ادب ان مسائل سے معاملہ نہیں کر رہا ہے جن کی طرف ہم یہاں توجہ دلانا چاہتے ہیں، جیسے کہ ‘بھیڑ ہتھیا’ (موب لنچنگ)۔
حقیقت میں صورتحال بالکل مختلف ہے۔ ادبی دنیا اور میڈیا ہاؤسز جیسے ادارے ان آوازوں کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں جو اپنے ادبی کاموں کے ذریعے ان جیسے مسائل پر خدشات اٹھا رہے ہیں۔
میرے پبلشر نے مجھے بتایا کہ بہت سے میڈیا ہاؤسز نے “لیگل فکشن” کتاب کے موضوع کی وجہ سے اس پر جائزے یا مضامین شائع کرنے سے انکار کر دیا۔
ایسے رویے مایوس کن ہیں، حالانکہ میرے لیے کم اہم ہیں۔ ذاتی طور پر میں اسے اپنے مسائل کو اٹھانے کی ترغیب کے طور پر لیتا ہوں۔ لیکن پورا پبلشنگ کاروبار بڑی حد تک جائزوں اور میڈیا کے ذریعے تشہیر پر منحصر ہے۔ یہ ایک فیڈبیک لوپ یا بدقسمت چکر شروع کر سکتا ہے جہاں ناکافی تشہیر ایسی آوازوں کو ان موجودہ موضوعات پر لکھنے سے روک سکتی ہے۔ چندن پانڈے”(دا پنچ ویب میگزین کو انٹرویو)
میں ہندی فکشن لکھنے والوں کے ہاں جب اپنے سماج میں ہورہی درگھٹناؤں سے متاثر ہوکر ان کے فکشن کے موضوعات پر نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے پاکستان میں اردو میں لکھنے والے اکثر وبیشتر ادیبوں کی مبینہ کم مائیگی کا شدت سے احساس ہونے لگتا ہے (یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ میری اپنی کم مائیگی ہو اور میں ان ادیبوں کے فکشن تک رسائی نہ کر پا رہا ہوں) ۔
میں نے جب کملیشور کا ہندی میں لکھے گئے ناول ‘کتنے پاکستان’ کا اردو ترجمہ پڑھا تھا تو مجھے تلاش ہوئی کہ تقسیم کو لیکر اس حسیت کے ساتھ ہمارے یہاں کس نے ایسا فکشن تخلیق کیا تو کسی حد تک انتظار حسین کا فکشن مجھے اس حسیت کے قریب تر نظر آیا لیکن ان کا تاثر اتنا شدید نہیں تھا جتنا شدید مجھے کملیشور کے ناول سے ملا تھا۔
ایسے ہی پچھلے دنوں جب تصنیف حیدر کی ادارت میں شائع ہونے والا رسالہ ‘اور’ میں ، میں نے اترپردیش کے ایک دور افتادہ گاؤں میں جنم لینے والے ہندی کے ادیب چندن پانڈے کا ناول ‘کیرتی گان’ کا احسن ایوبی کا کیا ہوا اردو ترجمہ پڑھا تو میرا اردو ادیبوں کی اس مبینہ کم مائیگی کا احساس اور دوچند ہوگیا۔
چندن پانڈے کو ہندوستان میں ‘بھیڑ ہتیھا’ ( موب لنچنگ کا یہ ہندی مترادف مجھے اردو میں اس اصطلاح کے کسی بھی تجویز کردہ مترادف سے زیادہ بہتر لگا) نے پہلے صدمے میں مبتلا کیا اور پھر انھیں لگا کہ اس قدر وحشیانہ عمل کو ہندوستانی سماج میں معذرت خواہانہ انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔ انہیں اس احساس نے بے چین کردیا کہ سماج ہندوستانی انٹیلی جینٹیشیہ/اجتماعی دانش کا ایک بڑا غالب حصّہ اس بارے ایسے استدلال کے ساتھ لکھ رہا اور بات کر رہا ہے جس سے اس عمل کے جواز کا پہلو نکل رہا ہے، انہوں ‘بھیڑ ہتھیا’ کے سماجی مظہر پر ناول لکھنے کی ٹھان لی ۔ انھوں نے بھیڑ ہتھیا کے جتنے بھی واقعات ہوئے تھے ان پر دستیاب مواد کو اکٹھا کیا اور پھر اس مواد کے گرد کہانی کو بننا شروع کردیا۔ وہ اس موضوع پر اپنی کہانی کا ڈرافٹ تیار کرچکے تھے کہ انھیں یہ خیال ستانے لگا کہ اس موضوع پر ایک ناول کافی نہیں ہوگا اور وہ ‘سہ ناولا'(ٹرائلوجی ناول) لکھنے کی طرف چلے گئے ۔ اس میں انھوں نے جو پہلا ڈرافٹ تیار کیا تھا وہ اس ‘سہ ناولا’ کی آخری کتاب قرار پایا اور انھوں نے اس پر دو کتابیں اور لکھیں ۔ پہلی کتاب ‘ ودھانائیک گالپ’ ( قانونی افسانہ/لیگل فکشن) کے نام سے شائع ہوئی اور دوسری کتاب ‘کیرتی گان’ کے نام سے شائع کی ۔ جس کا اُردو ترجمہ احسن ایوبی نے کیا اور تصنیف حیدر کی ادارت میں شائع ہونے والے رسالے ‘اور’ میں شائع ہوا اور پاکستان میں وہ ہمیں خوش قسمتی سے پڑھنے کو دستیاب ہوگیا اور اب کچھ عرصے میں اس ‘سہ ناولا’ کی تیسری کتاب بھی شائع ہوجائے گی جو چندن پانڈے نے سب سے پہلے لکھی تھی ۔
‘بھیڑ ہتھیا’ پر چندن پانڈے کے اس ناول کو پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں پھر سے وہی سوال اٹھا کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے فکشن نگاروں کو اس طرح کی بے چینی اور اکساہٹ کیوں نہیں ہوئی جیسی چندن پانڈے کو ہوئی تھی ۔
سندھ میں ہندو برادری کی کم عمر بچیوں کے زبردستی اغواء کیے جانے ، انھیں جبری تبدیلی مذہب کا شکار کرنے کے درجنوں واقعات رپورٹ ہوئے۔ پنجاب میں اور سندھ کے دارالحکومت کراچی میں مسیحی برادری کی عورتوں کے اغواء اور انھیں جبری تبدیلی مذہب پر مجبور کرنے کے کئی واقعات سامنے آئے اور دونوں مذہبی اقلیتوں کی ان بچیوں اور عورتوں کو زبردستی نکاح کے عمل سے بھی گزرنا پڑا ۔
ایسے ہی کوئٹہ ، ڈیرہ اسماعیل خان ، کراچی ، پارہ چنار میں شیعہ برادری کو ایک بے رحم نسل کشی کے عمل سے گزرنا پڑا ۔
ہمارے سماج میں جبری تبدیلی مذہب و نکاح اور بے رحم نسل کشی کے ان سماجی مظاہر پر جو اجتماعی دانشوارانہ ڈسکورس تھا وہ زیادہ تر معذرت خواہانہ (اپالوجیٹک) ، مائل بہ جواز ( جسٹیفیکشن ) اور کسی حد تک ان مظاہر کو دھندلا و مبہم
Obfuscation & Negation
پر مبنی تھا ( عباس زیدی نے ہمارے میڈیا اور اجتماعی دانش پر غالب آئے مذکورہ بلا رجحانات کے ساتھ تشکیل پانے والے ڈسکورس اور بیانیوں پر بڑی عرق ریزی سے دو تحقیقاتی مقالے بھی لکھے جسے دنیا بھر کے میڈیا اور علم بشریات کے ماہرین بہت وقیع کام خیال کرتے ہیں لیکن پاکستان کی صحافتی برادری اور اجتماعی دانش نے اس کو توجہ دینے کی بجائے وسیم الطاف، غامدی ، جبران ناصر اور احمد جاوید جیسوں کی لنترانی کو اہمیت دی اور ہماری لبرل اجتماعی دانش نے فرقہ وارانہ بلکہ تکفیری رجحان کو حرز ِجاں بنائے رکھا )لیکن اردو فکشن نگاروں میں سے کوئی ایک فکشن نگار ایسا نہیں ملا جسے چندن پانڈے جیسی بے چینی، اکساہٹ ہوئی ہو اور اس نے ان موضوعات پر کوئی ناول لکھنے کا کشٹ اٹھایا ہو۔
یہاں شیعہ شناخت کی پاداش میں 200 سے زائد ڈاکٹر، انجینئر ، ادیبوں اور سماجی سائنس دانوں کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی جن میں ڈاکٹر علی حیدر اور ان کے بیٹے کا بیگانہ قتل بھی شامل تھا لیکن اردو کے ادیبوں کی بے چینی اور انھیں لاحق صدمہ ناول کا روپ دھار نہیں سکا۔
ایک مسعود اشعر تھے جنھوں نے ڈاکٹر علی حیدر ان کے بیٹے کی ہتھیا کو لیکر ایک افسانہ لکھا جو پھیل کر افسانے سے ناول بننے کے قابل ہوسکتا تھا ۔
ہمارے سماج میں سابق گورنر سلمان تاثیر کی ہتھیا ، مشعال خان کی ‘بھیڑ ہتھیا’ ، آسیہ مسیح کی قید و مقدمہ ، جنید حفیظ کا کیس اور ایسے ہی شیعہ نوجوان تیمور رضا کو بلاسفیمی کے الزام میں ہائیکورٹ سے سنائی جانے والی سزائے موت ، پروفیسر نوتن چند، پروفیسر عرفان ملاح پر لگے بلاسفیمی کے الزام اور ان کا بچنے کے لیے مولویوں کے سامنے لائیو جانے والا معافی نامہ ، احمدی برادری کی مذہبی تعزیب اور ان کے کئی لوگوں کی ہتھیا اور ان کے تناظر میں سپاہ صحابہ اور ٹی ایل پی کی تکفیری مہم جو نفرت انگیزی اور اشتعال انگیزی کو ہمارے سماج کے اندر تک گھسا گئی ۔ یہاں تک کہ ہم نے اس تکفیری مہم میں نواز شریف کو جامعہ نعیمیہ میں جوتا پڑتے بھی دیکھا۔
لیکن ہمارے ادیبوں کو ان سب مظاہر نے جو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط اور باہم گندھے ہوئے بھی ہیں اس قدر بے چین نہیں کیا کہ وہ انھیں ناول ، سہ ناولا لکھنے پر اُکساتے ۔
راشد رحمان جیسا وکیل اور ملک شہباز بھٹی جیسے سیاسی کارکن قتل ہوگئے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل میں شیعہ شناخت کے حامل قیدی ذبح کردیے گئے۔
اسلام آباد کی کچی آبادی کی رہائشی بچی رمشا مسیح کا کیس بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا ۔
پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم کو مرتد قرار دیکر ایک خودکش حملے میں قتل کردیا گیا۔
صفورا گوٹھ میں اسماعیلی شیعہ برادری کے مرد و زن اپنی شناخت کی بنیاد پر گولیوں سے بھون دیے گئے۔
بلوچستان میں اپنے سیاسی خیالات کی بنیاد پر جبری لاپتا ہونے والے اور جلا وطنی گزارنے والی کریمہ بلوچ کا قتل یہ سب کے سب سماجی المیے کیا ہمارے اردو فکشن کے فریم ورک میں فٹ ہوکر کئی ایک ‘سہ ناولوں’ کی تشکیل کا سبب نہیں بن پائے، کیوں؟
دوہرا امتیاز یعنی مسیحی، شیعہ، احمدی اور ہندو عورتوں کا بطور عورت اور بطور ان کی مذہبی شناخت ہمارے فکشن کا موضوع کیوں نہیں بن پائے؟
میرے ذہن میں سوال در سوال جنم لیتے ہیں کہ ہمارے سماج کے المیوں کو ہماری ارون دھتی رائے، ہمارے کملیشور ، چندن پانڈے ، راہی معصوم رضا، رحمان عباس کیوں نہیں مل پا رہے؟ ہمارے ہاں ‘ادھورا گاؤں ‘، ‘کتنے پاکستان’، ‘ منسٹری آف اٹ موسٹ ہیپی نیس’، ‘کیرتی گان’ اور ‘زندیق’ جیسے ناول کیوں نہیں لکھے جا رہے ؟
ہوسکتا ہے میری نظر سے پاکستان میں ایسا اردو فکشن اوجھل ہو اور مجھے جو ادیبوں کی ‘کم مائیگی ‘ لگتی ہے وہ میری اپنی ہو۔
پس نوشت: بھیڑ ہتھیا پر چندن پانڈے کا 2021ء میں شکوہ تھا کہ ادب اور میڈیا دونوں اس موضوع سے انصاف تو کیا کریں گے وہ لکھنے والوں کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں ۔ اپنے ناول “ودھانائیک گالپ ” کی ایڈورٹائزنگ اور مارکیٹنگ کے لیے ہائر کردہ ان کے ایجنٹ نے انھیں بتایا تھا کہ کیسے میڈیا ان کی کتاب کا اشتہار اور اس کا تعارف چھاپنے میں رکاوٹ بن رہا تھا۔ اگرچہ آج 2024ء میں چندن پانڈے کی پہچان ان کے سہ ناولا کی دو کتابیں بن چکی ہیں اور انگریزی میں اس کی پہلی کتاب نے تو انھیں پوری دنیا میں مشہور کردیا ہے ۔
ہندوستان میں ادیبوں کے لیے جان کا خطرہ اور زمین تنگ کیے جانے کی مثالیں موجود ہیں ۔ مرحوم ساجد رشید پر تو ایک اردو روزنامے میں ایک اداریہ لکھنے پر اخبار کے دفتر سے نکلتے وقت قاتلانہ حملہ ہوگیا تھا اور کافی عرصہ انھیں اپنی نقل و حرکت روکنا پڑی تھی ۔ ارون دھتی رائے پر بغاوت اور دیش دروہی ہونے کے الزام لگے اور انھیں کچھ وقت ملک سے باہر گزارنا پڑا تھا۔ ایف ایم حسین کا اسٹوڈیو تباہ کردیا گیا تھا اور وہ بھی کچھ عرصہ قطر گزار کر آئے تھے۔ دو پروفیسر مہاراشٹر میں اپنے ناستک خیالات کے سبب قتل کردیے گئے تھے ۔ صحافی گوری لنکیش قتل ہوگئی تھیں ۔ پاش سدھو اکالی بنیاد پرستوں کے ہاتھوں قتل ہوئے ۔
بھیڑ ہتھیا جیسے موضوع پر لکھنے کے بعد چندن پانڈے کافی عرصہ تک اتر پردیش نہ جاسکے۔ اور تسلیمہ کے لیے تو ہندوستان میں جگہ ہی تنگ پڑ گئی جبکہ بنگلہ دیش میں بھی جب انھوں نے ‘لجا’ لکھا تو انھیں مرتد قرار دے دیا گیا۔ ہندوستان میں بھی ہندتوا پر لکھنا کبھی آسان کام نہیں رہا ہے۔ رسک اور خطرات تو ہر جگہ ہی ہوتے ہیں کم یا زیادہ ۔
پاکستان سے باہر رہنے والے وہ پاکستانی ادیب جو انگریزی میں لکھتے ہیں ان میں عباس زیدی ، صفدر نوید زیدی کو چھوڑ کر کسی نے ایسے موضوعات پر انگریزی میں بھی نہیں لکھا ۔ بلکہ جب عباس زیدی نے ایک مذاکرے میں محسن حامد سے یہ سوال کیا تو وہ ناراض ہوگئے تھے ۔
میرے خیال میں بلٹنٹ ہوکر لکھنے کی بجائے اس تکنیک میں ناول لکھنے اور بچ رہنے کی گنجائش موجود تھی اگر ویسے لکھ لیا جاتا جیسے عباس زیدی نے انفیڈل آف مکہ لکھی جس کا میں نے ترجمہ ‘ کفار مکہ’ کے نام سے کیا یا جسے ‘بنت داہر’ صفدر زیدی نے لکھا۔
خلاق اور باصلاحیت ادیب ٹیبوز اور ممنوعات کو بین السطور لکھنے کی تکنیک کے ساتھ لکھ کر قدرے ‘بچاو’ کا سامان کر ہی لیتے ہیں یہی تو بڑے ادب کی نشانی ہوتی ہے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں