مرد بحران سراج الحق۔۔حسان عالمگیر عباسی

ایک شخص نے کہا کہ وہ معاشرے کا سب سے بہترین آدمی بننا چاہتا ہے۔ رسول ﷺ نے دوسروں کے لیے مفید ثابت ہونے کو بہترین شخصیت سے منسوب کر دیا ،یعنی بہترین وہ ہے جو دوسروں کے ساتھ بہترین ہے۔ سینیٹر سراج الحق صاحب نے یقیناً یہ حدیث شریف پڑھی ہو گی کیونکہ خدمت کے جذبے سے سرشار رہنے والوں کی اکثریت میں سے  ایک وہ بھی ہیں جو بلا امتیاز مذہب ،رنگ و نسل انسانوں پر وارے جارہے ہیں۔ سراج الحق صاحب ایک نئے رنگ ،ولولے ،جذبے اور سوچ کے ساتھ نمودار ہوئے ہیں یا عوام ہی کو ان کا اصل رنگ دیکھنے میں دیر ہو گئی۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ایک بڑا طبقہ انتہائی متاثر ہوا ،وہ طبقہ جو معمول کے مطابق صبح سے شام محنت و مشقت کرتا اور بچوں کے پیٹ پالتا ہے۔ بدقسمتی سے یہی طبقہ ‘طبقاتی تقسیم’ میں سب سے بڑا ہے ،لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہوٹلز ،ہاسٹلز ،سبزی کی دکانیں ،ریڑھیاں ،چائے خانے اور ہر وہ ذریعہ معاش مقفل ہو گیا جس کا تعلق غریب کے بطن کی آگ پر پانی ڈالنے یا اس کی تپش کو پنکھی سے کم کرنے سے ہے۔ امیر نے اپنی حسبِ معمول عادت کے مطابق صرف اپنے بچوں اور گھر کا سوچا ہے۔ بستی آگ میں جلتی رہی اور امیر پانی ڈالنے تک نہ آیا۔ یہی وہ صورتحال تھی جس نے سراج الحق صاحب کو فرشتے کی صورت میں ،بلا امتیاز مذہب و نسل اور رنگ و روپ ،انسانیت کی خدمت کے لیے بھیجا۔

سراج الحق صاحب وہ مرد بحران ہیں جنہوں نے الخدمت فاؤنڈیشن اور رضاکاروں کو بحران سے نمٹنے کے لیے میدان عمل میں کودنے کا حکم دیا۔ اس جماعت کی سو کمزوریوں کے باوجود یہ خوبی زیادہ وزنی ہے کہ یہ امیر کی اطاعت اور تنظیم میں لا ثانی ہے۔ امیر جماعت اسلامی خود بھی اُس طبقے کے نمائندے ہیں جو غربت کی چکی میں پستا ہے ،اگر یہ جماعت کسی بڑے خاندان ،جاگیر دار یا سرمایہ دار کو امارت سونپتی تو یقیناً آج اتنے بڑے پیمانے پہ نظر آنے والا کام اور خدمت بہت کم نظر آتی۔ سراج الحق کی سوچ کے زاویے پر نگاہ ڈالیں تو باآسانی پتہ چل سکتا ہے کہ وہ عوام کی سوچ سے کس حد تک واقف ہیں۔

سراج الحق صاحب نے حکم نامہ جاری کیا کہ مستحق اور سفید پوش لوگوں کے گھر فوڈ پیکجز پہنچائے جائیں تو تمام رضاکاروں نے من و عن تسلیم کیا اور اس کام کے لیے جت گئے۔ پیسے جمع کیے ،ایک ایک کے سامنے ہاتھ پھیلائے اور ان پیسوں کو امیر کے حوالے کیا۔ یہ کام بڑے بڑے شہروں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ پاکستان کے چھوٹے چھوٹے گاؤں اور قصبوں تک یہ خدمت کا عمل جاری ہے۔ سامان کی پیکنگ سے لے کر اس کی گھر گھر ترسیل تک رضاکاروں نے تمام معاملات خود سمیٹے۔

خواجہ سراؤں کے متعلق سراج الحق صاحب سے پوچھا گیا تو کہنے لگے کہ ان کا بڑھ چڑھ کر خیال رکھا جائے کیونکہ وہ تو بہت پہلے ہی سے ‘آئیسولیش’ (Isolation) کا شکار ہیں۔ پھر عوام نے دیکھا کہ الخدمت کے رضاکار ان تک پہنچے اور راشن مہیا کیا۔ یہ کمیونٹی اتنی متاثر ہوئی کہ انہوں نے بھی اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر خدمت کے لیے پیش کر دیا۔

جہاں ملک میں فرقہ واریت ہے ،وہیں الخدمت کے رضاکاروں نے بلا تقسیم و تخصیص بریلوی ،دیوبندی ،اہل حدیث مساجد میں  سپرے کیا۔ امام بارگاہوں میں خدمات پیش کیں۔ تبلیغی مرکز میں سپرے کیا۔ تمام شہریوں کو سینیٹائزر اور ماسک  تقسیم کیے۔

بھارت کی کشمیریوں پر ظلم و بربریت کی داستانیں سننے کے بعد ایسا نہ ہوا کہ سراج الحق صاحب نے اپنے رضاکاروں کے ہمراہ ہندوؤں پر چڑھائی کر ڈالی بلکہ حکم دیا کہ اقلیتوں کی بھوک کا بھی سامان کیا جائے لہذا کل بجٹ کا بیس فیصد ان کے لیے مختص کیا گیا اور راشن پہنچائے گئے۔ جب سراج الحق صاحب کو پتہ چلا کہ بھارت میں مسلمانوں کی عبادت گاہ پر انتہا پسندوں نے چڑھائی کر ڈالی تو سراج الحق صاحب بھی پیچھے نہ رہے اور اپنے رضاکاروں کے ہمراہ مندروں تک پہنچ گئے۔ وہاں پہنچے تو دیکھا عبادت ہو رہی ہے اور اسی خدا کے آگے ہاتھ پھیلائے جارہے ہیں  جس خدا کے آگے مسلمانوں کی جھولیاں پھیلتی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ بت ان کے وسیلوں میں سے ایک وسیلہ ہے۔ جیسے پاکستان میں بڑے پیمانے پر وسیلے پر لوگوں کا یقین ہے۔ اقلیتوں کے حقوق اسلام میں سب سے زیادہ ہیں۔ لہذا بابری مسجد کا بدلہ کچھ ایسے لیا کہ ننگے پیر ،عزت افزائی کرتے جراثیم کش  سپرے کیا۔ مندروں کو جراثیم سے پاک کیا تاکہ ہندوؤں کو عبادت میں خوف و خلل نہ ہو۔

سراج الحق صاحب آگے بڑھے تو دیکھتے ہیں کہ چرچ  والے بھی پریشان حال ہیں اور گوردوارے والے بھی الم میں مبتلا ہیں۔ سب کی پریشانیوں کو دور کیا اور سب کو راشن دیے۔ یہی نہیں بلکہ ان کی بھی عبادت گاہوں میں جراثیم کش  سپرے کیے۔ سراج الحق صاحب نے رضاکاروں کو حکم دیا کہ مساجد ،مندروں ،کلیساؤں ،گوردواروں اور تبلیغی مراکز میں بلا امتیاز مسلک ،مذہب ،رنگ و فکر کے سب کی عبادت گاہوں کا خیال رکھا جائے ،لہذا عوام نے دیکھا کہ بین المسلمین والمذاہب ہم آہنگی کا بہترین نمونہ کیا ہوتا ہے۔

سراج الحق صاحب کو خیال آیا کہ عمر فاروق رض تو فرات کے کنارے بکری یا کتے کے مرنے پر بھی خدا کو جوابدہ تھے اور وہ فاحشہ عورت بھی صرف اس لیے بخش دی گئی کیونکہ اس نے کنویں کا چکر کاٹتے پیاسے کتے کو اپنے موزے کی مدد سے پانی پلایا تھا۔ لہذا حکم دیا کہ ان جانوروں کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے جو ہوٹلوں ،ریستورانز ،ہاسٹلز اور دکانوں کی بندش کے بعد بھوکوں اور فاقوں مرنے لگے تھے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ لاہور میں کتوں ،بکریوں ،پرندوں اور دیگر تمام جانوروں کے لیے ‘اینیمل سپاٹ’ (Animals spot) بنائے گئے اور ان کی بھوک و پیاس کا بندوست کیا گیا۔ لاہور میں بڑے پیمانے پر راشن کی تقسیم کے ساتھ ساتھ پکے پکائے کھانوں کی ترسیل اور کچی سبزیوں کی فراہمی کو ممکن بنایا۔ بڑے پیمانے پر دیگیں چڑھائی گئیں اور غریبوں کی مدد کی گئی۔ اسی طرح گلیات میں ہم دیکھتے ہیں کہ بندروں اور جنگلی جانوروں کو بھی خوراک دی گئی کیونکہ ان کی خوراک آنے والے سیاحوں سے جڑی تھی جن کی آمد کا سلسلہ بند تھا۔ پورے ملک میں ایسی مثالیں دیکھنے کو مل رہی ہیں جو رفتہ رفتہ ہم تک پہنچ رہی ہیں۔

سراج الحق صاحب اور الخدمت فاؤنڈیشن وہی ہے جس نے سندھ حکومت کے ساتھ تعاون کیا۔ کے پی کے حکومت کو خدمات فراہم کیں اور وفاق بھی پیچھے نہ رہا۔ یہ وہی الخدمت ہے جس نے اپنے تمام ہسپتالوں کو حکومت کے حوالے کیا اور ان کی تمام ایمبولینسز اور رضاکار حکومتی تحویل میں ہیں۔ یہ وہی فاؤنڈیشن ہے جو یتیموں کی کفالت کرتی ہے اور سیلاب ،زلزلہ زدگان کی ممد و معاون ہے۔ اس کشمکش میں جو نیا دیکھنے کو ملا ،وہ سراج الحق کا نیا انداز تھا ،یعنی بلا کسی فرق اور امتیاز کے صرف انسانوں کی خدمت۔۔ یہی اسلام ہے اور یہی جماعت اسلامی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سوچیں! اگر یہ ایوانوں تک آ گئے تو کیسا پاکستان ہو گا!؟۔۔ایسا پاکستان جہاں لبرلز بھی خوش ہوں گے ،غریب بھی خوشحال نظر آئیں گے ،سکھ ،عیسائی ،ہندو ،مسلمان اور تمام مذاہب بھی  راضی رہیں گے۔ ایسا پاکستان ہو گا جہاں برائی کرنا مشکل اور اچھائی کرنا انتہائی آسان ہوگا۔ جب غریب کا چولہا جلے گا تو ہاتھ کاٹنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ جب عدل ہو گا تو بھوک مٹے گی ،شادیاں آسان ہوں گی اور غیر قانونی جسم فروشی خود ہی ختم ہو جائے گی۔ بلا امتیاز صرف انسان کی جان و مال کی حفاظت ہوگی کیونکہ قرآن مجید میں ہے کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے پوری انسانیت کو جلا بخشی۔ جہاں تک زور زبردستی کا تعلق ہے ،مولانا مودودی رح سے پوچھا گیا کہ جب جماعت اسلامی کی حکومت آئے گی تو زبردستی پردے کروائے جائیں گے؟ مولانا نے جواب دیا کہ کیا یہ جو پردے اترے ہیں یہ زبردستی اتارے گئے ہیں؟ ظاہر ہے رفتہ رفتہ ایسا ممکن ہوا ،کچھ میڈیا نے کردار نبھایا اور کچھ ایمانی کمزوری کا نتیجہ ہے۔ مولانا نے کہا کہ اگر بے پردگی رفتہ رفتہ ہوئی ہے تو رفتہ رفتہ تربیت کے نتیجے میں خود ہی باپردگی بھی ہو جائے گی۔ ایک دفعہ عرض کیا کہ داڑھی میں اسلام نہیں ،اسلام میں داڑھی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply