کینیڈین فیملی کی بازیابی، سوال تو اٹھتا ہے۔؟عمران خان

کینیڈین شہریوں کی محفوظ بازیابی کے بعد ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کی تحسین و ستائش کے ساتھ ساتھ امریکہ دہشت گردوں کی نقل و حرکت سے متعلق انٹیلی جنس تعاون کو مزید وسیع کرتا، تاہم وہ امریکہ ہی کیا، جو امیدوں کا مان رکھے۔ گرچہ کینیڈین شہریوں کی بازیابی کیلئے 12 اکتوبر کو ہونے والا آپریشن امریکہ کے اپنے کردار پہ سوالیہ نشان ہے کہ پانچ سال تک طالبان کے نرغے میں رہنے والے کینیڈین جوڑے کی افغانستان میں موجودگی کے باوجود امریکہ ان کی رہائی کیلئے کوئی بھی اقدام لینے میں کیوں ناکام رہا اور امریکی انٹیلی جنس نے اس مغوی جوڑے کی افغانستان سے پاکستان منتقلی کا ہی کیوں انتظار کیا۔؟ شادی کے بعد ہنی مون کیلئے اس مغوی جوڑے نے وسطی ایشیائی ریاستوں اور افغانستان کا ہی کیوں انتخاب کیا۔؟ ایسے سوالات کی یقیناً امریکی ذرائع ابلاغ میں کوئی گنجائش نہیں، جبھی تو امریکہ سمیت تمام مغربی میڈیا نے اغواء کی کہانی، کینیڈین جوڑے کے زبانی نشر کرکے طالبان بالخصوص حقانی نیٹ ورک کے ’’مظالم‘‘ پاک افغان سرحد پر طالبان کی ’’آزادانہ‘‘ نقل و حرکت اور امریکہ کے بہتر سے بہترین انٹیلی جنس نظام کو دنیا کے سامنے عیاں کرنے پر ہی اکتفا کیا۔

پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے مطابق امریکی کینیڈین فیملی کو 2012ء میں افغانستان میں اغواء کیا گیا تھا اور انہیں افغانستان میں ہی رکھا گیا تھا۔ امریکی خفیہ ادارے یرغمالیوں کو تلاش کر رہے تھے، گذشتہ روز (12 اکتوبر) مغویوں کو افغانستان سے پاکستان منتقل کیا جارہا تھا اور امریکی خفیہ اداروں نے ہی 11 اکتوبر 2017ء کو ان کی پاکستان منتقلی کی معلومات دیں، جس پر پاک فوج نے انٹیلی جنس بنیاد پر آپریشن کیا اور مغویوں کو بازیاب کرا لیا۔ مغویوں کی بازیابی کا آپریشن کرم ایجنسی کے سرحدی علاقے میں انجام دیا گیا اور اس کارروائی میں اغواء کار مارے گئے۔ اس کارروائی پہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اغوا ہونے والی امریکی خاتون کائیٹلن کولمین اور ان کے شوہر جوشوا بوائل بازیاب ہوگئے، دوران قید کولمین نے تین بچوں کو بھی جنم دیا، تاہم اب یہ سب آزاد ہیں۔ امریکی صدر نے کہا کہ ہم دیگر مغویوں کی بازیابی اور مستقبل کے مشترکہ انسداد دہشت گردی آپریشنز کے لئے بھی اسی طرح کا تعاون اور ٹیم ورک دیکھنے کے لئے پر امید ہیں۔

کینیڈا پہنچنے کے بعد ائیر پورٹ پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے مغوی جوشوا بوائل نے کہا کہ طالبان نے قید کے دوران ان پر تشدد کیا۔ اس کی بیوی کو کئی مرتبہ زیادتی کا نشانہ بنایا اور اس کی بچی طالبان کے تشدد سے دم توڑ گئی۔ اس سے قبل رہائی پانے والی اس فیملی کو جب امریکہ منتقل کرنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے امریکہ جانے سے انکار کر دیا تھا۔ وال سٹریٹ جرنل کے مطابق جوشوا بوائل کے انکار کی وجہ امریکی اداروں سے ان کا خوفزدہ ہونا تھا کہ وہ اس سے تحقیقات کریں گے، تاہم امریکی سیکیورٹی عہدیدار نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ انہیں کسی تفتیش کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ پانچ سال قبل کینیڈین شہری جوشوا نے امریکی شہری کائٹلن کولمین نے شادی کے بعد ہنی مون کیلئے وسطی ایشیائی ریاستوں کی سیر کا رخ کیا۔ تاجکستان، ازبکستان اور کرغزستان کے بعد یہ جوڑا افغانستان آیا۔ ان تینوں ریاستوں کی طرح افغانستان میں بھی انہوں نے سرحدی علاقوں کی سیر کو ضروری سمجھا۔ 2012ء میں افغانستان کے حالات آج کے افغانستان سے زیادہ خطرناک تھے۔ امن و امان کی یہ صورت حال تھی کہ افغان وزیر دفاع نے اسی سال اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا، چونکہ یہ جوڑا امریکہ اور کینیڈا سے تعلق رکھتا ہے، لہٰذا ان سے یہ سوال بیکار ہے کہ اتنے پرخطر حالات میں آپ نے سیر کیلئے یہی ملک کیوں چنا۔؟ دو ہفتے قیام کے بعد اچانک اس جوڑے کے اغواء کی خبر آئی۔ اغواء کی خبر کے بعد اس جوڑے کی بازیابی کی خبر نشر ہوئی، درمیان میں اس مغوی جوڑے سے متعلق کوئی خبر نہ طالبان کی طرف جاری ہوئی اور نہ ہی کسی نشریاتی ادارے کی طرف سے۔ نہ ہی ان کی رہائی کیلئے کوئی تاوان کا مطالبہ سامنے آیا۔ چنانچہ یہ معمہ ہنوز برقرار ہے کہ اغواء کار چاہتے کیا تھے۔؟

امریکہ کا جو انٹیلی جنس نظام ایک دن پہلے پاکستانی سیکیورٹی فورسز کو یہ خبر دے رہا ہے کہ کل یعنی 12 اکتوبر کو مغوی جوڑا افغانستان سے پاکستان منتقل کیا جائے گا، وہی امریکی انٹیلی جنس نظام پانچ سال کے طویل عرصے میں افغانستان کے اندر اس جوڑے کا سراغ لگانے میں کیونکر کامیاب نہ ہوسکا۔؟ اگر امریکی جاسوسی نظام نے اس جوڑے کا پتہ لگا ہی لیا تھا تو انہیں بازیاب کیوں نہیں کرا پایا۔؟ جن دہشت گرد گروہوں کے سامنے امریکہ بہادر اتنا بے بس ہے، وہاں بے چارہ پاکستان کیا کرسکتا ہے کہ جو آلات سے لیکر تربیت تک اور پیسے سے لیکر اسلحہ تک امریکہ کا کاسہ لیس ہے۔؟ امریکہ کے بقول یہ جوڑا حقانی نیٹ ورک کی قید میں تھا۔ یہی امریکہ پاکستان پہ مسلسل دباؤ بھی ڈالے ہوئے ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرے اور اپنی سرزمین سے ان کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کرے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ کینیڈین جوڑا حقانی گروپ کے قبضے میں تھا تو اس لحاظ سے حقانی گروہ کی محفوظ پناہ گاہیں پاکستان سے زیادہ افغانستان میں ثابت ہوتی ہیں، جہاں اس جوڑے کو قید کرکے رکھا گیا تھا۔ تو اس گروہ کے خلاف کارروائی کی ذمہ داری پاکستان سے زیادہ امریکی، نیٹو اور افغان فورسز کی بنتی ہے کہ افغانستان سے ان کے محفوظ ٹھکانے ختم کرے۔

مغوی کینیڈین شہری جوشوا بوائل نے اپنے ملک پہنچ کر جہاں طالبان کے برے سلوک کی تفصیل بتائی، وہاں یہ بھی بتایا کہ انہیں افغانستان کے جس علاقے میں قید رکھا گیا تھا، وہاں کسی عالمی ادارے، کسی این جی او اور حکومت کے کسی ادارے کو کوئی رسائی حاصل نہیں تھی، حالانکہ ان کی اور انکی فیملی کی صحت دیکھ کر ایسا لگتا نہیں تھا کہ اس علاقے میں کوئی این جی او یا کوئی ادارہ کام نہ کر رہا ہو، کیونکہ بقول جوشوا طالبان تو بہت برے تھے، تو ایسی غذا اور آزادی تو دینے سے رہے کہ وہ تین بچوں کے والدین بھی بنیں اور پوری فیملی کی صحت بھی قابل رشک ہو۔ ضرور کوئی امریکی یا مغربی ادارہ ان پہ مہربان رہا ہوگا۔ امریکہ کو یہ بھی وضاحت کرنی چاہیئے کہ دنیا کا جدید ترین جاسوسی اور فوجی نظام ہونے کے باوجود وہ ان علاقوں سے تاحال کوسوں دور کیوں ہیں کہ جن کی نشاندہی رہائی پانے والے جوشوا بوائل نے کی۔ آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ آپریشن سے ایک روز قبل امریکہ نے اس جوڑے کی پاکستان منتقلی کے بارے میں خبردار کیا تھا۔ جوشوا بوائل نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم گاڑی کے اندر بند تھے، جس وقت پاک فوج نے اغواء کاروں کے خلاف کارروائی کی۔ ہم نے اغواء کاروں کے آخری الفاظ یہی سنے کہ ’’مغویوں کو مار دو۔‘‘ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بازیابی کا یہ آپریشن اس وقت انجام پایا جب انہیں افغانستان سے پاکستان منتقل کیا جا رہا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یعنی امریکی اداروں کو یہ ایک روز قبل ہی پتہ چل گیا تھا کہ کل مغویوں کو منتقل کیا جائے گا۔ اتنی مستند خبر تو اغواء کار ہی دے سکتے ہیں۔ جس سے محسوس ہوتا ہے کہ حقانی نیٹ ورک پاک فوج سے رابطے میں ہو یا نہ ہو، مگر امریکہ کے رابطے میں ضرور ہے۔ بازیابی کا یہ آپریشن کرم ایجنسی میں پیش آیا۔ یہ وہی کرم ایجنسی ہے کہ جس کے شہریوں کو سب سے زیادہ دہشت گردانہ حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جہاں سبزی منڈی سے لیکر بازار تک اور امام بارگاہ سے لیکر جلوسوں تک، ہر مقام خودکش حملوں، بم دھماکوں کا نشانہ بنا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کے شہریوں کو دہشت گردی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے جرم میں بھی سینوں پہ گولیاں جھیلنی پڑی ہیں۔ کینیڈین فیملی کی بازیابی کا یہ واقعہ اس امر کی بھی دلالت کرتا ہے کہ غیر ریاستی عناصر کو آج بھی افغانستان سے کرم ایجنسی تک محفوظ رسائی میسر ہے اور ان کے لئے تاحال پاک افغان سرحد کوئی معنی نہیں رکھتی، حالانکہ دہشت گردی کے ہر سانحہ کے بعد یہاں کے شہریوں کو یہ یقین دہانی کرائی جاتی رہی کہ ان کے تحفظ کیلئے اب کڑے انتظامات کئے گئے ہیں اور دہشتگردوں کی راہیں مسدود کر دی گئی ہیں۔ مگر جون ایلیا کا ایک شعر ہے کہ
ہیں دلیلیں تیرے خلاف مگر
سوچتا ہوں تیری حمایت میں

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply