وجودِ زن سے ہے تصویرِکائنات میں رنگ۔۔ابو عبداللہ

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ   وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ،     ذرا غور کریں تو    احساس ہوتا ہے کہ حقیقت  میں وجودِ زن یعنی  عورت  صر ف     جسمانی موجودگی کا نام نہیں بلکہ یہ   فطری طور پر شرم و حیا ء    کا پیکر  ،    مرکزِمحبت،  علامتِ عزت، مجموعہ  ِ   حسن و سیرت،    کمالِ لحا ظ و مروت،    قربانیوں   کا تسلسل،    اُمیدوں   کی کرن ،       احساسات کا سمندر،    رشتوں ناطوں    کی ڈور،  خوشیوں کا تصور،نسلِ انسانیت کی   بنیاداور  نازک اندام نظر آنے والی  مضبوط چٹان ہے ۔   عورت کو جیسے سمجھانا آسان نہیں ہے ویسے ہی اِس کو سمجھنا بھی       اختیار سے باہر ہے   لیکن  عورتوں کی ہماری زندگی  کے ہر ہر  حصے میں  موجودگی اس بات کی  نشاندہی کررہی ہے    یہ عورت ہی ہے جو  ہر مرد کو   دنیا میں لانے  میں  اپنا کردار ادا کرتی ہے، جس کی گود میں  ہی مرد   کی نشونما ء ہوتی ہے،  جو مرد کی پہلی درسگاہ  سے لیکر  آخرت میں جنت   کی منزل ہے،  جو مرد کی زندگی میں اگر بہن کی صورت میں آتی ہے تو    وقار کی علامت ہے، بیوی بن کر آتی ہے تو وفا  کی ضمانت ہوتی ہے اور جب بیٹی    بنے تو خدا کی رحمت    بن کر اُترتی ہے۔

یہ تصور میراانفرادی  نہیں بلکہ  ہماری، مذہبی ، اخلاقی اور معاشرتی  اساس بھی عورت کو لیکر  ادب و احترام  کی پاسداری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔  تو پھر آخر یہ ماجرا کیا ہے کہ ایک عورت ہی معاشرے کی عام عورتوں کے حقوق  کی علمبردار بن کر کھڑی ہو گئی ہے   اور’ عورت مارچ ‘کے نام پر اُن کی عصمتوں کی دھجیاں اُڑا رہی ہے ؟ عجیب بات یہ ہے کہ حقوق کی جنگ کے بجائے بےحیائی کی اُمنگ کا منظر پیش کیا جا رہا ہے۔   الفاظوں کا چُناؤ ہو یا  نعروں کی گونج،   یہ سب غیر اخلاقی  تو ہےہی ساتھ ساتھ  ذُو  معنی بھی  ہے۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے  کہ     عورت کے نام پر معاشرے  کا اخلاقی استحصال  کیوں کیا جا رہا ہے؟ جبکہ یہ عورت  زندگی بھر حقوق ادا  کرتے نہیں تھکتی     اور اپنے ارد گرد   موجود مردوں کے  دلوں پر راج کرتی ہے۔  نہ جانے دلوں پر راج کرنے والی عورت کو   سڑکوں پر بھٹک کر حقوق مانگنے  کی کیا ضرورت آن پڑی؟  جبکہ یہ عورت تو صفاتی اعتبار سے ایثار و قربانی کی زندہ مثال ہے ۔ زندگی بھر اپنے فرائض کی  ادائیگی کرنے میں خوش اسلوبی سے کاربند رہتے ہوئے پورے خاندان کو   جوڑ کر رکھنے میں کوشاں رہتی ہے ، تو اب ایسا کیا ہوا کہ  جو گھر میں بیٹھ کر عزت سے  مردوں کے  رزق میں برکت کا باعث بنتی تھی  اب   گھر بسانے کے بجائے خود کمانے کے لئے خوار ہونے کو تیار ہے؟

بفضلِ الہیٰ ،  آج بھی  پوری دُنیا میں اگر کسی جگہ مضبوط اور مربوط خاندانی نظام  ملتا ہے تو ممکنہ طور پر پاکستان    ہی سرِ فہرست ہوگا کیونکہ جن معاشروں میں عورت کے حقوق کے نام پر  آوازیں بلند ہوئیں ،    اور چار دیواری کی حرمت  پامال کی گئی اُس  کے نتائج ہمیشہ عورتوں کے حق میں  بربادی کا سامان  بنے۔ عورت   آخر کار گھر کی زینت   سے تبدیل ہو کر  معاشرے میں کاروباری سرگرمیوں   کے لئے اشتہار،  بہلاوے، اور چمک دمک کاسبب بنی۔  کیا  کسی بھی قیمتی  چیز کو سرِ عام    گھمایا  ، پھرا یاجاتا ہے، کیا عورت    کی کوئی   قیمت  نہیں ہے؟          اس کے قیمتی ہونے کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ  ہمارے دین نے اِس کے درجات کو اِتنا بلند کیا کہ  انمول  بنا دیا  ، ارد گرد کےمردوں کو اس کا ولی بنا کر  اس کی حفاظت پر مامور کردیا۔ نہ جانے خود کو محفوظ     رکھنے کے بجائے آزادیءِ نسواں   کے نام پر  معاشرے کے تند و تیز طوفانوں   میں خود کو    تنہا چھوڑ دینے  کا شور کیوں برپا ہے؟   آزادی کے نام پر بے لگامی کی طلب صرف عورت  یا اُس کے گھر کی ہی نہیں  بلکہ پورےمعاشرے کی تباہی اور بربادی ہے۔ اگر آج  عورت نے  اپنی اہمیت ، عظمت اور عصمت کی  لاج نہ  رکھی ، تو   یہ  ‘عورت مارچ ‘ کے حق میں اور خلاف، جتنے بھی احتجاج، ریلیاں اور جلسے جلوس ہو رہے ہیں سب کے سب   عورت ذات کی مستقبل کے اور  دُنیا و آخرت  کے سفر کو اندھیروں   میں ڈال دیں گے۔ کیونکہ  تاریخ گواہ ہے  کہ    عورت گھروں کو بناتی ہے، دلوں کو جوڑتی ہے ، رشتوں کو نبھاتی ہے، اور چوک پر ہمیشہ رسوا ہی ہوتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آخر میں ، میں اپنی زندگی میں آنے والی ہر عورت ذات  کا شکر گزار ہوں کہ  پیدائش سے اب تک میری زندگی  میں اِس نے کسی نا کسی خوبصورت رشتے  کی  صورت میں دُعائیں دیں ،   خوشیاں بکھیریں ،    آسانیاں پیدا کیں ،      مضبوط کیا، اعتماد دیا ،  جس کی  بدولت آج میں  پُرسکون زندگی گزار رہا ہوں۔  خوشیاں احتجاج سے نہیں بلکہ احساس سے ملا کرتی ہیں،   حقوق  کی ادائیگی  جلسے جلوس   سے نہیں  بلکہ فرئض کی سبکدوشی سے  پورے ہوتی ہیں۔  میری دُعا ہے کہ  ہمیں صحیح بات صحیح دِکھنا شروع ہو جائے اور  عورتوں کو  حقوق دِلانے کا  جھانسا دیکر اُن کو تماشا   بننے سے  روکا جائے۔ (آمین)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply