اناڑیوں کے دیس سے

اُس کے کان تو بس سیٹی کی آواز سُننے کوا تاولے ہوئے پڑے تھے ۔ حالت یہ تھی کہ بس چلے تو وہ لوہے کے پہیوں کو خود ہی زور بازو سے گھما ڈالے ۔ ٹرین کا ہی نہیں اکیلے سفر کا بھی اُسکا یہ پہلا تجربہ تھا۔ ٹین ایج کی عمر کے اچھوتے تجربات کاجنوں نشہ بنے اُس پر تازہ تازہ ہی تو چڑھا تھا۔ عمر کے تیرہویں سال کو ابھی دو مہینے بھی پورے نہ ہوئے تھے ۔لڑکا خوش تھا کہ اُسے ٹرین میں پسند کی سیٹ بھی مِل گئی۔ ایک ڈیل ڈول والا بھاری سا آدمی اُس کے پاس آیا اور پیار سے بولا "پُتر او سامنے نلکے توں اے بوتل پانی دی تے بھر لیا" ۔ لڑکے نے بس ایک نظر اُ س ہرکولیس نما پر ڈالی ا ور بوتل پکڑے ٹرین سے اُتر گیا ۔ نل سے پانی بھرنےکے دوران سیٹی بھی بج گئی۔ وہ بھاگتا ہوا واپس گاڑی پر چڑھا۔ پہلوان جی سکون سے سیٹ پر بیٹھے تھے۔ لڑکے نے اُسے پانی کی بوتل دی اور ادب سے سیٹ خالی کرنے کو کہا۔ پہلوان جی نے تو سُنی ان سُنی کر دی ۔دوسری بار یہی فریاد کی گئی تو بولے پُتر اج اِینی گرمی تے نئی خورے کیوں تیرا دماغ گھم پیا اے ۔ لے دس اوئے منڈیا کدے کوئی بیٹھیا بندہ سیٹ توں اُٹھیا کدے ۔ یہ جواب سُن کی لڑکا ہکا بکا رہ گیا ۔ ننھی سی جان اور پہلا سفر وہ لب سیئے خاموش ہورہا۔ ٹرین آہستہ آہستہ سپیڈ پکڑتے ہوئے اسٹیشن چھوڑ رہی تھی اور لڑکے کا یہ پہلا سفر آغاز میں ہی کانٹا بدل کر اردو سے انگریزی کی پٹری پر آگیا۔ اُس لڑکے کے تلوؤں تلے دہکتا کوئلہ رکھ کر پہلوان جی گدھے گھوڑوں کا سودا کئے خراٹوں کے دیس کی سیر کو نِکل پڑے ۔ اُدھرکھڑکی سے باہر منظر بدلتے رہے ۔ درخت ، لہلہاتی فصلیں ، پھول یا پھلوں سے لدے درخت الٹے پاؤں بھاگتے ہوئے دور کہیں پیچھے رہتے گئے ۔ مگر لڑکے کا یہ سفرکٹنے سے زیادہ اندر ہی اندر اُسے کاٹتا گُزر رہا تھا۔
ایک دم سے کُچھ شور سا اُٹھا ، بلند ہوا اور پہلوان جی بھی گہری نیند سے ہڑ بڑا کر اُٹھ بیٹھے۔ "پہلوان جی تواڈا تھیلہ ٹرین توں باہر ڈِگ پیا اے زنجیر کھِچو ، زنجیر کھِچو ، پہلوان جی زنجیر کچھِو "۔ پہلوان جی کو یکدم سے دھچکا لگا مگر اگلا لمحہ ضائع کئے بغیر اُنہوں نے زنجیر کھینج ڈالی۔ بہت سے لوگ ٹرین سے اُترے دو چار لونڈے دوڑ ے ہوئے گئے اور کُچھ دور پڑا پہلوان جی کا تھیلہ بھی اُٹھا لے آئے ۔ اس دوران وہ لڑکا دروازے تک تو آیا مگر ٹرین سے نیچے نہ اُترا۔ کُچھ دیر بعد ٹکٹ چیکر بھی آگئے اور زنجیر کھینچنے والے کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے پہلوان جی تک پہنچ گئے ۔ بظاہر سادہ سا لگتا ہوا معاملہ کُچھ اور ہی نِکلا ۔ پِچھلے کُچھ عرصے سے یہی کُچھ ہورہا تھا ۔ اس ٹرین کے نام سے جُڑے نان سٹاپ کے درمیان کوئی کم بخت نقطہ ڈالے جا رہا تھالگائے جا رہا تھا ۔ کئی روز سے اسی جگہ کے آس پاس زنجیر کھینچ کر ٹرین رکوائی جا رہی تھی باالٓخر شرارت کرنے والا قابو میں آہی گیا تھا ۔ پہلوان جی پر تو ٹکٹ چیکرز نے خوب غصہ نکالا۔کُچھ دیر تو اکھاڑے میں نکالے گئے ڈنڈ اور کسرت سے چوڑی کی چھاتی کا رعب صفر بٹا صفر نتیجہ دیتا نظر آیا پھِر دھوبی پٹکے سے لیکر درزی کے اوور لاک تک قسم کے داؤ زبانی طور پر آزمائے گئے اور یوں دنگل کا شیر قانون کے ہاتھوں ڈھیر ہونے سے بچ گیا۔ جرمانہ تو نہ ہوا مگر پوری ٹرین میں پہلوان جی کی تھو تھو خوب ہوئی ۔
انجن کی غصیلی آواز ایک بار پھر سے فضا میں گونجی سب لوگ پھر سے اپنی سیٹوں پر آن بیٹھے اور چھک چھک چھک منزل کی طرف رواں ہوگئے ۔ جو گرم کوئلہ سفر کے آغاز میں پہلوان نے اُس بیچارے لڑکے کے تلیوں تلے رکھا تھا وہی باقی ماندہ ر رستے پہلوان جی کی کھوپڑی کو سلگاتا رہا۔ وہ یہ سوچتے رہے کہ ڈبے کے عین درمیان والی سیٹ سے اُن کا تھیلہ سِرکتا ہو ا ٹرین کے دروازے تک پہنچا تو پہنچا کیسے ؟ مگر مضبوط جسم کا کمزور ذہن اس معمے کو حل کرنے میں ناکام رہا۔ جس راز کو پہلوان جی نہ پا سکے وہ لڑکا خوب جا ن گیا تھا ۔ ٹرین رُکنے کے شور میں وہ دو آنکھیں تھیں جو اُسے اشاروں ہی اشاروں میں سب سمجھاگئیں اِس معاملے کی گتھی سلجھا گئیں تھیں۔ آنکھو ہی آنکھوں میں کہانی سُنا تا ہاتھ ہلاتا ہوا وہ بڑی خاموشی سے غائب ہوگیا۔ لڑکا اُس بندے کے کھیلے کھیل سے بہت خوش ہوا ۔ پہلوان کو پھنسا کر خود نکل جانے والے کو وہ دِل ہی دِل میں دُعائیں دینے لگا ۔ اپنا ہمددرد۔اُسے چکمہ دے کر نِکل جانے والا اپنا ہیرو لگنے لگا ۔ حقیقت میں وہ کوئی ہوشیار چالاک ڈرامے باز قِسم کا آدمی تھا جو تواتر سے یہی حرکت کر تا رہا تھا ۔ وہ بغیر ٹکٹ کے ٹرین پر سوار ہوتا اِسی جگہ کے آس پاس زنجیر کھینچ کر نان سٹاپ ٹرین کو روکتا یا کِسی اور سے رکواتااور چُپکے سے منظر سے غائب ہو جاتا ۔اُس کی نوسر بازی سے حکا م تنگ تھے مگر اُسے پکڑ لینے میں یکسر ناکام رہے ۔ہاتھ آئے تو بھی تو لو ہا چبا لینے والے پہلوان جی ۔ بس پھر کیا ہوا چالا ک کو قانون پکڑ نہ سکا اور طاقتور سے ٹکر نہ سکا ۔ طاقت اور چالاکی کے درمیان ہوئے کھیل میں ہارنے والا کوئی نہ تھا اور بس قانون ۔۔جب جب نظر پڑی چالاک چمار چمکاٹو کو لاٹو کی طرح قانون گھماتے دیکھا اور دوسری طرف پہلوان پر اِسی قانون کو لٹو ہوتے دیکھا۔ خشونت سنگھ نے تقسیم کے دِنوں پر "ٹرین ٹو پاکستان " لکھی تھی ۔اس کے بعد اس چلتی ٹرین میں جوہوا اور ہوتا رہا وہ " ٹرین ان پاکستان " کے نام سے ہمیں ہی سُنانا ہے ۔
ٹرین کا وہ پہلا سفر کرنے والا لڑکا آج اپنے ، دھوپ میں پگھلائے گئے اور ٹھٹھرا دینے والی سرد بارشوں میں نہلا ئے گئے سفید ہوئے بالوں کو نچوڑ کر زندگی کا تجربہ کُچھ اِن الفاظ میں بیان کرتا ہے
پیوستہ رہ اس " شجر ممنوعہ "سے اُمید بہار کِسی اور کے لئے رکھ۔
نیم کے اُبلے پتوں کے گھونٹ جیسی اِس کڑی بات کی کڑواہٹ کم کرنے کو انار کا جوس پینے کو من چاہ رہا ہے ۔ کہاں انار اور کہاں بیمار غریب کی جیب ۔ چلئے مُنہ کا ذ ائقہ بدلنے کو ایک فائیو سٹار ہوٹل کر رُخ کرتے ہیں ۔ جہاں ایک سیٹھ ڈِنر کرنے آیا ہے جبکہ ایک سادہ لوح لوح اُسے ڈھونڈتا ہوا سیٹھ کو اُس کا بٹوہ لوٹانے وہا ں پہنچ جاتا ہے ۔
جی آپ یہاں ہیں ؟
آپ ہی کی تلاش میں ، میں یہاں آیا ہوں
میری تلاش میں ؟
یہ حالت کیا بنا رکھی ہے
وہ آپ کا یہ بٹو ہ گر گیا تھا میں نے آپ کو بہت آوازیں دیں ۔ پر آپ نے سُنا ہی نہیں
اِتنے میں آس پاس کے غنڈے یہ بٹوہ چھیننے کے لئے میرے گِرد ہوگئے میرے کپڑے پھاڑ دئے اور میری یہ حالت بنا دی۔ پر شُکر ہے آپ کا بٹوہ تو بچ گیا۔
اچھا جی تو پھر میں چلتا ہوں
سُنو !تمہیں پتا ہے اس بٹوے میں کِتنے روپے ہیں ؟
جی بہت سے روپے ۔۔۔
اور پھِر بھی تُم مُجھے یہ واپس کرنے آئے ہو؟
جی ی ی ہاں
ہں ہں ہاہ
تب تو تُم بالکل اناڑی ہو
دیکھئے اس بٹوے کی وجہ سے لارڈ کے سامنے میری بے عِزتی ہوگئی اور آپ مُجھے اناڑی کہتے ہیں
ہں ہں ھا
بیٹھ جاؤ!بیٹھو
دیکھتے ہو !یہ رنگین زندگی
ہیرے موتی جواہرات سے لدی ہوئی عورتیں، بھڑکیلے قہقہے لگانے والے یہ مرد۔ یہ لوگ سب کون ہیں؟
مُجھے نہیں پتا
یہ وہ لوگ ہیں جِنہیں سڑکو ں پر بٹؤے ملے اور اُنہوں نے لوٹائے نہیں۔
اس فلم کا نام اِس ایک اِشارے سے ہی یاد آجائے گا۔ فِلم میں لتا کی آواز میں ایک گانا تھا جو نوتن اور راجکپور پر فلمایا گیا تھا ۔ جِس کے بول کُچھ یہ تھے
وہ چاند کھِلا ، وہ تارے ہنسے
یہ رات عجب متواری ہے
سمجھنے والے سمجھ گئے ہیں
جو نہ سمجھے ! جو نہ سمجھے !وہ اناڑی ہے ۔
ادارہ شماریات آ ج کل " خردم شماری "کے لئے خالی خانے پُر کرتا پھِر رہا ہے ۔ ناجانے ان خانوں میں ہماری پسند کا خانہ ہے بھی یا نہیں مگر ہمار ا محتاط اندازہ ہے کہ چند سو پہلوان و شاطر کھلاڑی اوربقیہ اناڑی ۔۔کُل مِلا کر بیس کروڑ تو ہو ہی گئے ہیں اب ہم۔ ۔

Facebook Comments

حسیب حیات
ایک پرائیویٹ بنک میں ملازم ہوں اسلام آباد میں رہائش رکھے ہوئے ہوں اور قلم اُٹھانے پر شوق کھینچ لاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply