چین اپنے سمندروں کے نیچے آبدوزوں کے جنگی میدان میں ابھی پیچھے ہے۔ اس کا زیرِ سمندر بیڑہ ابھی زیادہ شور کرتا ہے اور دشمن آبدوزوں کے شکار کے لئے موزوں نہیں۔ اس کے لئے یہ آبدوزوں کا شکار کرنے والے بحری جہازوں کو تیار کر رہا ہے۔ ساتھ ساتھ مشرقی چائنہ سمندر اور جنوبی چائنہ سمندر میں پانی کے نیچے سنسر نصب کر رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چین اور بحرالکاہل کے بیچ میں جزائر کا جھرمٹ ہے جسے بیجنگ فرسٹ آئی لینڈ چین کہتا ہے۔ یہاں کے دو سو چھوٹے جزائر پر ملکیت کے دعوے چین کے اپنے ہمسائیوں سے تعلقات کو زہرآلود کرتے ہیں۔ قومی تفاخر کا تقاضا ہے کہ چین ان کو کنٹرول کرے۔ اور عالمی سیاست ککا بھی۔ یہ جنوبی چائنہ سمندر کی بہت اہم گزرگاہ تک رسائی دیتے ہیں۔ زمانہ امن میں تو یہ راستہ کئی جگہوں سے کھلا ہے۔ لیکن زمانہ جنگ میں اسے آسانی سے بلاک کیا جا سکتا ہے۔ اور اس کا مطلب چین کو بلاک کر دینا ہو گا۔ اور تمام عظیم اقوام زمانہ امن کو اس وقت کی تیاری کے لئے استعمال کرتی ہیں جب جنگ پھوٹ پڑے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بحرالکاہل تک آزادانہ رسائی تک سب سے پہلے جاپان رکاوٹ ہے۔ چینی بحری جہاز، جو کہ بحیرہ زرد سے نمودار ہوتے ہیں، کوریا کا چکر کاٹتے ہیں، بحیرہ جاپان سے گزرتے ہیں اور پھر بحرالکاہل میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ سمندر جاپان یا روس کے کنٹرول میں ہیں۔ اور اگر کشیدگی کا وقت ہو تو چین کی رسائی ختم ہو سکتی ہے۔
جاپان اور چین کا تنازعہ ایک غیرآباد جزیروں کے جھرمٹ پر ہے جسے جاپان سنکاکو اور چین ڈیایو کہتا ہے۔ جاپان کے ساتھ ایک اور ممکنہ تنازعہ مشرقی چائنہ سمندر کے گیس کے ذخائر پر ہو سکتا ہے۔ بیجنگ نے اس سمندر کے اوپر کے زیادہ تر علاقے کو “Air Defence Identification Zone” قرار دیا ہے۔ یعنی اگر کوئی یہاں سے گزرے تو چین کو مطلع کرے۔ امریکہ اور جاپان اس کو نظرانداز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ ایک ایشو بن سکتا ہے۔
جاپان کے جزیرے اوکیناوا پر امریکہ کی بڑی بیس ہے اور جاپان کے میزائل نصب ہیں۔ شنگھائی سے آنے والے بحری جہاز اس کے قریب سے گزرتے ہیں۔
اوکیناوا سے نیچے تائیوان ہے۔ چین اسے اپنا صوبہ کہتا ہے لیکن یہ امریکی اتحادی ہے اور واشنگٹن اسے ہتھیار فراہم کرتا ہے۔
تائیوان کا سرکاری نام ری پبلک آف چائنہ ہے۔ (چین کا سرکاری نام پیپلز ری پبلک آف چائنہ ہے)۔ اور تائیوان کا دعویٰ پورے چین پر ہے۔ چین کو اس نام سے مسئلہ نہیں کیونکہ اس کے نقطہ نظر سے یہ نام دکھاتا ہے کہ تائیوان الگ ملک نہیں ہے۔
اگر چینی حملہ ہو تو امریکہ تائیوان کا دفاع کرنے کا وعدہ کئے ہوئے ہے جو کہ 1979 میں منظور ہونے والے تائیوان ریلیشن ایکٹ کے تحت ہے۔ لیکن اگر تائیوان مکمل آزادی کا اعلان کر دے تو چین اسے اعلانِ جنگ سمجھے گا اور اس صورت میں امریکہ اس کی مدد نہیں کرے گا۔
چین اور تائیوان دنیا میں سفارتی محاذ کھولے رکھتے ہیں۔ دونوں کی کوشش ہے کہ دوسرے ملک کو تسلیم نہ کیا جائے اور زیادہ تر بیجنگ جیتتا ہے۔ لیکن دنیا میں بائیس ممالک ایسے ہیں جو اس میں تائیوان کے حق میں ہیں۔
چین تائیوان کو حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن عسکری طور پر اس مسئلے کو حل نہیں کر سکتا۔ اس کا طریقہ نرم طاقت کا ہے۔ آپس میں تجارت اور سیاحت کو فروغ دے رہے ہیں۔ اور امید رکھے ہوئے ہیں کہ ایک روز یہ اس کی بانہوں میں آ گرے گا۔ جب اڑمچی میں چین مخالف مظاہرے ہوئے تھے تو چین نے انہیں سختی سے نمٹا تھا لیکن ہانگ کانگ میں ہاتھ ہلکا رکھا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ یہ تشدد تائیوان میں سکرین پر آ جاتا۔ بیجنگ طویل گیم کھیلنے کا صبر رکھتا ہے۔
(جاری ہے)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں