میرٹھ چھاؤنی،کیمپ نمبر 28میں گزارے22ماہ(7)-گوہر تاج

کھلنا سے میرٹھ کیمپ تک

اسٹیشن پہ رُکی ٹرین میں، کہ جس کی کھڑکیوں کو ہماری حفاظت کے لیے کیلیں ٹھونک کے مضبوطی سے بند کردیا تھا ، سارے مسافروں کو بھوک لگ رہی تھی ۔ہم سب نے اپنے اپنے شکم کو بوری میں بھری روٹی کے ٹکڑوں اور پانی سے سَیر کیا اور سکون کا سانس لیتے ہوۓ خدا کا شکر ادا کیا کہ ہم سب بالآخیر محفوظ ہیں ۔ اور بنگلہ دیش کی خطرناک فضا سے نکل آۓ ہیں ۔عام تاثر یہی  تھا کہ اب کچھ ہی عرصے میں پاکستان کی آزاد فضا میں سانس لیں گے،لیکن ٹرین کی اگلی منزل کہاں ہوگی یہ ہمیں کوئی سپاہی نہیں بتا رہا تھا۔

اسٹیشن پہ آدھ گھنٹے ٹھہرنے کے بعد دن کے دو بجے کے قریب ٹرین کی سیٹی بجی اور سفر کا سلسلہ دوبارہ شروع ہُوا۔ہم جیسور کو پار کرکے اب انڈیا میں داخل ہوچکے تھے۔ تیز رفتاری سے دوڑتی ٹرین اب ایک پُل سے گزر رہی تھی ۔ بڑی عمر کے مسافر آپس میں باتیں کر رہے تھے انکی گفتگو سے پتہ چلا کہ یہ مشہور زمانہ ہاوڑا پُل ہے۔

ہاوڑا پُل کو پار کرنے کے بعد ٹرین کسی اور اسٹیشن پہ رُکی۔باہر سے لوگوں کی آوازیں آرہی تھیں جو بنگلہ زبان میں گفتگو کر رہے تھے۔بسکٹ، چاۓ اور پھل بیچنے والوں کی آوازیں ایکدوسرے میں گڈمڈ ہورہی تھیں۔اس سے اندازہ ہُوا کہ یہ مغربی بنگال کا علاقہ ہے۔اسی طرح کئی اور اسٹیشن گزرے پھر ایک اسٹیشن پہ ٹرین کوئی  ۴۵ منٹ تک رُکی یہ گیا شہر تھا۔ جہاں کی تل کٹ مٹھائی  مشہور ہے۔جس میں تِل کا خاصا استعمال ہوتا ہے۔تل کٹ بیچنے والوں کی آوازوں سے دل چاہا کہ کاش دوڑ کے خرید لیں مگر اب وہ آزادی کی فضا کہاں۔

اب ابّی ذہنی طور پہ بہتر ہورہے تھے اور کبھی کبھی نارمل لوگوں کی طرح گفتگو میں حصہ بھی لے رہے تھے۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ اب سب کو اپنے محفوظ ہونے کا اطمینان تھا۔ ہم نامعلوم منزل کی طرف جا رہے تھے لیکن یہ معلوم تھا کہ اب ہمارے ساتھ جانے والا کھانا ختم ہونے کو تھا۔اس میں سب سے اہم بچوں کے لیے دودھ تھا۔ جب ایک اسٹیشن پہ الٰہ آباد کے امرود بیچنے والوں کی آواز یں آئیں تو ابّی نے کہا “اچھا ہم یوپی میں آگئے ہیں۔” میں نے پوچھا کہ یوپی کیا ہے انہوں نے بتایا کہ یہ انڈیا کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔اور یوپی کا مطلب اتر پردیش ہے۔اسکے بعد دیر تک ٹرین چلتی رہی تب اچانک ایک چھوٹے اسٹیشن پہ رُک گئی ۔ تشویش ہوئی  آخر کیا بات ہے۔ مگر پتہ چلا کہ عملے کی تبدیلی ہورہی ہے۔

کھلنا سے دوبجے دوپہر تیس جنوری سے چلنے کے بعد دو فروری کو رات تین بجے ٹرین ایک جگہ رک گئی ۔ جو اسٹیشن نہیں بلکہ یہ ایک کُھلا میدان تھا۔ جہاں ہم سب کو ٹرین سے اُتار دیا گیا۔ سخت سردی سے جسم یخ بستہ ہورہے تھے۔رات کے اندھیرے میں کہیں تھوڑی بہت روشنی لگائی  ہوئی  تھی۔

ایسے میں میگا مائیک پہ ایک انڈین فوجی کی پاٹ دار آواز گونجی ۔ جو انگریزی میں کہہ رہا تھا۔ “ میرا نام کرنل ببر ہے۔ اور اب آپ سب جنگی قیدی ہیں۔آپ سب اس وقت تک یہاں رہیں گے جب تک دونوں حکومتوں کے درمیان کوئی  معاہدہ نہیں ہوجاتا۔لہٰذا آپ یہاں سے فرار ہونے کا مت سوچیے گا۔ اگر کسی نے فرار ہونے کی کوشش کی اسے گولی مار دی جاۓ گی۔” ایک دو افراد کی آواز آئی  کہ لیکن ہمیں تو یہ بتایا گیا تھا کہ۔۔۔۔” جس پر کرنل ببر نے سخت آواز میں کہا “اپنے منہ بند رکھیں۔میں حکم دے رہا ہوں درخواست یا اطلاع نہیں دے رہا۔یہ حکم ہے۔آپ میں جو عورتیں اور بچے ہیں ان میں پندرہ سے کم عمر کے بچے اپنی ماؤں کے ساتھ ،اور بڑے لڑکے مَردوں کے ساتھ رہیں گے۔ مرد اور عورتیں الگ الگ رہیں گے ۔اب آپ سب لوگ بھوکے ہونگے ، لمبا سفر طے کرکے آۓ ہیں لہٰذا کھانا کھا لیں۔

بھوکے تو ہم سب واقعی تھے مگر اب کھانا کس میں لیں ،کوئی  رکابی نہیں تھی۔ میدان میں بیٹھے ہوۓ تھے ۔ رکابی کہاں سے آتی۔ پلیٹوں کے بجاۓ کھانا ہماری ہتھیلیوں پہ کیلے کے پتے پہ رکھا گیا،  اس میں دال دی گئی گرم ہونے کی وجہ سے اسکی  حدت ہاتھ پہ محسوس ہورہی تھی۔ پھر ہمیں کہا گیا کہ روٹی اور چاۓ بھی ہے۔ ابّی کی دونوں ہتھیلیوں میں کیلے کے چھلکوں پہ دال رکھ دی گئی تھی ۔ میں نے روٹی لی اور ان کو بھی کھلا رہا تھا اور خود بھی کھا رہا تھا۔ابّی کی عمر اکتالیس یا بیالیس سال کی تھی مگر ابھی بھی خوف کے عالم میں ہونے کی وجہ سے ذہنی طور پہ بہت نارمل نہ تھے ۔اور ڈیپریشن میں رہنے کی وجہ سے عموماً بالکل خاموش رہتے تھے۔ ان کی خبر گیری کی وجہ سے ہی میں آدمیوں میں ابّی کے ساتھ تھا۔ کھانے کے بعد انہوں نے چاۓ مانگی ۔چاۓ کے لیے دو آدمیوں کے حساب سے المونیم کا ایک کپ ملا۔ لیکن اب چاۓ کس میں لی جاۓ ؟ بیت الخلاء کے تانبے کے لوٹے تھے انہیں دھویا گیا اور پھر ان میں چاۓ بھری گئی اور یوں باری باری پہلے ایک اور پھر دوسرے آدمی نے پی۔کھانے پینے اور پیٹ بوچا میں آدھ پون گھنٹہ لگا ہوگا۔جو ٹرین کے باہر ہی عمل میں آیا۔پھر فوجی حکم نامہ آیا کہ ٹرین میں سوار ہُوا جاۓ۔

دوبارہ ٹرین میں بیٹھنے کے بعد ہر ڈبے میں دو فوجی تھے ایک آگے اور ایک پیچھے ۔ پھر جب ٹرین رُکی تو کھڑکی کے جھروکے سے میں نے ایک جگہ پہ میرٹھ لکھا ہُوا پڑھا۔ یہ میرٹھ کا اسٹیشن تھا۔اور چونکہ ہم سب اب قیدی تھے لہٰذا ہم سبھوں کو میرٹھ چھاؤنی کی بیر کسوں میں پہنچا دیا گیا۔اور دوسرے قید خانوں کی طرح   جیل کی یہ عمارت بھی چاروں جانب سے خاردار آہنی تاروں سے گِھری ہُوئی  تھی۔ کسے معلوم تھا کہ اب اگلے بائیس ماہ کے لیے یہ قید خانہ ہزاروں قیدیوں کا آشیانہ بن جاۓ گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply