جو تنظیمیں قوم پرستی کے نظریے کی بنیاد پر سرگرم رہتی ہیں ، اکثر دوسرے ان کی نظر میں محب وطن نہیں ٹھہرتے اور وہ ایک کے بعد دوسرا ہدف ، جسے وہ ملک دشمن قرار دیتی ہیں ، تلاش کرتی رہتی ہیں تاکہ نظریاتی ترکش کے تِیر اس پر آزما سکیں ۔ ملک کی سب سے بڑی رفاحی ، سماجی و تہذیبی کہلانے والی تنظیم راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ ( آر ایس ایس) کی مثال لے لیں جسے اپنے اور اپنی تفیلی جماعتوں کے سوا کوئی اور قوم پرست نہیں لگتا ہے ۔ اس کی قوم پرستی کا جو معیار ہے اس پر عمل کرنا سب کے لیے ممکن نہیں ہے ، مثلاً اگر مسلمانوں کو خود کو سنگھ کی نظر میں قوم پرست ثابت کرنا ہے تو انہیں خود کو ہندو کہنا پڑے گا ! سب مسلمان کہاں رہے خود کو ہندو کہنے والے ! ہاں ، اندریش کمار کے پالے ہوئے کچھ باریش کرتا پائجامہ والے ہیں جو یہ کام کرتے ہیں ، اسی لیے وہ قوم پرست مسلمان ہیں ۔ اور باقی کے کروڑوں مسلمان سنگھ کی نظر میں قطعی قوم پرست نہیں ہیں ۔
ان دنوں سنگھ کے نشانے پر کسان ہیں ۔ کسانوں نے مرکزی حکومت کے خلاف احتجاج کا عَلم بلند کر رکھا ہے اور اپنی جائز مانگوں کو منوانے کے لیے مظاہرے پر بیٹھے ہوئے ہیں ، یہ عمل سنگھ کو انارکی نظر آ رہا ہے ۔ سنگھ نے حال ہی میں اپنی سالانہ رپورٹ شائع کی ہے جس میں کسانوں کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔ کسان تحریک کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے سنگھ نے کہا ہے کہ پنجاب میں علیحدگی پسندی پر مشتمل دہشت گردی پھر پیر پسارنے لگی ہے ۔ کسانوں کی تحریک کے بہانے ، خاص طور سے پنجاب میں لوک سبھا انتخاب سے ٹھیک پہلے انارکی پھیلانے کی کوششوں کو پھر سے شروع کیا گیا ہے ۔ دو باتیں قابل غور ہیں ؛ کسانوں کی تحریک صرف پنجاب کے کسانوں کی تحریک نہیں ہے ، اس تحریک میں ہریانہ اور مغربی اترپردیش کے کسان بھی شامل ہیں ، لہٰذا سوال یہ ہے کہ پھر خاص کر پنجاب پر کیوں زور دیا گیا ہے؟ جواب سامنے کا ہے ، پنجاب اور سکھوں کو بدنام کرنا سنگھ اور اس کی طفیلی جماعتوں بشمول بی جے پی کے لیے آسان ہے ۔ پنجاب کبھی خالصتانی دہشت گردی کا مرکز رہا ہے اور بے شمار سکھ اس کی بھینٹ چڑھے ہیں ، اس لیے عام لوگوں کو پنجاب ، سکھ ، دہشت گردی اور خالصتان کے نام پر کسان تحریک سے دور کرنا یا اس کی مخالفت پر آمادہ کرنا سنگھ کو ممکن نظر آ رہا ہے ، ساتھ ہی اسے اور بی جے پی کو الیکشن میں پنجاب سے بہت زیادہ امید نہیں ہے اس لیے پنجاب اور پنجابیوں کو بدنام کرنے کا خطرہ سنگھ مول لے سکتا ہے ۔
دوسری بات یہ کہ سنگھ اور بی جے پی ہریانہ اور یو پی کے مغربی اضلاع کے کسانوں کو ناراض نہیں کرسکتے کہ بی جے پی کو جاٹ کسانوں کے ووٹوں کی ضرورت ہے بھلے وہ ان کے مطالبات پورے نہ کرے ۔ مگر کسان تو سب ساتھ ہیں چاہے وہ پنجاب کے ہوں ، ہریانہ اور یو پی کے یا راجستھان کے ۔ سچ یہی ہے کہ حکومت نے کسانوں کے مطالبات بار بار پیروں تلے روندے ہیں ، انہیں ذلیل کیا ہے اور ان سے کیے گیے وعدے وفا نہیں کیے ہیں ۔ شاید یہ سب اڈانی پریم میں ہے ۔ کسان اس ملک کے اَن داتا ہیں انہیں نہ بہت دنوں تک نظر انداز کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کے مطالبات سرد خانے میں ڈالے جا سکتے ہیں ۔ مزید یہ کہ کسانوں پر انارکی اور آتنک واد پھیلانے کا الزام ملک کے سارے کسانوں کی توہین ہے ، اور سنگھ کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسانوں کی ایسی توہین کرے ۔
سنگھ کی سالانہ رپورٹ چونکہ الیکشن سے کچھ پہلے آئی ہے اس لیے اسے بی جے پی کی الیکشن مہم کا ایک حصہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا ۔ بی جے پی کسانوں کی سننے کو تیار نہیں اور سنگھ کسانوں کی مذمت کر رہی ہے ، یہ انتخابی پروپیگنڈا ہے ۔ سنگھ کی رپورٹ میں کسان تحریک کے علاوہ رام مندر ، منی پور تشدد اور سندیش کھالی واقعہ کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے ۔ رام مندر کے لیے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2024 کو ایودھیا پران پرتشٹھا کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ 22 جنوری 2024 ایک تاریخی موقع تھا جسے کبھی نہیں بھولا جائے گا ۔ یقیناً یہ سال ایک مسجد کی غصب کی گئی زمین پر جبراً مندر بنانے کے لیے سب کو یاد رہے گا ۔
رپورٹ میں سندیش کھالی واقعہ کو آر ایس ایس نے روح کو جھنجھوڑ دینے والا واقعہ قرار دیا ہے ، اور منی پور تشدد پر بھی فکر کا اظہار کیا ہے ۔ لیکن اس ملک میں جو اقلیتوں کے خلاف ان گنت تشدد کے واقعات ہوئے ، مساجد شہید کی گئیں اور گھروں پر بلڈوزر چلائے گئے ، ان پر کچھ نہیں کہا گیا ہے ۔ یہ یک طرفہ اور جانبدارانہ رپورٹ ہے ، کسانوں اور ملک کے عام لوگوں کو چاہیے کہ اسے پڑھ کر مسکرائیں اور بھول جائیں ۔
بشکریہ فیس بک وال

نوٹ:تحریر میں بیان کردہ خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، مکالمہ ویب کا ان سے اتفاق ضروری نہیں اور نہ ہی یہ خیالات ادارے کی پالیسی کا اظہار ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں