ربوہ یا چناب نگر۔۔ذیشان محمود

پاکستان کے وسط میں دریائے چناب کے کنارے، پہاڑوں میں اور سبز و شاداب درختوں سے گھرا چناب نگر ایک ایسا شہر جس کے قیام پر آج 20 ستمبر 2021ء کو 72 سال گزر گئے۔ یہ شہر ربوہ تو 72  سال کا ہو گیا لیکن موجودہ نام چناب نگر کو پیدا کیے   ابھی 22 یا تیئس سال کا عرصہ ہوا ہے۔ نادرا (NADRA)بے چارہ تو غلطی سے کبھی نام کبھی تاریخ پیدائش یا جنس تبدیل کر دیتا ہے۔ لیکن یہاں تو مقدس قرار دیئے گئے ایوانوں میں تاریخ میں پہلی بار عقیدہ کی بنیاد پر اس شہر کا نام تبدیل کر دیا گیا۔ حالانکہ پاکستان میں معروف غیر اسلامی شخصیات کے نام پر ابھی بھی سڑکیں اور عمارات حتی کہ شہر بھی موسوم ہیں جن سے کسی طور سرکاری مذہب کا تقدس پامال نہیں ہوتا۔ تبدیلی کی یہ رسم ادا کیے جانے پر تو سلور جوبلی ہونے کو آئی لیکن رِیت نہ بدلی اور قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا گیا۔علامہ اقبال نے کہا تھا:
پنجاب کے اربابِ نبوّت کی شریعت
کہتی ہے کہ یہ مومنِ پارینہ ہے کافر

چناب نگر میں غروب آفتاب کا ایک حسین منظر

تبدیلیٔ نام پر بی بی سی اردو کے ایک مضمون ‘آخر نام میں کیا رکھا ہے؟ ‘ کا اقتباس درج کرتا ہوں جس کے مطابق ہمارے ہاں سرکاری طور پر نام تبدیل کرنے میں کن امور کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔
’’کراچی میں اردو یونیورسٹی کے پروفیسر توصیف احمد کا کہنا ہے کہ ساری دنیا میں جہاں قومیں آزادی حاصل کرتی ہیں وہ سامراجی ناموں کو تبدیل کرکے ان کی جگہ اپنے حریت پسندوں کے ناموں پر سڑکوں اور عمارتوں کے  نام رکھتی ہیں ۔ پاکستان نے جب آزادی حاصل کی تو بدقسمتی سے برصغیر کے اصل حریت پسندوں کو اہمیت نہیں دی گئی جنہوں نے حقیقی طور پر برطانوں سامراج کے خلاف لڑائی لڑی ۔ مثلاً بھگت سنگھ کے نام پر کبھی کسی سڑک کا نام نہیں رکھا گیا یا بعد کے برسوں میں ڈاکٹر عبدالسلام کا نام آتا ہے جنہوں نے پاکستان کا نام روشن کیا لیکن ہمیشہ حکمران طبقے کے لیے ناپسندیدہ رہے جس کے نتیجے میں کسی سڑک یا عمارت کا نام ان کے نام پر نہیں رکھا گیا ۔منشی پریم چند اردو ادب کا ایک بڑا نام اور اردو افسانے کے بانیوں میں سے ایک تھے لیکن مذہبی وجوہات کے سبب ان کو بھی اہمیت نہیں دی گئی۔ پروفیسر توصیف کے مطابق ناموں کی تبدیلی یا نئی سڑکوں کے نام رکھے جانے کے معاملے میں ان افراد کو شامل نہیں کیا گیا جو شہر کی تاریخ کے بارے میں جانتے تھے بلکہ یہ کام بیوروکریسی کے حوالے کر دیا گیا جس نے اپنی مرضی سے نام تبدیل کیے اور ان ہی لوگوں کو اہمیت دی جو اس وقت مسلم لیگ کے رہنما تھے۔‘‘

ایسا ہی چناب نگر کا نام قانون کا سہارا لیتے ہوئے اس کے باسیوں پر تھوپ دیا گیا۔
ہم نے اپنی عمر کا نصف حصہ اس شہر ربوہ عرف چناب نگر میں گزارا ہے۔ کچھ تعلیمی اور کچھ عملی میدان میں۔ اسی شہر میں پیدا تو ہوا لیکن پھر کراچی میں رہا۔ ہر سال چھٹیاں گزارنے ربوہ میں آتے رہے۔ ہم سمیت دیگر احمدیوں کی زندگی کا یہ عنصر لاجواب ہے کہ ہم دوران سفر اپنے اس ہر دلعزیز شہر کے نام پر تقیہ کرتے رہے۔ تقیہ کے لفظ کا استعمال بر محل صرف اس لئے ہے کہ اہل تشیع کے نزدیک تقیہ کا عقیدہ اپنی جان کی سکیورٹی کا ضامن ہے۔
بچپن میں والدہ کے ساتھ ٹرین میں سفر کرتے تو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین ہوتی کہ ربوہ کا نام نہیں لینا۔ ہم ٹرین کے آخری سٹاپ کا نام لیتے یا کہتے کہ یہ ٹرین سرگودھا ہی تو جا رہی ہے یا کبھی کہتے چنیوٹ کے ساتھ ہی جانا ہے۔ یہ جھوٹ تو بالکل نہیں تھا۔ شاید شعری ذوق رکھنے والے اس تمثیل کو سمجھ سکتے ہیں کہ محبوب کے گھر کے بجائے اس کے کوچہ کا ذکر کیا جاتا ہے۔

چناب نگر کے ریلوے اسٹیشن کی ایک پرانی تصویر جب اس کا نام ربوہ تھا!

اس وقت لاشعوری طور پر ہمارے ذہنوں میں پاکستان کے اندر رہتے ہوئے ایک ڈر ایک خوف تھا۔ کیونکہ ہم چھوٹے تھے اور ہم نے 1953ء اور 1974ء کے وہ پُر آشوب حالات نہیں دیکھے تھے جہاں ہمارے ساتھ وہ تاریخ دہرائی گئی تھی جو اس سے قبل ہندوستان سے پاکستان ہجرت کے وقت بیتی تھی۔
پھر حکومت یا محکمہ ریلوے نے کسی انجانے دباؤ میں آکر ہمارے لئے یہ مشکل اس لحاظ سے بھی آسان کردی کہ ربوہ میں ٹرین کا سٹاپ بند کر دیا اور اس سبب چنیوٹ ہی اترنا پڑتا یا وہیں سے واپسی کی ٹرین لینی پڑتی۔ اس کے بعد ایک اور آسانی یہ ہوئی کہ چنیوٹ ضلع بن گیا تو دونوں لحاظ سے ہم بھی چنیوٹی بن گئے اور ہمارا تقیہ اختتام پذیر ہوا۔ یہ بات کوئی دھوکہ نہیں بلکہ بعینہ یہی ہوا تھا۔ ربوہ کی اتنی سواریاں ہوتیں تھیں کہ قانوناً  ربوہ کے سٹیشن پر ٹرین کا سٹاپ کیا جانا چاہیے تھا لیکن اس انجانے دباؤ پر ہمیں پچھلے سٹیشن پر اتارنا عین عبادت خیال کیا جاتا رہا۔

ریلوے سٹیشن چناب نگر کی موجودہ عمارت کی تازہ تصویر

دوران تعلیم ٹرین کے سفر میں بعض لوگ ہمارے حلیہ و اخلاق سے ہمارے مسکن کا معلوم کر لیتے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ ایک صاحب نے مجھے یہ کہا کہ آپ اور آپ کے دوست قادیانی معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن آج پہلی دفعہ مجھے اپنے اہل خانہ کے ساتھ سفر میں دقت نہیں ہوئی۔ ورنہ ہر دفعہ اوباش ہی ہم سفر رہے۔

گزشتہ دنوں چند ایک ویڈیوز دیکھیں جو احمدیوں المعروف قادیانیوں کی طنزاً تعریف کرتے ہوئے اپنے نفوس کو بیدار کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ بعض لوگ احمدیوں کے اخلاق کی تعریف کرنا بھی چاہتے ہیں لیکن ان کے لئے اسی غیر شعوری دباؤ کے سبب ممکن نہیں ہوتا اور ان کا چپ سادھ لینا یا ان کے اقرار کا عندیہ دیتا ہے یا ان کا یہ شش و پنج مخاطِب کو اپنا مطلب اخذ کرنے کا اشارہ دے جاتا ہے۔

گزشتہ دنوں رابی پیر زادہ کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ ایک احمدی خاتون کے اعلیٰ اخلاق کی تعریف کرنے کے بعد اپنے ہم عقیدہ اور ہم مسلک لوگوں کو یہ بات سمجھا رہی تھیں کہ قادیانیوں کے اخلاق دیکھیں اور ہم مسلمان کیا کر رہے ہیں۔

بات ٹرین کے سفر کی ہورہی تھی تو ایک بار کراچی سے ہمارے ساتھ ایک باپ بیٹا عازم سفر تھے وہ شاید آرٹیفیشل جیولری کا کاروبار کرتے تھے جب ٹرین چنیوٹ سے آگے چلی تو بزرگ نے کہا کہ آپ قادیانی ہیں؟ مثبت جواب سننے پر انہوں نے اپنے بیٹے کو بتایا کہ اس شہر میں ایک عرصہ پہلے تک میں سامان بلٹی کر کے بھجواتا رہا ہوں یہاں کے تاجر بہت ایماندار  اور لین دین میں بہت اچھے ہیں۔ گویا ایک بزرگ تاجر اپنے بیٹے کو زندگی کا سبق پڑھاتے ہوئے اپنے مخلص گاہگوں کی فہرست میں اس شہر کو بھی شامل کر نے کا درس دے رہا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہاں ایک اور واقعہ کا ذکر کرتا چلوں۔ پاکستان کے سابق وزیر داخلہ میجر جنرل (ر) نصیر اللہ بابر کا انٹرویو روزنامہ خبریں  لاہور (مورخہ 5 ستمبر 1997ء۔ اشاعت خاص صفحہ اوّل) میں شائع ہوا۔ اس میں وہ بیان کرتے ہیں:
’’ ایک بارمولانا چنیوٹی ایک میٹنگ میں آیا۔ بات سے بات شروع ہو گئی۔ مولانا نے مجھ سے پوچھا کہ ’’آپ کے بارے میں سنا ہے کہ آپ باقاعدگی سے نماز پڑھتے ہیں میں نے جواب دیا کہ ’’ہاں‘‘ پھر کہنے لگے کہ آپ تلاوت کرتے ہیں میں نے کہا ہاں ۔ مولانا چنیوٹی نے کہا پھر شاید آپ قادیانی ہیں۔
میں نے مولانا سے پوچھا مولانا آپ امامت کراتے ہیں۔ مولانا نے کہا ہاں۔ میں نے پوچھا آپ تہجد پڑھتے ہیں مولانا نے کہا ہاں۔ میں نے کہا تو پھر آپ کو قادیانی ہونے کا زیادہ حق پہنچتا ہے۔‘‘
تو جناب نام میں کیا رکھا ہے؟ قادیانی عملی کردار ہی دیکھنے والے کو یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ وہ خود کتنے پانی میں ہے۔ خیر بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ بہر حال احباب اختیار کو جیسا کہ ان کو سو فیصدی علم ہے لیکن پھر بھی بتا دیں کہ یہاں کے باسی یہ اقرار کرتے ہیں کہ اہالیانِ چناب نگر پاکستان کے محب وطن شہری ہیں!

Facebook Comments

ذیشان محمود
طالب علم اور ایک عام قاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”ربوہ یا چناب نگر۔۔ذیشان محمود

  1. محض ایک چیز کی طرف اشارہ کرانا مقصود ہے کہ ہمارے والد صاحب خود احمدی ہوئے مگر انہوں نے ہمیں ربوہ جاتے ہوئے کبھی کسی تقیہ نما عقیدہ کی تعلیم نہیں دی اور شائد مضمون نگار یہی کہیں گے کہ ہم کو صحیح تعلیم کا علم نہیں !!!!! جب تک بیک فٹ پر رہو گے تو بیک فٹ ہی مقدر بن جائے گا!!!حوصلہ کرو آگے بڑھو۔

  2. جی محترم! محاورۃ درج کیا ہے۔ اور اس کے آگے درج ہے کہ”تقیہ کے لفظ کا استعمال بر محل صرف اس لئے ہے کہ” جہاں وضاحت ہے۔۔۔

Leave a Reply