دشمنی تماشا۔۔گلفام ریاض

اُوووووو۔۔ آ آ آ آ
یہ تھی وہ آواز جو 2020-02-16 کی سہ پہر واہگہ بارڈر کے اولین اور یقیناً آخرین نا مسعود دورے کے دوران میری سماعتوں سے بکثرت ٹکراتی رہی ۔علاوہ از یں, ملبوس بلباسِ اسود نوجوانوں کی دیگر کئی قسم کی حرکات و سکنات پہ راقم تاحال انگشتِ بدندان اور بحرِ حیرت میں غوطہ زن ہے۔
بھئ ٹھیک ہے ملک بنتے بھی ہیں, ٹوٹتے بھی ہیں لیکن علیگڑھ کے لونڈوں کی سازش کے حامیوں اور گاندھی گری کے متوالوں کا جوش وجذبہ 73 سال بعد بھی سادہ لوح عوام الناس کو چین نہیں لینے دے رہا۔ ملکوں کی دشمنی میں جنگیں ہوتی تو سُنی ہیں لیکن یہ دونوں ہمسائے شاید دنیا بھر کے انوکھے دشمن ہیں کہ جہاں دشمنی نبھائی جاتی ہے تو زمین پہ پاؤں پٹخ کے, شاید آج تک غروب آفتاب سے قبل دوران پریڈ کسی جٹ کا وہاں سے گزر نہیں ہوا وگرنہ دھرتی ماں کے ساتھ دن دیہاڑے یہ ظلم دیکھ کر کب کا علمِ بغاوت بلند کر چکا ہوتا۔
یار اگر صرف ہوا میں پاؤں اچھال اچھال کر ہی دشمن کو ڈرانا ہے تو کیوں نہ سرو قد سپاہیوں کی بجائے آج کے نوجوان ٹک ٹاکرز کو موقع دیا جائے تاکہ ان کی اچھل کود سے جہاں حاضرین محظوظ ہوں گے وہاں ان بیچاروں کی ٹک ٹاک بھی بن جائے گی اور دشمن پہ رعب بھی پڑ جائے گا مطلب بغیر کسی کرائے کے تیر کے ایک نہیں بلکہ پورے تین شکار۔
پھر نعروں کی گونج اور اس کے ساتھ بیچارے ڈھول کے دونوں اطراف کو تنکوں سے یوں پیٹا جا رہا تھا جیسے صاحبانِ ڈھول اپنے بھاری بھر کم جُثے کے ساتھ لٹکے اس خالی وجودکو ہی لال قلعہ سمجھ بیٹھے ہوں۔
اس دن جہاں میں نعروں کی افادیت کا قائل ہوا وہیں میں نے محسوس کیا کہ ہماری قوم کے پاس اچھے نعروں کی کافی کمی ہے اس لیے میں حکومت سے درخوست گزار ہوں کہ اس مسئلے کے حل کے لیے محکمہ زراعت کی ایک کمیٹی فوراً تشکیل دی جائے جو عصرِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ نئے نعرے کاشت کرے تاکہ دشمن کی اینٹ کا جواب نعروں سے دیا جا سکے۔
اور پھر اس اچھل کود اور نعروں کے مسالوں کے ساتھ ملی نغموں کے بے ہنگم سروں کا ایسا تڑکا کہ سماعتوں کا نظامِ انہضام خراب ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور پھر جس رفتار سے کرائے کے گلوکاروں کے نغمانہ میزائل اپنی ہی عوام پہ داغے جا رہے تھے لگتا تھا کہ اب کی بار میدان کارزار میں افواج پاکستان کی قیادت کے فرائض حضرت ساحر علی بگا صاحب سر انجام دیں گے۔
لیکن میدان کارزار کی نوبت تو آنے ہی نہیں والی کیونکہ اسی دشمنی کے سہارے تو کئی گھروں کی دال روٹی بلکہ مٹن بوٹی چل رہی ہے۔
ویسے یقیں مانیے ہم جیسی عظیم قوم نے ظہور پذیر ہونے میں کافی دیر کر دی۔ اگر دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے ملی نغمے, پاؤں پٹخنے, نعرے اور ڈھول کی تھاپ پہ رقص کرنے جیسے جدید اور مہلک ہتھیار اگر پہلے متعارف کروا دیے جاتے تو دونوں عالمی جنگوں میں لقمۂ اجل بننے والے کروڑوں افراد کی جان بچ جاتی۔ امریکہ ہیروشیما پہ ایٹم بم پھینکنے کی بجائے ایلافٹزجیرالڈ کو جاپان بھیج دیتا جو اپنی مسحور کن آواز اور مدہوش کن نغموں سے جاپانیوں کو اپنا اسیر بنا لیتی اور ہٹلر گانے سنا سنا کے یہودیوں کے ہوش ٹھکانے لگا دیتا اور مسولینی ڈھول کی تھاپ پہ رقص کرتا ہوا اپنے دشمنوں کے چھکے چھڑا دیتا اور اس طرح آج ساری دنیا ہماری جنگی مہارت اور حکمت عملی کی قدر دان ہوتی۔
بہرحال اس دن بلڈیز کا جوش و جذبہ دیکھ کے یقین ہو گیا کہ سرحد کے دونوں طرف کونوں رانگ نمبر والا ڈوپلیکیٹ گاڈ بیٹھا ہے جو گزشتہ ستر سال سے دونوں ملکوں کے عوام کی پِھرکی لے رہا ہے۔ جو عملی طور پہ کچھ کرتا نہ کرنے دیتا اور نہ ہی اس دشمنی کو مرنے دیتا ہے۔ پتہ نہیں کیوں۔۔۔۔!

Facebook Comments