استاد لے لو استاد/اظہر حسین بھٹی

یہ کسی مشہور فلاسفر کا قول ہے ،شاید رومی نے کہا تھا کہ ایک برا استاد خودکش حملہ آور سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے کیونکہ خودکش حملہ آور زیادہ سے زیادہ چند درجن آدمی کو نقصان پہنچاتا ہے جبکہ ایک غلط استاد نسلیں خراب کر دیتا ہے۔
اگر آج کی بات جائے تو ہمارے اِرد گرد ڈگریوں کی بھرمار ہے، ہر طرف، اِدھر اُدھر سب جگہ پروفیسرز حضرات، پڑھے لکھے اساتذہ، سوٹڈ بوٹڈ ٹائی شائی لگائے گھومتے نظر آتے ہیں مگر جب آپ کانسیپٹ کی بنیاد پر یا اچھی پڑھائی کی تلاش میں نکلتے ہیں تو اچھا پڑھانے والا کوئی نہیں ملتا۔ آپ کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اِس کی وجہ شاید ہر چیز کو کمرشلائزڈ کر دینا ہے۔ بہترین پیش کش مگر حقیقت میں کھوکھلا پن۔
جیسے ہم نے اگر کیک بھی لینا ہو تو کیسے چھان بین کر لیتے ہیں، شکل و صورت اور حلیہ دیکھ کر قیمت طے کرتے ہیں مگر بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہ کیک کی بس شکل ہی ٹھیک تھی ،اندر سے وہ گَل چکا تھا۔ اپنے اصل ذائقہ سے محروم بس اچھی لُک کے ساتھ شو پیس کے طور پر بیکری میں رکھا ہوا تھا بالکل ایسے ہی ہمیں اسکول و کالج میں اچھی پرسنالٹی ،شیو بنی ہوئی اور لش پش ڈریسنگ کیے ہوئے انسان کو دکھا کر داخلہ کروا دیا جاتا ہے کہ یہاں سب فُلی پروفیشنل ہے اور ہمارے اساتذہ ہر لحاظ سے پڑھے لکھے، قابل اور ایسی شخصیت کے مالک ہیں کہ جن سے بچے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔
جبکہ حقیقت میں پڑھانے والا استاد،استاد لگتا ہی نہیں ہے۔ عجیب ڈریسنگ، نیند میں ڈوبی آنکھیں، کلاس میں داخل ہوتا ہے تو بےزاری صاف چھلک رہی ہوتی ہے۔ بچوں سے سلام بھی لیتا ہے تو انتہائی ڈھیلا سا جیسے کسی بہت مجبوری کی تحت سلام کر رہا ہو۔ بات کرے گا تو مایوسی کی کرے گا۔ بچوں کو ڈرائے گا، فیل ہونے کی پیشین گوئیاں کرے گا۔ اُمید نہیں بانٹے گا، سہارا نہیں بنے گا۔
بندہ پوچھے کہ بچے کیوں فیل ہونگے بھئی؟ اور یہ کلاس روم میں صبح صبح ہی مایوسی پھیلانے کیوں آ گئے ہو؟ بجائے اس کے کہ بچے آپ کو دیکھ کر تازہ دم ہوں، اُن میں ہمت آئے، وہ کچھ بڑا کرنے کا سوچیں، وہ مثبت رہیں، ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیں، کچھ کری ایٹیو کرنے کی ٹھانیں مگر آپ نے بچوں کو بھی اپنے جیسا کر لینا ہے۔ اُن میں سستی اور لاپرواہی انڈیلنی ہے۔ ملک و قوم کے بہترین مستقبل کو داؤ پر لگا دینا ہے۔
میں اکثر کہتا ہوں کہ اگر آپ اچھے استاد نہیں بن سکتے تو خدارا اس شعبے سے کوسوں دور رہیں ،ہمارے بچے آپ کے لیے کوئی کھلونا نہیں ہیں یا کوئی کمزور انسان کہ جن پر آپ اپنے اندر کی بیزاری اور کوفت کا ملبہ پھینک سکیں۔ آپ اگر بچوں میں بہتری نہیں لا سکتے تو کوئی اور نوکری کر لیں، ہمارے بچوں پر برے اثرات مت ڈالیں۔
اور میری تمام والدین سے بھی یہی گزارش ہے کہ اپنے بچوں کے انسٹی ٹیوٹس کا باقاعدہ فالواپ لیا کریں۔ اساتذہ سے ملا کریں، کیونکہ آپ کے بچوں کے بہترین اور اچھے مستقبل کا سوال ہے اور اگر مستقبل خراب ہوا تو اِس کے ذمہ دار سب سے پہلے آپ ہونگے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply