بہتر تعلیم یا محض گدھے پر کتابیں لادنا؟۔۔نازیہ علی

رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا “ترجمہ” اے رب ! میرے علم میں اضافہ فرما۔ یہ وہ الفاظ ہیں جن کا آغاز میری زندگی میں میرے بچپن سے ہوا ،اور میں نے یہ ہمیشہ اپنے ہر امتحانی بورڈ پر لکھا بھی اور پڑھا بھی، کیونکہ مجھے علم سے مزیّن  کرنے کا خواب دیکھنے والی میری مرحومہ ماں نے مجھے یہ روز پڑھنا اور لکھنا سکھایا ،اور پھر جب تعلیمی  ادوار  کے ابتدائی مراحل پر کامیابی ملنا شروع ہوئی تو میں نے اپنے مرحوم والد کو میری کامیابی  پر   میری تعلیمی اسناد کو چوم چوم کر روتے ہوئے پایا ،وہ خوشی کے آنسو اور وہ علم کی طلب ،جس نے مجھے علم سے محبت سکھا کر تعلیم کو زیور بنانے کا تجسسٙ بڑھایا۔

اس طویل تمہید کے  باندھنے کا مقصد والدین کی آغوش سے تعلیم و تربیت کی ابتداء ہونے کے مقاصد بیان کرنا ہے۔ تعلیم دینی ہو یا دنیاوی ،ہر بچے کا بنیادی حق ہے ۔تعلیم اچھی سیرت سازی اور تربیت کا ایک ذریعہ ہے ۔علم ایک روشن چراغ کی مانند ہے ایک ایسا چراغ جو انسان کو عمل کی منزل تک پہنچاتا ہے۔ہر عمل کے تین حصے ہوتے ہیں۔ نیت, طریقہ کار اور نتیجہ۔نیت پر انسان کا مکمل اختیار ہوتا ہے، طریقہ کار پر جزوی اختیار اور نتیجے پر انسان کو کوئی اختیار نہیں ہوتا۔اچھے نتائج کے لیے نیک نیت اور طریقہ کار درست ہونا چاہیے۔ اگر بہترین طریقہ کار اختیار کرنا ہو تو مکمل توجہ صرف مطلوبہ نتیجے کے حصول پر رکھیں اور اس بات سے بالکل بے نیاز ہو جائیں کہ لوگ آپ کی نیت پر کیا قیاس کرتے ہیں۔نیک نیت اپنی نیک نیتی ثابت کرنا یا بدنیت اپنی بدنیتی چھپانا اپنے مقصد میں شامل کر لیں تو طریقہ کار بہتر تو شاید ہو جائے مگر بہترین کبھی نہیں ہو سکتا۔اپنی نیت کو خود تک محدود رکھیں، نظر صرف نتیجے پر رکھیں۔بہترین طریقہ کار اختیار کریں اور نتائج قدرت پر چھوڑ دیں۔ آپ ہمیشہ پُرسکون رہیں گے مگر یہ اتنی بڑی بڑی باتیں وہ ننھے دماغ کیا سمجھیں گے جو تعلیم و تربیت کیلئے ماں کی آغوش،باپ کی شفقت اور استاد کے درس کے محتاج ہوتے ہیں۔

اُستاد اورشاگرد تعلیمی نظام کے دو نہایت اہم عنصر ہیں۔ معلّم کی ذمہ داری صرف سکھانا ہی نہیں، سکھانے کے ساتھ ساتھ تربیت دینا بھی ہے۔ تربیت سے محض انسان کے ظاہری اعمال کی اصلاح ہی مراد نہیں بلکہ باطنی اعمال کی اصلاح بھی تربیت کے دائرہ کار میں داخل ہے۔تعلیم کی اہمیت و افادیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ آج     تعلیم اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ زندہ رہنے کیلئے سانس کی آمدورفت ضروری ہے۔ ایک بچے کیلئے ماں کی گود اسکی سب سے پہلی درس گاہ ہوتی ہے۔ ایک نومولود جب اس دنیا میں آتا ہے تو وہ بالکل معصوم اور فرشتے کی طرح ہر گناہ سے پاک ہوتا ہے۔ تمام دنیاوی امور اور مسائل سے آزاد ہوتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے وہ اپنی زندگی کے ابتدائی مراحل کو طے کرتے ہوئے اپنی طفلانہ زندگی کا آغاز کرتا ہے ہر شے لاشعوری طور پر اس کے سامنے آتی ہے۔بچہ جس گھر میں پیدا ہوتا ہے اپنے اس ماحول کے تمام طور طریقوں سے مطابقت کرنا سیکھتا ہے یا پھر والدین اسے سکھاتے ہیں۔ اس میں مرکزی کردار ماں کا ہوتا ہے۔ہر قوم اپنے تعلیمی فلسفے کے ذریعے ہی اپنے نصب العین ،مقاصد،حیات،تہذیب و تمدن اور اخلاق و معاشرت کا اظہار کرتی ہے مگر میرے خیال سے تعلیم کے معاملے میں ہم دورِ  زوال میں زندگی گزار رہے ہیں۔

دور زوال کی بنیادی علامت یہ ہے کہ اس میں ہر ایک چیز اپنے مقصد اور حیثیت سے ناواقف ہوجاتی ہے اور وہ ایک رسم اختیار کرلیتی ہے جیسا  کہ ہمارے معاشرے میں اکثر ہو رہا ہے، مگر خاص کر یہ ظلم تعلیمی میدان میں ہوا ہے۔اپنےارد گرد نظر دوڑائیں تو تعلیم نے ایک کاروبار کی حیثیت اختیار کر لی ہے اور خصوصاً  نجی تعلیمی اداروں کا تو مکمل منشور ہی مختلف نظر آتا ہے۔بھاری داخلہ فیس اور ماہانہ فیسوں کے باوجود ایک عمدہ تربیت یا سیکھنے کے عمل کے بجائے دوران امتحان بھی طالبات سے کسی نہ کسی شکل میں یا کسی اور طریقے سے پیسے نکلوا ہی لیتے ہیں اور تو اور نت نئے طریقے اپنائے جاتے ہیں نمبروں اور گریڈز کی دوڑ میں طالبعلم جس چیز سے دور ہوتے جارہے ہیں وہ ہے تعلیم کا اصل  مقصد۔

کتابیں رٹنے سے بچے امتحان میں کامیاب تو ہو جاتے ہیں لیکن اخلاقی طور پر وہ نابالغ ہی رہتے ہیں کیونکہ وہ صرف تعلیم کی حد تک کامیابی حاصل کر پاتے ہیں اور تربیت کے لحاظ سے ناکام دکھائی دیتے ہیں۔تعلیمی اداروں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ طلباء کی تربیت اور ذہنی شعور اجاگر کرنے کیلئے مستقل بنیادوں پر مختلف اصلاحی پروگرامز ترتیب دینے کی ضرورت ہے جو کہ چند ہی اداروں میں نظر آتے ہیں مگر زیادہ تر اداروں میں ایسا کچھ نظر نہیں آتا بلکہ سب سے بڑھ کر یہ کہ کوشش ہونی چاہیے کہ بچوں کے تعلیمی آغاز کو آسان بنائیں تاکہ بچہ تعلیم کو بوجھ نہ سمجھے ۔معصوم اور کم عمر بچوں کے بستوں کا وزن کم کریں۔۔تحقیق کے مطابق بچوں کی نشو ونما پر اسکے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔جبکہ اگر معاشرے کی بگڑتی صورتحال کا جائزہ لیں تو بھاری بستے بھی ایک چلتا پھرتا بزنس اور کمائی کا ذریعہ ہیں ، دوسری طرف اس وزن سے معصوم بچوں کی کمر توڑی جاتی ہے۔۔اگر تعلیم کو مقصد  بنا کر اس کا حصول آسان کر دیا جائے تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے ملک کا ہر بچہ  سکول جانے لگے گا۔۔

مگر بے حد افسوس کے ساتھ کہنا پڑ تا ہے کہ تعلیم کا بگڑتا معیار اور صورتحال اتنی خطرناک ہے کہ آغاز بھاری بستوں سے ہوتا ہے اور اختتام جعلی ڈگریوں پر یا پھر ایسا بھی دیکھنے کو اکثر ملتا ہے کہ پڑھے لکھے جاہل ، مطلب یہ کہ جاہل صرف وہ نہیں ہوتا جو  غیر تعلیم یافتہ ہو بلکہ جاہل وہ بھی ہوتا ہے جس نے ڈگریوں کے ڈھیر لگا رکھے ہوں مگر وہ اپنے ظرف اور تہذیب سے عاری ہو۔جس طرح گدھے پر کتابیں لادنے سے وہ عالم نہیں بن جاتا بالکل ویسے ہی بھاری بستوں،جعلی ڈگریوں یا رٹا لگا کر محض پاس ہو جانے سے پاکستان کا مستقبل تعلیم یافتہ نہیں ہو سکتا۔اس کے لئے حکومت کو بہتر تعلیم اور حصول ِ علم کیلئے موثر اقدامات کرنے ہوں گے اور تعلیم کو ہر طبقے تک پہنچانے کے ذرائع ڈھونڈنے ہوں گے۔اساتذہ کے ساتھ والدین بھی فیصلہ کریں اور جواب دیں کہ بہتر تعلیم یا محض گدھے پر کتابیں لادنا ؟ ۔۔سوال میرا ،جواب آ پکا۔

Advertisements
julia rana solicitors

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply