• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • انسنی ریٹرز کی عدم موجودگی ، استعمال شدہ اشیاء کا دوبارہ استعمال

انسنی ریٹرز کی عدم موجودگی ، استعمال شدہ اشیاء کا دوبارہ استعمال

یہ اقتدار کی کرسی کا نشہ ہے یا اس صوبے کے بدقسمت عوام کے لیے انگریز دور میں بنائے گئے بیورو کریسی نظام کی برکت یا پھر عوام کو غلام سمجھنے کی حس ، جس کا شکار نہ صرف بیورو کریسی ہے بلکہ اسی نشے میں ہر حکومت بشمول تبدیلی کے نام پر عوام سے ووٹ لینے والے نودولتیے بھی شامل ہیں جو ہر چیز کو صرف ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں۔ انہیں اپنے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ ان کی نظروں کے سامنے عوام کی صحت و جان کیساتھ کھیلا جارہا ہے لیکن اس پر کسی کی توجہ نہیں۔

خیبرپختونخواہ میں پندرہ سو سے زائد ہسپتال ، بی ایچ یو اور طبی مراکز سرکاری ہیں جن میں آنیوالی ادویات ، ڈاکٹروں ، نرسز ، ایڈمنسٹریشن کو دی جانیوالی تنخواہیں بھی اسی غریب عوام کے ٹیکسوں سے حاصل ہوتی ہیں جبکہ صحت کی بنیادی سہولت فراہم کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ عوام یہ ذمہ داری ٹیکس دے کر تو پوری کررہی ہیں لیکن انہی کے ٹیکسوں پر پلنے والے بیورو کریٹ ، حکومتی وزراء نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ صوبے کے بیشتر سرکاری ہسپتالوں کے مختلف وارڈز ، آپریشن تھیٹرز سے استعمال ہو کر واپس نکلنے والے فضلے جن میں استعمال شدہ انجکشن ، ڈرپس ، ٹیسٹ کیلئے استعمال ہونیوالی ٹیوبز شامل ہیں، کو استعمال کے بعد کھلے عام سڑک کنارے پھینکا جارہا ہے۔ بعض مقامات پر لوگ ان چیزوں کو آگ لگا دیتے ہیں جس سے نہ صرف ماحولیاتی آلودگی پھیل رہی ہیں بلکہ ان استعمال شدہ انجکشنز ، ڈرپس اور ٹیوبز جو مختلف بیماریوں میں استعمال ہوئے ہوتے ہیں، کی وجہ سے سانس کی بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔

دوسری طرف پھینکے جانیوالے اس فضلے کو ہیروئن کے عادی افراد ہیروئن کے انجکشن لگانے کیلئے استعمال کرتے ہیں اورمختلف امراض میں مبتلا ہورہے ہیں۔ بعض مقامات پر کم عمر بچے یہی ڈرپس ، انجکشن اور دیگر اشیاء اٹھا کر الگ کرتے ہیں اور پھر مارکیٹ میں بیچ دیتے ہیں، جن سے ان کا روزگار تک چل رہا ہے۔ غربت اور مجبوری کی وجہ سے یہ کام کرنے والے ان معصوم بچوں میں کئی متاثر ہوکر مرچکے ہیں۔ بازاروں کی گندگی کے ڈھیروں سے اٹھنے والے یہ استعمال شدہ انجکشن ، ڈرپس دوبارہ ری سائیکل ہوکر استعمال میں لائے جارہے ہیں یعنی دوبارہ استعمال میں لانے کیلئے اسے عام جگہوں پر صاف کیا جاتا ہے، مارکیٹ میں اس کی دوبارہ پیکنگ ہو جاتی ہے اور پھر ان انجکشن سمیت دیگر اشیاء جو پہلے سے مختلف بیماریوں کیلئے استعمال شدہ ہوتی ہیں، ایک بار پھر ہسپتالوں میں مریضوں کو لگا دی جاتی ہیں اور یوں انجانے میں کئی افراد ایڈز ، کینسر ، ہیپاٹائٹس سمیت متعددی امراض کا شکار ہورہے ہیں۔ بخار کے انجکشن کیلئے آنیوالے افراد اپنے ساتھ سنگین بیماریاں واپس لیکر جارہے ہیں اور عام لوگوں کو اندازہ ہی نہیں کہ انہیں علاج کے نام پر کونسی بیماریاں دی جارہی ہیں۔

سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ان اشیا کو ری سائیکل کرکے مارکیٹ میں دوبارہ پھیلانے والے افراد صرف اپنے چند روپوں کی خاطر نہ صرف پوری انسانیت کا قتل عام کررہے ہیں بلکہ بڑے افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ان چیزوں کی چیکنگ اور مانیٹرنگ کرنے والے سرکاری اداروں کے اہلکار، جن کا کام ان چیزوں کی روک تھام ہے، ان پر آنکھیں بند کرکے بیٹھے ہوئے ہیں بلکہ بعض تو اس حرام خوری کی نہر میں ڈبکیاں بھی لگا رہے ہیں۔

صحت کے شعبے میں تبدیلی کی دعویدار صوبائی حکومت کی کارکردگی کا حال یہ ہے کہ پشاور کے سب سے بڑے ٹیچنگ ہسپتال، لیڈی ریڈنگ میں2014 ء میں ڈیڑھ کروڑ روپے کی لاگت سے انسنی ریٹر نصب کیاگیا تھا۔ فیصل آباد کی کمپنی کی جانب سے لگایا جانے والا یہ انسنی ریٹر تاحال استعمال نہیں کیا جارہا۔ گندگی کے ڈھیر صفائی کرنے والے باہر سڑک کنارے پھینک رہے ہیں لیکن اس کی طرف کسی کی توجہ نہیں۔ صفائی کرنے والوں کو بھی اس گندگی کو مخصوص جگہ پر پھینکنے پر رقم ملتی ہے۔ یہی حال پورے صوبے کے سرکاری ہسپتالوں کا ہے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ بعض ہسپتالوں میں راقم نے ایسے سربراہ بھی دیکھے ہیں جنہیں انسنی ریٹر کے حوالے سے سوال پوچھا گیا تو وہ اپنے عملے سے پوچھنے لگے کہ یہ ہے کیا چیز اور کس لئے استعمال ہوتی ہیں۔ یہی صورتحال تقریبا پورے صوبے کے پرائیویٹ ہسپتالوں کی بھی ہے جن سے نکلنے والا متاثرہ مواد سڑک کنارے جلایا جاتا ہے بلکہ سوات اور دیگر مقامات پر دریا برد کیا جارہا ہے جو ماحولیاتی آلودگی کے ساتھ ساتھ آبی حیات کیلئے بھی خطرناک ہے اور بیماریوں کا باعث بن رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اٹھارھویں ترمیم کے بعد صوبوں کو اختیارات تو مل گئے ہیں لیکن ان اختیارات کو استعمال کرنے کیلئے پالیسی کوئی نہیں بنائی گئی۔ صوبے میں آنے والی حکومتیں صرف اپنے مقصد اور فنڈز حاصل کرنے کیلئے کوشاں رہتی ہیں لیکن ان سنگین مسائل کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہے۔ محکموں میں بیٹھے افراد "جی سر ہو جائیگا" کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور حکمرانوں کو "سب اچھا ہے" بتاتے ہیں اور بند آنکھوں سے فائلوں پر دستخط کرنے والے وزراء ، حکمران صرف کمیشنوں اور ٹھیکوں کے چکر میں لگے ہوئے ہیں لیکن انہیں آنیوالے سنگین مسائل کی طرف توجہ کی نہ تو فرصت ہے اور نہ ہی خیال۔

Facebook Comments

مسرت اللہ جان
مسرت اللہ جان کا تعلق پشاور شہر سے ہے ، شعبہ صحافت سے گذشتہ 16سالوں سے وابستہ ہیں-پشاور یونیورسٹی سے گریجویشن کے بعد ڈویلپمنٹ جرنلزم میں کورس پشاور کے شعبہ صحافت سے مکمل کی- جس میں صوبہ بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی- سارک فیلو بھی رہے اور ایشین کالج آف جرنلزم چنائی میں پاکستان کی نمائندگی کی تاہم پاک بھارت تنازعہ کے باعث مسرت اللہ جان )نیو میڈیا( کا کورس ادھورا چھوڑ کر واپس پاکستان آگئے- مختلف اخبارات سے وابستگی رہی- اس وقت دنیا ٹی وی پشاور بیورو کیساتھ بطور سٹاف رپورٹر کے وابستہ ہیں- بین الاقوامی نیوز ایجنسی آرٹی برلن کیساتھ بطور فری لانسر کے بھی کام کیا جبکہ فرانسیسی فوٹوایجنسی کے لئے بھی خیبر پختونخواہ میں کام کرتے رہے- کراچی کی ویب سائٹ ہماری ویب کیلئے بطور بلاگر/کالم نگار لکھ رہے ہیں- مقامی اخبارات میں بھی کالم / بلاگ لکھتے رہے ہیں-کالم نگاروں کی تنظیم ا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply