اب آپ چوہدری نہیں رہے ۔ ابوعلیحہ

بروز پیر تین اکتوبر کو آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ہونے والی باتیں ن لیگی ذرائع سے میڈیا کے سامنے لائی جارہی ہیں۔ سب سے پہلے معروف تحقیقاتی صحافی اعزاز سید نے دی نیوز میں لکھا کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے اجلاس میں آرمی چیف راحیل شریف کو مخاطب کرتے ہوئے سوال داغا کہ کراچی میں یہ تاثر عام ہے کہ پاک سرزمین کو آرمی ،رینجرز اور اعلیٰ عسکری حلقے سپورٹ کررہے ہیں۔ یہ کہا جارہا ہے کہ جو بھی اس جماعت مین آئے گا ، خواہ کتنا بڑا ہی مجرم کیوں نہ ہو ، کلین ہوجائے گا کیونکہ ہماری سرپرستی پاک فوج کررہی ہے۔

راحیل شریف نے اس سے انکار کیا اور واضح الفاظ میں جواب دیا کہ ہم کسی بھی سیاسی جماعت کی حمایت نہیں کررہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو ہم اس حوالے سے باضابطہ بیان بھی جاری کردینگے۔

آج ڈان نیوز نے انکشاف کیا ہے کہ اسی میٹنگ میں ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر کی وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے جھڑپ بھی ہوئی۔ جب سیکریٹری خارجہ کی بریفنگ کے رد عمل میں ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر نے استفسار کیا کہ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا ہونے سے بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے جاسکتے ہیں؟ اس پر اعزاز چوہدری نے جواب دیا کہ عالمی برادری کا سب سے اہم مطالبہ یہ ہے کہ جیش محمد، مسعود اظہر، حافظ سعید ،لشکر طیبہ اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کی جائے۔

ڈی جی آئی ایس آئی نے جواب دیا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ جسے ضروری سمجھتی ہے گرفتار کرے تاہم یہ واضح نہیں کہ انہوں نے یہ بات مذکورہ افراد اور تنظیموں کے حوالے سے کہی یا پھر عمومی طور پر کالعدم تنظیموں کے ارکان کے حوالے سے کہی۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے غیر متوقع طور پر مداخلت کی گئی اور انہوں نے رضوان اختر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی سول حکام ان گروپس کے خلاف کارروائی کرتے ہیں سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ انہیں رہا کرانے کے لیے پس پردہ کوششیں شروع کردیتی ہے۔

شہباز شریف کا یہ موقف سن کر شرکا ششدر رہ گئے تاہم کشیدگی کو کم کرنے کے لیے خود وزیر اعظم نواز شریف نے رضوان اختر کو مخاطب کیا اور کہا کہ ماضی میں جو کچھ ہوتا رہا وہ ریاستی پالیسیاں تھیں اور ڈی جی آئی ایس آئی کو موجودہ صورت حال کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جارہا۔

ڈان نیوز کے مطابق وزیر اعظم نے ڈی جی آئی ایس آئی کو ہدایات جاری کی کہ وہ چاروں صوبوں کا ہنگامی دورہ کرکے اپنے افسران تک یہ پیغام پہنچائیں کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف کاروائی کی صورت میں وہ لوگ مداخلت نہ کریں۔ جس پر ڈی جی آئی ایس آئی نے اس پر عملدر آمد کی یقین دہانی کروائی۔

 ایک عہدے دار نے ڈی جی آئی ایس آئی کے عزم پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اپنی ساری زندگی یہ سننے کی دعا کرتے رہے ہیں اب دیکھنا ہے کہ واقعی ایسا ہوتا بھی ہے یا نہیں‘۔ ایک اور سرکاری عہدے دار نے کہا کہ ’اقدامات کیے جارہے ہیں یا نہیں یہ دیکھنے کے لیے نومبر تک انتظار کرنا ہوگا کیوں کہ نومبر تک کئی معاملات طے ہوجائیں گے‘۔

ن لیگی ذرائع یہ بھی کہتے ہیں کہ نواز شریف نے راحیل شریف سے ہونے والی ون آن وں ملاقات میں ان پر واضح کردیا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کی موجودہ اچھل کود کے پیچھے اسٹیبلیشمنٹ کی ہلا شیری ہے۔ نواز شریف نے واضح کیا کہ اگر تو عمران خان اپنے کارکنان کے ساتھ موسیقی پر اپنا روایتی رقص پیش کرنے اسلام آباد آرہے ہیں تو انہیں اپنا شوق پورا کرنے کی اجازت دی جائے گی اور اگر ان کا مقصد توڑپھوڑ اور ہنگامہ آرائی کرنا ہے تو پھراس دن دارالحکومت کی سیکیورٹی کا کنٹرول رینجرز اور فوج کو سونپ دیا جائے گا تاکہ جنہوں نے عمران خان کو انگلی دکھائی ہے وہی اب اسے اپنے بازو سے روکنےکا فریضہ بھی سر انجام دیں۔

ایسے وقت میں جب مخصوص میڈیا ہاوسز سے توسیع کے حق میں باقاعدہ مہم چلوائی جارہی ہے ، ایسے میں ملک بھر کے سیاستدانوں سے بھرے اجلاس میں سندھ کے وزیر اعلیٰ کا آرمی چیف سے سوال پوچھنا اوروزیر اعلیٰ پنجاب کا ڈی جی آئی ایس آئی کو آئینہ دکھانا اتفاقیہ نہیں سمجھا جاسکتا۔ اس کے پیچھے بلاشبہ آصف زرداری اور نواز شریف کی پلاننگ کارفرما ہے۔ پچھلے ایک ماہ سے جمیعت علمائے اسلام ، اے این پی اور پختونخواہ ملی پارٹی کے رہنماوں کے سخت بیانات کا جائزہ لیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ سیاستدانوں نے اب عسکری اسٹبلشمنٹ کی جڑوں کو کمزورکرکے عدلیہ اور بیوروکریسی ساتھ مل کر سویلین اسٹبلشمنٹ کو مضبوط بنانے پر کام شروع کردیا ہے۔

شرجیل میمن کا واپسی کا اعلان بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے کہ اگردباو پر گرفتار کیا گیا تو شرجیل میمن کے گھر سے لئے گئے دو ارب روپوں کی بابت رینجرز افسران کو بھی حساب دینا ہوگا۔

موجودہ صورتحال عسکری حلقوں ،ان کے زیر نگین میڈیا ہاوسز اور آئی ایس پی آر کے زیر اثر صحافی حضرات کے لئے انتہائی پریشان کن ہے۔ ان سب نے جن چوہدری صاحب کے بھروسے تحریک انصاف جیسے لنگڑے گھوڑے پر اپنی مشکیں کس رکھی تھیں اب انہیں احساس ہورہا ہے کہ چوہدری صاحب تو خود اپنی چوہدراہٹ سے محروم ہونے والے ہیں۔

آنے والے دوماہ میں سپہ سالار کی توسیع کے حق میں دلائل، لابنگ اور عملی اقدامات میں مزید تیزی آتی جائے گی لیکن قرائن بتارہے ہیں کہ نواز شریف توسیع دینےکے ہرگز موڈ میں نہیں ہیں اور اس معاملے میں تحریک انصاف کو چھوڑ کر ساری سیاسی جماعتیں اور عالمی ٹھیکہ داران ان کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ تحریک انصاف کے ایک سینئر عہدیدار کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ آرمی چیف تبدیل ہوجاتے ہیں اور نئے آنے والا چیف ، ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر کے عہدوں پر اپنے افسران تعینات کرکے حکومت حمایت سٹریٹجی اپناتا ہے تو اگلے الیکشن میں تحریک انصاف کے چئیرمین غصہ میں عسکری حلقوں کے خلاف انتہائی سخت لب و لہجہ بھی اختیار کرسکتے ہیں۔

علی سجاد شاہ معروف صحافی اور سکرپٹ رائیٹر ہیں۔ آپ کے تین ڈرامے اور ایک فلم جلد منظرعام پہ آنے والی ہے۔ اپنی بیباکی کیلیے مشہور علی، ابو علیحہ کا قلمی نام استعمال کرتے ہیں۔ 

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ: مکالمہ کا مضمون نگار کے خیالات سے اتفاق ضروری نہیں۔ اگر کوئی فرد یا ادارہ جواب دینا چاہے تو مکالمہ کے صفحات حاضر ہیں۔ 

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”اب آپ چوہدری نہیں رہے ۔ ابوعلیحہ

  1. بہت خوب سجاد صاحب، ویسے تو فوجی کرتوتوں کی داستان خاصی ہوشربا ہے، آپ نے بین السطور بہت کچھ کہہ دیا ہے.. کچھ محب وطن احمقوں کا ہمیشہ سے ہی یہ رونا ہے کہ فوج سرحدوں کی محافظ.ہے یہ اک تاریخی مغالطہ ہے جسے درستگی کی اشد ضرورت ہے اصلاح احوال اس صورت ممکن ہو گا جب حمودالرحمن کمیشن ودیگر حقائق کو عام کیا جائے..

  2. If any fool think that without getting real respect and moral support of masses (the less privileged of all provinces) , our political elite can pressurize uniform elite , is possible then he/she should be in day dream feeling.

    Pesh Kar Gafil Agar Koi Amal Daftar Mei Hey…!

Leave a Reply