پچھتر سالہ پنچائت/عفیفہ شہوار

امتحانات کی تیاری سے ذرا بیزار ہو کر تھوڑی دیر کیلئے جو سوشل میڈیا کھولا تو جگہ جگہ نئی  حکومت کے آنے کی پوسٹس خالی شاپنگ بیگز کی طرح ادھر اُدھر اڑ رہی تھیں، ان پوسٹو ں  پر عوام کا ردِعمل مجھے پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ جیسا لگا، جو ہر کسی کی شادی پر دیوانہ وار دھمال ڈالنے کو تیار کھڑا ہو اور یہی نہیں جیتنے والے فرماتے ہیں کہ ملک میں بہترین جمہوریت ہے کہ ڈیڑھ سو سے تو زیادہ ٹی وی چینلز ہیں ہمارے پاس ۔ تو گویا ٹی وی چینلز کی موجودگی جمہوریت ہی تو ہے اور ہارنے والے حسب روایت دھاندلی کے رونے دھونے میں لگے ہوۓ ہیں۔

ہمارے ملک میں جیسے ہی حکومت تیسرے سال میں داخل ہوتی ہے تو ملک کی منی پارٹیاں ایکشن میں آ جاتی ہیں،  منی سے مراد mini یعنی چھوٹی اور منی یعنی انگریزی والا money ہے  ۔حیرت اس بات کی ہے کہ اپوزیشن کی وہ پارٹیاں جو آئین کی کتاب ہاتھ میں لے لے کر ہمیں جمہوریت اور ہمارے حقوق پڑھاتی  رہیں، وہی آج ادھر اُدھر سے لوگ اکٹھے کر کے حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی  ہیں اور یہی ٹاٹ میں لگا وہ پیوند ثابت ہوتی  ہیں جو لگنے کے بعد بَھدی ہی نہیں ناکارہ بھی ثابت ہوتی  ہیں ۔ ادھر ادھر سے لوگ اکٹھے کر کے ایک لنگڑی لولی حکومت بنا لینا کیا ناپختگی نہیں ہے ؟ نہ جانے کیوں ہم جمہوری رویوں اور جمہوری روایات کو پروان چڑھنے ہی نہیں دیتے۔

میں نے نویں جماعت کی اُردو کتاب میں ایک سبق “پنچائت” پڑھا تھا جس میں الگو سیٹھ اپنی بزرگ خالہ سے خوشامد اور دھوکے سے اس کی زمین اپنے نام لگوا لیتا ہے اور جیسے ہی ہبہ اس کے نام ہو جاتا ہے وہ اپنی اصلیت دکھانا شروع کر دیتا ہے۔ عوام بھی مجھے وہی بوڑھی خالہ لگ رہی ہے جس کے وسائل کو حکومت اپنی نااہلی کی وجہ سے ضائع کرتی ہے اور ملک کی پنچائت جس میں اپوزیشن اور کچھ اور قوتیں فیصلہ کن پوزیشن میں ہوتی ہیں مزید بے رحمی اور نا انصافی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پھر سے وہی کھیل کھیلتے ہیں جو پہلے کھیلا گیا۔ اگر بوڑھی خالہ اپنی آنکھیں کھلی رکھے اور محض نان نفقے کی خاطر سب کچھ دوسروں کے نام کرنے کی بجائے اپنی زمین کا بہترین استعمال کر کے اپنی زندگی کا اچھا سا بندوبست کر لے اور خود کو دوسروں کا محتاج نہ کرے ، اچھے اور بُرے میں تمیز سیکھ لے اور طوطا چشم رشتوں اور مفاد پرست ، لالچی ، اقتدار کی بھوکی پنچائت کی اصلیت کو سمجھ جائے تو اس کا ہی نہیں بلکہ اس کی آنے والی نسلوں کا بھی بھلا ہو جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آئیے ہم سب عہد کریں کہ ہم اپنے ملک میں الیکشن الیکشن کھیلنا کم کریں اور جمہوری اقدار کو سمجھ کر اصولوں کی سیاست کا خیر مقدم کریں۔ آئیے شخصیت پرستی سے نکل کر نظریات اور مستقبل کو دیکھیں۔ آئیے ہم اپنی اپنی غلطیوں کو تلاش کریں تاکہ ان کو نہ دہرائیں اور گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دینے  کی پالیسی کو خیر باد کہیں ،کہ پھر یہ روایتی سیاست دان ہمارے زخمی پیروں سے الیکشن کے دنوں میں بھنگڑا نہ ڈلوائیں بلکہ ہمارے سامنے اپنے کئے گئے جھوٹے وعدوں ، غلط فیصلوں اور اور ناکام پالیسیوں کیلئے جوابدہ ہوں  اور ہم پر مسلط پچھتر سالہ پنچائت عملی طور پر غیر موثر ہو جائے جو نااہل حکمرانوں کو ہم پر مسلط کرنے کیلئے حالات بناتی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply