یورپ کا فرینکنسٹائن۔۔۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

اسٹیفن بنڈیرا (Stephen Bandera) نامی پولینڈ کا ایک نوجوان شہری، جو وزیرِ داخلہ کے قتل کی پاداش میں جیل میں اپنی زندگی کے دن گزار رہا تھا ، کہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران جرمنی کے پولینڈ پر حملے کے نتیجے میں بنڈیرا جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوا، روسی اقتدار سے دشمنی اور پالینڈ _ یوکرینین بھائی چارے کی شدتِ خواہش نے بنڈیرا اور ہم خیال کو او یو این ( Organization of Ukrainian Nationalists _ OUN ) جیسی تنظیم کی بنیاد ڈالنے پر اکسایا، اور اسی تنظیم کے جھنڈے تلے بنڈیرا نے خود کو ہٹلر کی خدمت کیلئے وقف کرتے ہوئے، نہ صرف سوویت یونین کے خلاف مقامی سہولت کار کا فریضہ انجام دیا، بلکہ مدعی سست اور گواہ چست والے محاورے کے مطابق یہودیوں کی نسل کشی میں جرمن نازیوں سے بھی دو ہاتھ آگے دکھائی دیا، صرف یوکرائن میں بنڈیرا کے ہاتھوں مرنے والے یہودیوں کی تعداچار ہزار سے زیادہ ہے۔

اس تنظیم کے کارکنوں کو بینڈیریٹس (Banderites ) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، یہ تنظیم آج بھی سیاسی و سماجی شکل میں پولینڈ اور بالخصوص یوکرائن میں موجود ہے، تاریخی طور پر روس اور یورپ کی ” آنکھ مچولی ” میں مغربی طاقتوں نے ہمیشہ روس کے خلاف اسی تنظیم کی خدمات کو ترجیح دی، یوکرائن جب تک سوویت یونین کا حصہ رہا، اس تنظیم کو ریاستی قوت سے مکمل دباؤ اور قابو میں رکھا گیا، مگر سوویت یونین کے سقوط کے بعد سے مذکورہ تنظیم، او یُو این، کے اجتہاد نے زور پکڑا، گزشتہ ستائیس اٹھائیس سالوں کے دوران یوکرائن کے سیاسی اقتدار کو خاص اہمیت حاصل رہی، کہ ایک طرف روس یوکرائن میں اپنی من پسند حکومت کا خواہاں رہتا تو دوسری طرف یورپ بینڈیریٹس کی مدد سے روس مخالف جماعت کی پشت پناہی پر ڈٹا رہتا۔

بالآخر 2014 میں امریکی ایجنسیوں کی مدد سے یوکرائن میں موجود روس دوست، یانوکووچ، کی حکومت کو چلتا کیا گیا، سیاسی و سفارتی سطح پر یہ روس کیلئے یقیناً ایک شرمناک شکست تھی، کہ ایسا کیونکر ممکن ہوپایا کہ دشمن قوتیں آپ کے ہمسایہ و برادر ملک میں نہ صرف اپنے قدم جما پائیں، بلکہ آپ کی دوست حکومت کا تختہ الٹنے میں کامیاب رہیں؟
مغرب کی اس فتح میں اہم ترین کردار بینڈیریٹس نے ادا کیا کہ مقامی سطح پر، دوسری جنگِ عظیم والے اپنے کردار کو دہرایا، مگر اس بات سے بھی انکار نہیں کہ صدر یانوکووچ کی نا اہل حکومت کی مہربانیوں نے اس کا جواز پیدا کیا، جس سے عوامی رائے کو حکومت کے خلاف استعمال کرنے میں آسانی رہی۔

یوکرائن میں برپا اس تبدیلی، جسے مقامی لوگ انقلاب سے تعبیر کرتے ہیں ، کا اہم اور نازک ترین پہلو کریمیا کی جغرافیائی اہمیت سے وابستہ تھا، یہ نیم جزیرائی خطہ جس پر اٹھارویں صدی میں روس نے ترکوں کو شکست دینے کے بعد قبضہ جمایا تھا، بحرِ اسود سے جڑے ہونے کے باعث غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا، کریمیا کے سمندری پورٹ درحقیقت روس کی سب سے مضبوط سمندری طاقت کی علامت بن کے ابھرے، اور یہی وہ خوف تھا، اور ہے، جس سے یورپ دفاعی میدان میں روس سے خوفزدہ رہا، سوویت یونین کے دور میں، 1954 میں روس نے اس جزیرے کے انتظامی امور یوکرائن کے حوالے کر دیئے، کہ یہ خطے ایک ہی ریاست کے حصے تھے، 1991 میں سوویت یونین کے سقوط کے بعد کریمیا اگرچہ یوکرائن کا حصہ کہلایا، مگر بحری پورٹ، افواج و دیگر دفاعی معاملات پر روس کے حقوق تسلیم کئے گئے، اس پر بے شمار معائدے بھی سامنے آتے رہے، مگر 2014 میں یوکرائن میں انقلاب ، جو کہ انتہائی دائیں بازؤں اور مغربی طاقتوں کا مرہونِ منت تھا، کے نتیجے میں نیٹو فورسز کو بحرِ اسود تک رسائی دینے کے ساتھ ساتھ، یوکرائن کی طرف سے کریمیا میں موجود روسی بحری طاقت کو پیچھے دھکیلتے ہوئے، نیٹو کی صورت میں متبادل کیلئے راہیں تراشنے کا سلسلہ بھی شروع ہوا ، دنیا کی تاریخ میں یہ ایک نازک اور خطرناک مرحلہ تھا کہ تجزیہ کرنے والے ارسطو کچھ نہ سمجھ پا رہے تھے کہ آگے کیا ہونے جا رہا ہے، اور پھر وہ ہوا کہ جس کی امید شاید کسی کو بھی نہ تھی، کسی قسم کا سفارتی انتظار کئے بغیر روس نے آگے بڑھتے ہوئے پورے کریمیا کو اپنے قبضے میں لے لیا، اور اگلے ہی مہینے کریمیا میں ریفرنڈم کراتے ہوئے ،بظاہر اخلاقی فتح بھی اپنے نام کر ڈالی، اس معاملے کو ، کریمیا کی واپسی، جیسے خوبصورت الفاظ کا ٹائٹل دیا گیا۔

دو معاملات کو لے کر روس کے خلاف پابندیوں کی فہرست تیار کی گئی، ایک کریمیا پہ قبضہ، دوسرا شام میں بشار الاسد کی پشت پناہی کرتے ہوئے، تمام مخالف قوتوں، بشمول امریکہ، کو ناکوں چنے چبوانے کا کٹھن کام، روس کی اس دیدہ دلیری پر معاشی پابندیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا، جس کی روس کو انتہائی بھاری قیمت چکانی پڑ رہی ہے، امریکی قوتیں ہر قیمت روس کو گھنٹے ٹیکتا دیکھنا چاہتی ہیں، اس مقصد کیلئے جس بندوق کو استعمال کیا جا رہا ہے، وہ یوکرائن ہے، اور یہ بندوق یورپ کے کندھے پر رکھ کر چلائی جا رہی ہے، یہاں یورپ کے اس نفسیاتی خوف کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے کہ روس جیسی خوفناک طاقت ایک ریچھ کی صورت میں یورپ کے سر پر مسلّط ہے، نیٹو کی تخلیق کے پیچھے بھی یہی عوامل کارفرما تھے۔
روس کو معاشی طور پر پچھلے قدموں پر دھکیلے جانے کا سلسلہ نہ صرف جاری ہے، بلکہ اب یہ ایک خطرناک مرحلے میں داخل ہوتا دکھائی دیتا ہے، کہ انتہائی کونے میں دھکیلنے کے بعد بھی بلّی کے ساتھ خرمستی جاری رکھی گئی تو راہ نہ پاتے ہوئے بلی کیلئے جوابی حملے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، اس کیفیت کو جرمنی اور فرانس بہت حد تک سمجھ چکے ہیں، اور روس کے ساتھ جزوی معاشی تعاون اور خطے میں امریکی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار ان ممالک کی طرف سے سامنے آتا رہتا ہے،

Advertisements
julia rana solicitors

اس معاملے کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دو دن قبل روس نے دنیا سے الگ اپنے انٹرنیٹ کے نظام کا تعارفی مرحلہ شروع کیا، یہ اس بات کا عندیہ ہے کہ روس عالمی تنہائی کے مقابلے کیلئے خود کو تیار کر رہا ہے، ساتھ ساتھ معاشی معاملات کی بہتری کیلئے چین، ترکی اور سعودی عرب جیسے ممالک کی طرف دوستانہ مصافحے پر آمادگی کے اشارے دیتا دکھائی دیتا ہے۔
اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان یوکرائن کا ہوا اور ہو رہا ہے، کہ یوکرائن نے روس کو اپنا دشمن بناتے ہوئے نہ صرف اپنے دفاع کو غیر محفوظ بنا لیا، بلکہ زرعی و اقتصادی مشینری سے بھی ہاتھ دھونے پڑ گئے، اور یہ سب کچھ مغرب کی طرف سے کیے گئے ان وعدوں کی بدولت ممکن ہوا، جن میں سے ایک بھی وفا کی منزل تک پہنچتا دکھائی نہیں دیتا، یوکرائن کو یہ جھانسا دیا گیا کہ روس کے خلاف تعاون کے نتیجے میں نہ صرف نیٹو کی ممبرشپ، بلکہ یوکرائن کو یورپی یونین میں بھی شامل کیا جائے گا، جس سے دفاعی و معاشی طور پر یوکرائن دنیا کے صفِ اول کے ممالک میں شامل ہو سکے گا، مگر ایسا کچھ بھی نہ ہو سکا، درحقیقت یوکرائن میں فاشسٹ جماعت کو اقتدار دے کر سب سے پہلے عوام کے ساتھ دھوکہ کیا گیا کہ اس اشرافیہ کا کام ریاستی اداروں کو لوٹ مار کیلئے استعمال کرنا ہے، اپنے گھناؤنے عزائم کیلئے ملک کو ایک اندرونی خانہ جنگی کی طرف دھکیلا گیا، انفراسٹرکچر کو تباہ کرتے ہوئے بے روزگاری اور جرائم کی آبیاری کی گئی، خاندان کو پالنے کیلئے اس وقت صنعتِ جنس کے علاوہ یوکرائن کے پاس اور کوئی جنس موجود نہیں، لگ بھگ پانچ کروڑ افراد کا بوجھ اٹھانے سے یورپ کترا رہا ہے، اور شاید معاشی طور پر یہ آسان بھی نہ ہو، امید یہی لگائی جا رہی ہے کہ شاید یوکرائن اپنے بڑے بھائی روس کے ساتھ تعلقات کو نئے سرے سے استوار کرتے ہوئے مغرب کی جان بخشی کر دے، کہ یورپ کا رویہ واضح بتا رہا ہے کہ انہوں نے پہلے خود ہی اس دیو کی تخلیق کی، اور اب خود اس دیو سے محفوظ نہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply