آیا صوفیہ۔۔عائشہ احمد

استنبول ، ترکی کا سابقہ گرجا گھر اور موجودہ مسجد آیا صوفیہ یعنی (حکمت خداوندی) مشرقی آرتھوڈوکس کا سابقہ گرجا گھر ہے جسے 1453 میں فتح قسطنطنیہ کے بعد عثمانی ترکوں نے مسجد میں تبدیل کر دیا تھا۔ سن 1935 میں مصطفی کمال پاشا نے آیا صوفیہ کے گرجے اور مسجد کی حیثیت کو ختم کر کے اسے عجائب گھر میں تبدیل کر دیا۔ آیا صوفیہ ترکی کے شہر استنبول میں واقع ہے اور اسے تاریخ کی عظیم ترین عمارتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

تاریخی پس منظر
آیا صوفیہ ، سلطان محمد فاتح کے ہاتھوں قسطنطنیہ فتح ہونے تک مسیحیوں کا دوسرا بڑا مذہبی مرکز بنا رہا ہے ۔ تقریبا ًپا نچویں صدی عیسوی سے مسیحی دنیا دو بڑی سلطنتوں میں تقسیم ہو گئی  ۔ ایک سلطنت مشرق میں تھی جس کا پایہ تخت قسطنطنیہ تھا، اور اس میں بلقان، یونان، ایشیاء  کوچک، شام، مصر اور حبشہ وغیرہ کے علاقے شامل تھے۔ اور وہاں کا سب سے بڑا مذہبی پیشوا بطریرک کہلاتا تھا۔ اور دوسری بڑی سلطنت مغرب میں تھی جس کا مر کز روم ( اٹلی) تھا۔ یورپ کا بیشتر علاقہ اس کے زیر نگیں تھا، اور یہاں کا مذہبی پیشوا پوپ کہلاتا تھا۔ ان دونوں سلطنتوں میں ہمیشہ سیاسی اختلافات کے علاوہ مذہبی اور فرقہ وارانہ اختلافات جاری رہے۔ مغربی سلطنت کا مرکز روم تھا وہ رومن کیتھو لک کلیسیا فرقے کی تھی اور مشرقی سلطنت ، آرتھوڈوکس کلیسیا فرقے کی تھی۔ آیا صوفیہ کا چرچ آرتھو ڈوکس کلیسیا کا عالمی مر کز تھا۔

مسیحی اہمیت
آیا صوفیہ مسیحیوں کے گروہ آرتھوڈوکس کلیسا  کا عالمی مرکز تھا، اس چرچ کا سربراہ جو بطر یرک یا پیٹریارک کہلاتا تھا، اسی میں مقیم تھا لہذا نصف مسیحی دنیا اس کلیسا کو اپنی مقدس ترین عبادت گاہ سمجھتی تھی ۔آیا صوفیہ اس لحاظ سے بھی اہم تھا کہ وہ روم کے کیتھولک کلیسیا کے مقابلے میں زیادہ قدیم تھا۔ اس کی بنیاد تیسری صدی عیسوی میں اسی رومی بادشاہ قسطنطین نے ڈالی تھی جو روم کا پہلا عیسائی  بادشاہ تھااور جس کے نام پر اس شہر کا نام بیز نطینہ سے قسطنطنیہ رکھا گیا تھا۔ تقریبا ایک ہزار سال تک یہ عمارت اور کلیسا پورے عالم عیسا ئیت کے مذہبی اور روحانی مرکز کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے۔ مسیحیوں کا عقیدہ بن چکا تھا کہ کلیسیا کبھی ان کے قبضے سے نہیں نکلے گا اس سے ان کے مذہبی اور قلبی لگاؤکا یہ عالم ہے کہ اب بھی آرتھو ڈوکس کلیسا کا سربراہ اپنے نام کے ساتھ ”سربراہ کلیساۓ قسطنطنیہ “ لکھتا آیا ہے۔

اسلامی فتح
جب 1453 میں عثمانی سلطان محمد فاتح نے 21 برس کی عمر میں قسطنطنیہ کو فتح کیااور بازنطینیوں کو شکست ہو گئی  تو اس شہر کے مذہبی رہنماؤں اور راسخ العقیدہ عیسائیوں نے اس کلیسیا میں اس خیال سے پناہ لی تھی کہ کم از کم اس عمارت پر دشمن کا قبضہ نہیں ہو سکے گا ۔ مشہور انگریز مورخ ایڈورڈ گبن اس کی منظر کشی کرتے ہوۓ لکھتے ہیں” گرجا کی تمام زمینی اور بالائی  گیلریاں باپوں، شوہروں، عورتوں ، بچوں، پادریوں ، راہبوں اور کنواری ننوں کی بھیڑسے بھر گئی  تھی ،کلیسا کے دروازوں کے اندر اتنا ہجوم تھا کہ وہاں داخلہ ممکن نہ رہا تھا۔ یہ سب لوگ اس مقدس گنبد کے ساۓ میں تحفظ تلاش کر رہے تھےجسے وہ عرصہ دراز سے ایک لاہوتی عمارت سمجھتے آۓ تھے ۔یہ سب ایک افترا پرداز کی وجہ سے تھا جس میں یہ جھوٹی بشارت تھی کہ جب ترک دشمن اس قسطنطین ستون کے قریب پہنچ جائیں گے تو آسمان سے ایک فرشتہ ہاتھ میں تلوار لیے نازل ہو گااور اس آسمانی ہتھیار کے ذریعے سلطنت ایک ایسے غریب آدمی کے حوالے کر دے گا جو اس وقت اس ستون کے پاس بیٹھا ہوگا۔ “ لیکن ترک عثمانی فوج اس ستون سے بھی آگے بڑھ کر صوفیہ کلیسا کے دروازے تک پہنچ گئے ۔ نہ کوئی  فرشتہ آسمان سے نازل ہوا اور نہ رومیوں کی شکست فتح میں تبدیل ہوئی  کلیسا میں جمع عیسائیوں کا ہجوم آخر وقت تک کسی غیبی امداد کا منتظر رہا۔ بالاخر سلطان محمد فاتح اندر داخل ہو گئے  اور سب کے جان و مال اور مذہبی آزادی کی ضمانت دی ۔ فتح کے دن فجر کی نماز کے بعد سلطان محمد فاتح نے یہ اعلان کیا تھا کہ ان شاء اللہ ہم ظہر کی نماز آیا صوفیہ میں ادا کریں گے چنانچہ آیا صوفیہ اسی دن فتح ہوئی  اور اس سر زمین پر پہلی نماز ظہر ادا کی گئی  ۔ اس کے بعد پہلا جمعہ بھی وہیں ادا کیا گیا۔

آیا صوفیہ مسجد
قسطنطنیہ چونکہ سلطان کی طرف سے صلح کی پیشکش کے بعد بزور شمشیر فتح ہوا تھا اس لئے  مسلمان ان کلیساؤں کو باقی رکھنے کے پابند اور مشروط نہ تھے ، اور اس بڑے چرچ کے ساتھ جو توہمات اور باطل عقیدے وابستہ تھے انھیں بھی ختم کرنا تھا اس لئے  سلطان محمد فاتح نے اس چرچ کو مسجد میں تبدیل کرنے کا ارادہ کیا ،چنانچہ اسے مال کے ذریعے خریداگیا اس میں موجود رسموں اور تصاویر کو مٹا دیا گیا یا چھپا دیا گیا اور محراب قبلہ رخ کر دیا گیا سلطان نے اس کے میناروں میں بھی اضافہ کر دیا تھا اس کے بعد یہ مسجد ”جامع آیا صوفیہ“ کے نام سے مشہور ہو گئے  اور سلطنت عثمانیہ کے خاتمے تک تقریبا ًپانچ سو سال تک پنج وقتہ نماز ادا ہوتی رہی۔

جگہ کو خرید کر مسجد بنانا

فتح قسطنطنیہ کے بعد وہاں مسلمانوں کی نماز اور اجتماع کے لئے فوری کوئی  جمع گاہ اور عبادت گاہ نہ تھی ، اس لئے  سلطان نے آرتھو ڈوکس کلیسا کے اس تاریخی مذہبی مرکز کو مسجد بنانے کا ارادہ کیا چنانچہ سلطان نے اس عمارت کو اور آس پاس کی زمین کواپنے ذاتی مال سے خریدااور اس کی مکمل قیمت کلیسا کے راہبوں کو دی اس کے علاوہ سلطان نے اس مصرف کے لئے  مسلمانوں کے بیت المال سے بھی قیمت نہیں لی بلکہ طے کردہ پوری قیمت اپنی جیب سے ادا کی اور اسے مسلمانوں کے لۓ وقف کر دیا ۔ خرید و فروخت کے دستاویزات آج بھی ترکی کے دارلحکو مت انقرہ میں موجود ہیں.

عمارت
آیا صوفیہ کے سامنے ایک خوبصورت چمن ہے، اس کے بعد اس کا مرکزی دروازہ ہے۔ دروازے کے دونوں طرف وہ پتھر نصب ہیں جہاں پہرہ دار کھڑے ہوتے ہیں۔ اندر وسیع ہال ہے جو مربع کی شکل کا ہے ۔ اس کی وسعت غلام گردش اور محراب کو چھوڑ کر  شمالاً جنوباً  235 فٹ ہے ، بیچ کے گنبد کا قطر 107 فٹ، اور چھت کی اونچائی  185 فٹ ہے ۔ پوری عمارت میں170 ستون ہیں چاروں کونوں پر مسلمانوں نے چھ ڈھالوں پر اللہ، محمدﷺ، ابو بکر، عمر، عثمان اور علی نہایت خوشخط لکھ کر لگایا ہوا ہے۔ اوپرماحول چھت کی طرف خوبصورت روشندان بنے ہوۓ ہیں عمارت میں سنگ مرمر استعمال کیا گیا ہے بے شمار تختیاں لگی ہوئی  ہیں جن پر عربی خط لکھا اور نقش نگار کیا گیا ہے.

آیا صوفیہ عجائب گھر
آیا صوفیہ کی عمارت فتح قسطنطنیہ کے بعد 481 سال تک مسجد اور مسلمانوں کی عبادت گاہ رہی ۔ لیکن سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد جب مصطفی کمال اتاترک ترکی کا سربراہ بنا تو اس نے مسجد میں نماز بند کروا کے اسے عجائب گھر بنا دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

مسجد بحالی
31 مئی  2014 کو ترکی کی ” نوجوانان اناطولیہ “ نامی ایک تنظیم نے مسجد کے میدان میں فجر کی نماز کی مہم چلائی  جو آیا صوفیہ کی مسجد بحالی کے مطالبے پر مبنی تھی۔ اس تنظیم کا کہنا تھا کہ انھوں نے ڈیڑھ کروڑ لوگوں کی تائیدی دستخطو ں کو جمع کیا ہے ۔ لیکن اس وقت کے وزیر اعظم کے مشیر نے بیان دیا تھا کہ ابھی آیا صوفیہ کو مسجد میں بحال کرنے کا کوئی  ارادہ نہیں ہے۔
10 جولائی  2020 کو ترکی کی عدالت نے آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کی قرارداد کی منظوری دے دی ، اور عجائب گھر کی  حیثیت منسوخ کر کےسرکاری طور پر مسسجد بحالی کا فیصلہ صادر کر دیا۔ ترکی کے صدر طیب اردگان نے آیا صوفیہ کی مسجد بحالی کے فیصلے پر دستخط کر دیے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply