے (یعنی مجھے بھی ہند ؓ بنت عتبہ کے گھر سے زیادہ کسی گھرانے کی عزت پیاری نہیں) اور اللہ اس میں (یعنی میرے گھرانے کے لئے تمہاری محبت میں )ابھی اور اضافہ فرمائے گا۔
بلکہ سیدہ ہند سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی محبت اور احترام والی گفتگو یہ ثابت کرتی ہے کہ رسول مکرم کی زندگی تک یہ واقعہ سیدہ ہند سے منسوب نہیں تھا۔
عرب روایتی طور پر تو مہمان نواز ہیں ہی لیکن میں یہ دیکھ رہا تھا کہ وہاں بھی زائرین کے لیے ایک کاؤنٹر سجایا گیا تھا جہاں قہوہ اور کھانے کے بن تقسیم کیے جا رہے تھے اور زائرین بے تکلفی سے قہوہ پیتے اور بن کھا رہے تھے ۔ ہم نے بھی اس مفت کی مہمان نوازی میں اپنا حصہ وصول کیا کیونکہ بنا مناسب ناشتہ کیے زیارات کو چل نکلے تھے ۔
میدان احد میں ایک بہت شاندار مسجد بھی تعمیر کی گئی ہے وقت کی قلت کے سبب میں نے اسے باہر سے ہی دیکھا اور پہاڑ کی طرف چل دیے ۔ یہ احد پہاڑ ہے کہ جس سے رسول کو محبت ہے ۔ اس کے ” قدموں” میں پہنچا تو دل پر محبت اور پیار کی عجیب کیفیت طاری ہو رہی تھی ۔ میں نے وہاں سے تین پتھر اٹھائے تھے جی تو چاہ رہا تھا کہ ان پہ ہونٹ رکھ دوں ، میں نے اپنے ہمراہیوں کو مخاطب کر کے با آواز بلند کہا کہ :
” یہ میں اس لیے لے کے جا رہا ہوں کہ اس پہاڑ سے ، پتھروں سے بھی میرے رسول کو پیار تھا وگرنہ ان سے برکت کا حصول میرا عقیدہ نہیں ”
میں نے تین نسبتاً بڑے پتھر اٹھائے تھے ، بعد میں معلوم پڑا کہ لوگ یہاں پر آتے ہیں تو وہ بھی پتھر لے جاتے ہیں لیکن وہ چھوٹے چھوٹے پتھر اٹھاتے ہیں ۔ اور یہی ہوا کہ جب جدہ میں ہم نے سامان کی پیکنگ کی تو ہمارا وزن خاصا زیادہ ہو گیا تب ہمیں کچھ مشکل محسوس ہوئی ۔ ابو الحسن ہنس رہا تھا کہ آپ نے بھلا چھوٹے پتھر اٹھائے ہوتے ۔ قصہ مختصر کہ میں نے دو پتھر اس کو دان کیے اور ایک پتھر لا کر اپنے گھر میں سجا لیا ۔جب میں سعودی عرب سے واپس پاکستان آیا تو میرے واپس آنے کے فوراً بعد مسیب قدوسی بھی عمرہ کرنے گئے اور وہ بھی چھوٹے چھوٹے پتھر اٹھا کے لائے۔ مسیب قدوسی مجھے کہہ رہے تھے میں تو یہ جوہری کو دے کر ان کی انگوٹھی بنواؤں گا کہ
دل کے آئینے میں ہے تصویر یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
چونکہ بالکل ہی صبح کا وقت تھا اور موسم خوشگوار تھا ۔ابھی سورج بھی آہستہ آہستہ بلند ہو رہا تھا ، اس سبب ہم نے خاصا وقت میدان احد میں گزارا ، اب ہم یہاں سے نکلنا چاہ رہے تھے ۔رش کافی ہو چکا تھا بلکہ جب ہم نکل رہے تھے تو سعودی حکومت کے مہمانوں کا ایک خاصا بڑا وفد وہاں گاڑیوں سے اتر رہا تھا جن کے ساتھ فوجیوں کا حفاظتی دستہ بھی تھا ۔ وہ آ رہے تھے اور ہم اپنی گاڑی میں بیٹھ رہے تھے اپنی اگلی منزل کے لیے۔۔۔
میدان احد سے نکلے تو اب ہماری اگلی منزل وادی عقیق تھی وادی عقیق کہ جس کے بارے میں روایت ہے کہ یہاں رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فرشتہ آیا اور حج وعمرہ سے متعلق کچھ احکامات پہنچائے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ :
” رات میرے پاس میرے رب کا ایک فرشتہ آیا اور کہا کہ اس ”مبارک وادی“ میں نماز پڑھ اور اعلان کر کہ عمرہ حج میں شریک ہو گیا۔”
وادی عقیق کے لفظ سے ممکن ہے آپ کے ذہن میں یہ آئے کہ جیسے ہمارے ہاں شمالی علاقہ جات میں بڑے بڑے پہاڑوں کے بیچ میں نیچے اتر کے جو گہرائی میں میدانی علاقے ہوتے ہیں ایسی کوئی وادی ہو تو اپنے خیال کو بدل دیجئے ۔ یہ اترائی میں ضرور ہے لیکن یوں جیسے کوئی پہاڑی نالہ یا دریا ہو یہ لمبا چلتا ہے لیکن چوڑائی بھی اچھی خاصی ہے ۔ لیکن ہمارے لیے تو یہ ہزار وادیوں سے زیادہ معزز اور خوبصورت اور باعث تکریم ہے کہ یہ ہمارے رسول کو پسند تھی جب بارش ہوتی ہے تو یہ نالہ نما وادی پانی سے بھر جاتی ہے ۔ برادر عبدالعلیم بتا رہے تھے کہ پچھلی بار تو یہ کافی اوپر آگیا تھا ۔ یعنی کہا جا سکتا ہے کہ دریا کی صورت اختیار کر گیا ۔ ایک جگہ اس میں تھوڑا سا پانی بہہ رہا تھا جو شفاف تھا میں نے اس کی تصویر لی اور جا کر پاس سے دیکھا ۔ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں پر جب آئے تھے تو انہوں نے ایک طرف نفل پڑھے تھے ۔ میرا بھی جی تو چاہا لیکن کچھ تساہل اور کچھ جائے نماز موجود نہ تھا ورنہ ضرور یہاں پہ رسول کے نقش قدم پر نفل پڑھنا چاہیے ۔
سعودی حکومت اس کے وسیع کناروں پر تفریحی مقامات کی تعمیرات کروا رہی ہے ، اور کافی جگہ پر تکمیل بھی ہو چکی ہے جہاں شام ڈھلے مقامی خاندان آن بیٹھتے ہیں
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں