اگلی نسل کی دنیا (7) ۔ موسمیاتی تبدیلی/وہاراامباکر

گیس مالیکیولز کی ایک عجیب خاصیت ہے۔ ان کو ہماری سیاست یا نظریات یا احساسات وغیرہ کی پرواہ نہیں ہوتی۔
انسانی صنعتی سرگرمیاں فضا کے کیمیائی اجزا میں تبدیلی لا رہی ہے اور اس کا نتیجہ اوسطاً درجہ حرارت میں اضافے کی صورت میں ہے۔ بہت آسان الفاظ میں، یہ مظہر موسمیاتی تبدیلی کا ہے۔
گرین ہاوس گیسز کی ہمارے سیارے کو گرم کرنے کی اہلیت میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ اس کے بارے میں ہمیں 1820 کی دہائی میں پتا لگا تھا جب فرنچ ریاضی دان جوزف فورئیر نے نوٹ کیا تھا کہ زمین پر جتنا درجہ حرارت سورج سے فاصلے کی بدولت ہونا چاہیے، یہ اس سے بہت زیادہ ہے۔ گرین ہاوس گیسیں نہ ہوں تو زمین برفانی سیارہ ہو۔ اس کا اوسط درجہ حرارت پینتیس ڈگری سینٹی گریڈ تک کم ہو۔ لیکن یہ گیسیں شمسی توانائی کو قید کرنے کا جادو کرتی ہیں۔ شمسی ریڈی ایشن کو اندر آنے دیتی ہیں لیکن آسانی سے منعکس ہو کر باہر نہیں جانے دیتیں۔ یہ ویسے ہی ہے جیسے دھوپ میں بند گاڑی سخت گرم ہو جاتی ہے کیونکہ شیشے سے دھوپ اندر آ سکتی ہے۔
اس کی بنیادی فزکس کا سویڈش کیمسٹ سوانٹ ارہینیس نے پتا لگا لیا تھا۔ شیشے کی طرح، گرین ہاوس گیسیں کم ویو لینتھ کی دھوپ کے لئے شفاف ہیں اور اس کو فضا سے گزر کر زمین کی سطح تک جانے دیتی ہیں (تاوقتیکہ اس کو بادل نہ روک لیں) لیکن گرم زمین سے منعکس ہونے والی انفراریڈ شعاعوں کے لئے غیرشفاف ہیں اور اس حرارت کو واپس خلا میں جانے سے روکتی ہیں۔
ارہینئیس برفانی دور کا معمہ حل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اور انہوں نے سوال اٹھایا کہ جب انسان ایندھن جلا ہوا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو شامل کر رہے ہیں تو کیا اس سے زمین کا موسم بھی متاثر ہو رہا ہے؟ انہوں نے حساب لگایا کہ اس سے فرق پڑ سکتا ہے اور خاصا فرق پڑ سکتا ہے اگر گیس کی مقدار بڑھ جائے۔ ان کا لگایا ہوا حساب تھا کہ اگر یہ دگنی ہو جائے تو درجہ حرارت میں اوسط پانچ ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہو جائے گا۔ لیکن ارہینئیس اس بارے میں متفکر نہیں تھے کیونکہ وہ تصور نہیں کر سکتے تھے کہ انسان اتنی زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اضافہ کیسے کر سکتے ہیں۔ انہوں نے تخمینہ لگایا کہ ایسا ہونے میں کم سے کم تین ہزار سال لگیں گے۔
گرین ہاوس گیس کی فزکس کو سمجھنا آسان ہے لیکن انسانی صنعتکاری کو نہیں۔ ہم اس وقت اب تک کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں پینتالیس فیصد سے زیادہ کا اضافہ کر چکے ہیں۔ اس کا بہت احتیاط سے رکھا جانے والا ریکارڈ 1958 کے بعد کا ہے اور اضافے کا بڑا حصہ بھی اس کے بعد ہوا ہے۔ ہوائی میں موانا لوا رصدگاہ میں اس کی مسلسل نگرانی کی جاتی ہے۔
دو دوسری طاقتور گرین ہاوس گیسیں، میتھین اور نائیٹرس آکسائیڈ میں بھی انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے اضافہ ہو رہا ہے۔ زیادہ تر عملیت پسند پالیسی ساز یہ سمجھتے ہیں کہ اس صدی کے آخر تک دو ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ہونا تو طے ہے۔ اور اگر مناسب اقدامات نہ لئے گئے تو یہ اس سے زیادہ ہو سکتا ہے۔
یہ اتنا زیادہ نہ لگے لیکن ایسا نہیں۔ یاد رہے کہ پچھلے برفانی دور کے عروج پر، جب شکاگو شہر کا علاقہ ایک میل گہری برف میں دبا ہوا تھا، زمین کا درجہ حرارت آج کے مقابلے میں اوسطاً صرف پانچ ڈگری سینٹی گریڈ کم تھا۔
ارہینیس کے وقت سے اب تک زمین کے درجہ حرارت کی اوسط میں ہونے والا اضافہ 0.8 ڈگری ہے اور اس اضافے کا بڑا حصہ پچھلے چالیس برس میں ہوا ہے۔ اور اس اضافے کی رفتار میں بھی اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔
یاد رہے کہ کہ گلوبل وارمنگ تمام دنیا میں یکساں نہیں۔ کئی جگہوں پر زیادہ ہے، کئی پر کم۔ کئی میں درجہ حرارت میں تبدیلی نہٰں ہوئی اور کئی جگہ پر مقامی کولنگ بھی ہے۔ (اس کی وجوہات بعد میں)۔ لیکن عالمی اوسط کا ٹرینڈ اوپر کی طرف ہے۔ اور گرین ہاوس گیسوں کی مقدار کا بھی۔
درجہ حرارت میں اضافہ رات کے وقت دن کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ سردیوں میں گرمیوں کی نسبت زیادہ ہے۔ سمندروں میں زمین کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ قطبین کے قریب خطِ استوا کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ فضا میں یہ ٹوپوسفئیر میں ہے لیکن سٹریٹوسفئیر میں نہیں۔ اضافے کی دوسری وجوہات، جیسا کہ سورج کی تمازت میں تبدیلی، شہروں میں بننے والے ہیٹ آئی لینڈ، آتش فشاں یا فلکیاتی سائیکل اس کی وضاحت نہیں کرتے۔ یہ وضاحت گرین ہاوس گیس ایفیکٹ سے ہی ہوتی ہے۔
اور کئی anecdote ہیں جو ہمیں دکھا رہے ہیں کہ موسم کا رویہ عجب ہو رہا ہے۔ یورپ میں 2003 میں گرمی کی لہر نے پینتیس ہزار لوگ مار دئے تھے۔ جاپان، چین، امریکہ میں گرمی کی لہروں سے بڑی تعداد میں ہلاکتیں نئی آفت تھی۔ گرم سالوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور طوفانوں کی شدت میں بھی۔
کوئی ایک واقعہ نتیجہ نکالنے کے لئے کافی نہیں لیکن جب یکے بعد دیگرے بہت سے واقعات ہوں تو پھر اس کی کوئی اور وضاحت دینا مشکل ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم اس کو طویل ارضیاتی وقت کے سکیل کے تناظر میں دیکھ سکتے ہیں۔ گرین ہاوس گیس قدرتی سائیکل کی پابندی کرتی ہیں۔ جس طرح برفانی دور آتے اور جاتے رہے ہیں اور درمیان کے گرم دور رہے ہیں، ویسے ہی ان کا اتار چڑھاوٗ بھی۔ انسانی سرگرمیوں سے بھی ان کو ویسے ہی اثر ہوتا ہے لیکن ٹائم سکیل بہت مختلف ہیں۔ برفانی دور کے سائیکل دسیوں ہزار سالوں پر محیط ہیں جبکہ انسانی سرگرمیاں وہی کام کچھ دہائیوں میں کر سکتی ہیں۔
قدرتی پراسس جو گرین ہاوس گیس شفٹ کرتے ہیں، ان میں چٹانوں کا کٹاوٗ، فلکیاتی سائیکل، جنگلات اور دلدلوں کا پھیلنا، سمندر کا ٹرن اوور وغیرہ جیسے عوامل ہیں جو دسیوں ہزار سال لیتے ہیں۔ جبکہ انسان ماضی کے دفن شدہ کاربن کو بہت جلد جلا کر ہوا کا حصہ بنا سکتے ہیں۔ پہلے سے جاری قدرتی سائیکل زمین کو گرم کر رہا ہے اور اس پر انسانی سرگرمیوں کا اضافہ سونے پر سہاگا ہے۔ زمین کی حالت اس جگہ پر جا رہی ہے جو اس نے لاکھوں سال سے نہیں دیکھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں اس کا کیسے علم ہے؟ زمین کی یادداشت سے۔ گلئیشیر، سمندری تلچھٹ، درختوں کے رِنگ، غاروں کے معدنیاتی سٹرکچر اور دوسرے قدرتی آرکائیو یہ ریکارڈ سنبھال کر رکھتے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ شاندار وہ ننھے منے ہوا کے بلبلے ہیں جو گرین لینڈ اور اینٹارٹیکا کی برف کی تہوں میں پھنسے ہیں۔ یہ ماضی سے محفوظ کیا گیا ہوا کا سیمپل ہے جو اس جگہ پر پھنس گیا۔ اور جب اوپر برف پڑتی گئی تو یہاں سے نہ نکل سکا۔ بلبلوں کی سالانہ تہیں اکٹھی ہوتی رہیں اور یہ لاکھوں سال تک جارہ رہا۔ کسی نایاب قسم کے سائنسدان نے کھود کر اس کو نکالا اور سال بہ سال قدیم ہوا کا تجزیہ کر لیا۔ اور ہمیں معلوم ہو گیا کہ ہر سال کی ہوا کیسی تھی۔ ہمیں معلوم ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی موجودہ سطح آخری بار آٹھ لاکھ سال پہلے اتنی بلند تھی۔
آٹھ لاکھ سال! حضرت عیسیٰ کو زمین پر دو ہزار سال ہوئے ہیں۔ مصری فراعین کو چار ہزار سال۔ زراعت کو دس ہزار۔ آٹھ لاکھ سال بہت بڑا عرصہ ہے۔
مائیوسین ایپوک، جو ڈیڑھ کروڑ سال قبل تھا، کے وقت زمین کا درجہ حرارت تین سے چھ ڈگری کے درمیان زیادہ تھا اور سمندر کی سطح آج کے مقابلے میں پچیس سے چالیس میٹر بلند تھی۔
موسمیاتی تبدیلی زمین کے مستقبل کو شکل دینے والی ایک اہم فورس ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply