دہشت گردوں کی ٹوٹی کمر۔۔۔۔۔ اے وسیم خٹک

کل پاکستان میں ہونے والے دو بڑے واقعات پر جتنی افسردگی ہے اس سے زیادہ حیرت ہے کہ جب ہماری سیکورٹی فورسز نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی تھی تو اب یہ دھماکے یہ حملے کیوں ہورہے ہیں؟۔۔۔ ـ تو بے ساختہ مجھےجنرل راحیل شریف یاد آجاتے ہیں جو کہہ رہے تھے کہ دہشت گردوں کی کمر توڑدی گئی ہے تو سکھ کا سانس لیاتھا کہ اب کوئی ماں بیٹے سے جدا نہیں ہوگی ـ کوئی بہن بھائی سے دور نہیں ہوگی ـ کسی باپ کی بیٹے کی جدائی میں کمر نہیں ٹوٹے گی ـ کوئی بیوی اپنے شوہر کی یاد میں آنسو نہیں بہائے گی اور نہ ہی کوئی بچہ یتیم ہوگا ـ مگر نہیں حالات اب بھی وہی سنگینی کی طرف رواں دواں ہیں ـ ۔جنرل راحیل شریف جھوٹ بول رہے تھے اب جنرل باجوہ بھی راحیل شریف کے سٹائل میں دبنگ دعوے کرتے ہیں ،مگر لولی لنگڑی طالبان تنظیمیں پھر بھی ایوانوں میں تھرتھلی مچادیتی ہیں ۔ ـ یعنی حکومتوں کے جانے سے چہرے بدلنے سے ،دہشت گردی ختم نہیں ہوئی ـ ۔اتنے  آپریشن ہوئے نتیجہ صفر نکلا، ـ کبھی تحریک طالبان ـ کبھی حزب الحرار تو کبھی داعش کے روپ میں معصوم لوگوں کو مارا گیاـ اور مارا جا رہا ہے ـ۔

کل کے ہونے والے واقعات دیکھے تو سوچا یہ دہشت گرد ٹوٹی کمر کے ساتھ کس طرح اتنے تواتر سے مقابلہ کر رہے ہیں ـ چائینہ قونصلیٹ پر حملہ کیا جاتا ہے ـ کوئٹہ کی تنظیم ذمہ داری قبول کر لیتی ہےـ چین کے اہلکار بچ جاتے ہیں جبکہ ہمارا خون چونکہ سستا ہے تو ہمارے غریب داعی اجل کو لبیک کہہ جاتے ہیں ـ ۔ایک خاتون پستول گھما تے ہوئے نمودار ہوتی ہے اور میڈیا سوشل میڈیا پر چھا جاتی ہے ـ پھر اورکزئی ایجنسی میں دھماکہ ہوتا ہے جس کی گونج زیادہ ہوتی ہے ۔ـ دھماکے کی نوعیت وہی 2008 جیسی ہوتی ہے یعنی تیس سے زیادہ افراد جنہیں معلوم نہیں کہ وہ کیوں کر شہید ہوئےـ ،صبح گھر سے زندہ نکلے تو شام کو ان کی نعشیں موصول ہوئیں ـ اور کہا گیا کہ یہ قوم پر قربان ہوگئے جس طرح اور لوگ ملک پر قربان ہوجاتے ہیں ان کا نام بھی پاکستان کی بقا میں شہید ہونے والوں میں   آگیا۔ ـ اب یہ شہید کی فیملی گردانی جائے گی ـ ،تعزیت کے لئے ان شہیدوں کے گھر جایا جائے گا ـ انہیں شہید اور زخمی پیکیج دیا جائے گا، جس کے پیچھے زندہ اور مردہ دونوں خاندان والے قطاروں میں کھڑے ہونگے اور حکومت کو یقین دلایا جائے گا کہ واقعی میں انہوں نے ملک کی بقا کے لئے جان دی ہے ـ ۔یہ تواتر سے ہونے والے واقعات اس بات کی ّغمازی کر رہے ہیں کہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ،ان کا قلع قمع ابھی نہیں کیا گیاـ ۔

ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کا خاتمہ نہیں کیا جا رہا ،ـ نئے نئے ناموں اور برانڈ کے ساتھ پرانی شراب کو نئی پیکنگ میں سامنے لایا جاتا ہے ـ اور پھر استعمال کر کے اسے ٹشو کی طرح ڈسٹ بن میں ڈال دیا جاتا ہے ـ طاہر داوڑ کی شہادت اب قصہ پارینہ بن جائے گی ـ مولانا سمیع الحق کے قاتل نہیں پکڑے جا سکیں گے ،ـ ان سب واقعات کے تانے بانے افغانستان سے جڑتے ہیں ـ جنرل رزاق قتل ہوتے ہیں تو مولانا سمیع الحق کو بھی راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے، ـ پھر طاہر داوڑ کی شہادت ہوتی ہے تو افغانستان میں حملوں میں تیزی آجا تی ہے ـ تو ساتھ میں عید میلادالنبی کے پروگرام میں دھماکے میں 70کے قریب جید علماء شہید ہوتے ہیں ـ۔ اُس کے بعد ماضی کی طرح جب کابل لہو لہان ہوتا ہے تو خون خیبر پختونخوا تک آجاتا ہے ـ ۔پشاور اگر بچ جاتا ہے تو پھر صوبے کا کوئی دوسرا ضلع لہو سے سرخ ہوجاتا ہے،ـ پختون کا خون بہت سستا اور ارزاں ہےـ ۔یہ احتجاج نہیں کرتے ـ اسے اللہ پر ڈال دیتے ہیں کہ اللہ بدلہ دے گاـ اور چھپ چھپ کے رو رو کر اپنے  آنسو خشک کر لیتے ہیں ـ کیونکہ یہ پختون ہیں غیرت مند  ہیں ـ یہ وار آن ٹیرر کے لئے بنے ہیں ـ، یہ ملک کی بقا کے ذمہ دار ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ـ کراچی میں چین کا کوئی اہلکار نہیں مرتا تو سکھ کا سانس لیا جاتا ہے کہ اچھا ہے کوئی چینی نہیں مرا ورنہ تعلقات خراب ہوتے۔ ـ سی پیک پر اثر ہوتا ،ـ میڈیا پر پورا دن نیوز میں اور ٹاک شوز میں کراچی ہی ہوتا ہے جبکہ پختونوں کا ارزاں خون جو اورکزئی میں بہتا ہے وہ صرف ٹِکرز تک محدود ہوکر کچھ وقت کے لئے جگہ پالیتا ہے ـ کہ پختون تو برسوں سے مرتے جارہے ہیں ـ وہ خبر کی تعریف پر پورا نہیں اترتا کیونکہ خبر وہ ہوتی ہے جو نئی ہو اور unexpectedہو اس لئے پختون علاقے میں دھماکے میں لوگوں کا مرنا کوئی خبر نہیں البتہ چینی قونصلیٹ پر حملہ خبر ہے کیونکہ یہ پہلی دفعہ ہوا ہے ـ اور جو پہلی دفعہ ہو وہ نیوز ہوتی ہے ـ پختونوں کی شہادت روز ہوتی ہے اور یوں پہلے کی طرح میڈیا پر اورکزئی دھماکے کی خبر کوئی وقعت نہیں رکھتی اور یوں دوسری نیوز بڑی نیوز بن جاتی ہے ـ جس پر ٹی آرپی بن جاتی ہے اور پھر وہ میڈیا ایجنڈا بن جاتا ہے ـ۔

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply