اولاد فتنہ ہے یا آزمائش؟-طیبہ ضیاء چیمہ

والدین کی قدر نہیں کی جاتی تا وقتکہ جب خود والدین نہ بن جائیں اور اپنی اولاد کے مسائل وامتحانات سے نہ گزریں، پھر انہیں ہر قدم پر اپنے والدین کے اس جملہ کی بازگشت سنائی دیتی ہے ” جب تم باپ بنو گے تو پتہ لگے گا کہ اولاد کس آزمائش کا نام ہے، جب تم ماں بنو گی تب علم ہوگا بیٹی کا نصیب کس چیز کو کہتے ہیں، اور اولاد آگے سے بے نیازی سے کہہ دیتی ہے، ساری دنیا کے ماں باپ اپنی اولاد کے لئے محنت کرتے ہیں۔آپ کون سا احسان کرتے ہیں۔ پھر جب اولاد خود ماں باپ بن جاتی ہے اور یہی جملے ان کو سننے کو ملتے ہیں تو دل پھٹ جاتا ہے۔ ہائے کاش میں نے اپنے والدین کی محنت مشقت تکالیف کا احساس کیا ہوتا۔ اس سے بھی دلچسپ مرحلہ تب آتا ہے جب اولاد اپنی بیماریوں کی فہرست گنواتے ہوئے بتاتی ہے کہ شوگر ماں سے ملی بلڈ پریشر اور معدے کی تیزابیت باپ سے ملی وغیرہ۔ مگر کتنی جائیدادپلاٹ دوکان مکان وغیرہ باپ سے ملے، کتنے زیورات نقدی تحائف ماں دیتی رہی۔یہ سب دوستوں رشتہ داروں سے چھپایا جاتا ہے۔ اور تو اور ازدواجی زندگی اچھی گزرے تو اپنی عقل کو داد دی جاتی ہے بری گزرے تو ذمہ دار والدین کو ٹھہرایا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی مرضی کا رشتہ کیا ہے۔ والدین کی اصل قدر ان کے قبر میں جانے کے بعد ہوتی ہے۔ پھر میاں بیوی میں منہ ماری دیکھنے کے لائق ہوتی ہے۔ پھر بیٹے کو احساس ہوتا ہے کہ اس کی بیوی نے اس کے ماں باپ کی قدر نہیں کی۔

آج اولاد قدر نہیں کرتی، جواب دیتی ہے، نافرمان اور احسان فراموش ہے یا باغی اور لاپرواہ ہے تو والدین کو آئینہ دکھا رہے ہیں۔ پھر دل کو سمجھاتے ہیں، تمہارا زمانہ اچھا تھا۔ تم والدین کے آگے بولتے نہیں تھے، جہاں رشتہ کر دیا شادی کر لی، جو پکایا ماں سے لے کر کھا لیا، باپ سے ڈرتے تھے، آجکل کے بچے بد لحاظ اور بے مروت ہیں۔ نہ ہم سے ڈرتے ہیں نہ فرمانبردار ہیں۔ المختصر ہر زمانے کے والدین کو اپنے والدین کی قدر تب ہوتی ہے جب وہ خود والدین بن کر آزمائشوں سے دوچار ہوتے ہیں یا ان کے والدین قبروں میں چلے جاتے ہیں تو انہیں ان کے جملے اور قربانیاں یاد آتی ہیں۔

اپنی اولاد سب کو پیاری ہوتی ہے۔ اپنا پتر دل کا ٹکڑا ہوتا ہے ساس کا پتر زہر لگتا ہے۔ اپنی بیٹی لخت جگر ہوتی ہے ساس کی بیٹی فساد ہوتی ہے۔ تضادات کا برتاؤ یہیں تک نہیں، اس سے بھی آگے چلتا جاتا ہے۔ اپنی بیٹی پھولوں میں پلی ہے پھول بنا کر رکھا جائے، دوسرے کی بیٹی بہو بنا لی ہے تو اسے کَس کے رکھا جائے۔ مزید دلچسپ صورتحال اس وقت دیکھنے کو ملتی ہے جب اپنا بیٹا بیوی کو کھینچ کر رکھے لیکن بیٹی کا شوہر بیٹی کو رانی بنا کر رکھے۔

اب بیٹی صاحبہ کی تربیت بھی رنگ لاتی ہے۔ وہ بھی اپنی اولاد کو دادی نانی پھو پھی خالہ اور ماموں تایا میں تفریق بتا دیتی ہے کہ نانکہ خاندان چاند ہوتا ہے اور دادکی فیملی سانپ ہوتی ہے۔ ایک ہی انسان کے کتنے روپ کتنے چہرے ہوتے ہیں جبکہ ہر انسان اپنی اولاد کے ہاتھوں بھگت کر مرتا ہے۔ اولاد نیک فرمانبردار ہو تب بھی اس کا نصیب والدین کے ہاتھ میں نہیں۔ اولاد نام ہی آزمائش اور فتنہ کا ہے۔ اور یہ اللہ تعالی کا فرمان ہے اور جو اس فرمان کو جتنی جلدی سمجھ گیا اتنی جلدی سنبھل گیا۔ اولاد کی خاطر وبال نہیں کمائے گا۔ حرام نہیں بنائے گا۔

اولاد کی خاطر بزرگوں اور رشتوں کو نہیں گنوائے گا۔ بلا شبہ اولاد تمام والدین کی کمزوری ہے مگر اس کمزوری کی خاطر اپنی آخرت داؤ پر نہیں لگایئے گا۔ عقلمند انسان اپنے والدین کی زندگیوں سے سبق سیکھے گا کہ انہوں نے اپنی اولاد سے کیا پایا؟ آج ان کی قبروں پر جانے کی فرصت نہیں؟ ان کی میراث سے بھی ان کے لئے ایصال ثواب نہیں کرسکتے؟ اپنی اولاد کے بکھیڑوں میں اپنے والدین کے لئے صدقہ جاریہ کرنے کی توفیق بھی نہیں؟

مال اور اولاد کی محبت ہی عام طور پر انسان کو خیانت پر اور اللہ اور رسول کی اطاعت سے گریز پر مجبور کرتی ہے اس لئے ان کو فتنہ (آزمائش) قرار دیا گیا ہے، یعنی اس کے ذریعے سے انسان کی آزمائش ہوتی ہے کہ ان کی محبت میں امانت اور اطاعت کے تقاضے پورے کرتا ہے یا نہیں؟ اگر پورے کرتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ اس آزمائش میں کامیاب ہے۔ بصورت دیگر ناکام۔ اس صورت میں یہی مال اور اولاد اس کے لئے عذاب الٰہی کا باعث بن جائے گی۔

زندگی اور نسلوں کا سفر دائروں کے گرد گھوم رہا ہے مگر انسان پھر بھی نصیحت نہیں لیتا”۔

اور تم اس بات کو جان رکھو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد ایک امتحان کی چیز ہے (؟) اور اس بات کو جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے پاس بڑا بھاری اجر ہے۔ (سورہ انفال)

Advertisements
julia rana solicitors

مال اور اولاد ایسی چیزیں ہیں جن سے انسان کو فطری لگاؤ اور محبت ہوتی ہے اور انہی کے ذریعہ مسلمان کے ایمان کی آزمائش ہوتی ہے۔ اور یہ آزمائش ایسی پر خطر ہوتی ہے کہ انسان کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ آزمائش میں پڑا ہوا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply