انسان کا فریضہ۔۔شاہد محمود

کائنات میں غور و فکر و تدبر سے یہ عقدہ کھلا ہے کہ انسان کا بنیادی فریضہ انفرادی و اجتماعی سطح پہ باہمی ہم آہنگی، بھائی چارے و امن عالم کو فروغ دیتے ہوئے تسخیر کائنات ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ تسخیر کائنات کے بعد اس کے محاصل Benefits کو انسانیت کے لئے کھلا رکھنا ہے۔

ہمارے پیارے اللہ کریم کی تخلیق کردہ اس کائنات کی پستیوں اور بلندیوں، مظاہر فطرت، پہاڑوں، سمندروں، صحراؤں، جنگلوں، دریاؤں، سورج، چاند، ستاروں، رات اور دن کی گردش اور موسموں کے تغیر و تبدل غرض ہر شئے میں مشاہدہ، غور و فکر و تدبر کرنے والی مخلوقات خصوصی طور پر انسان کے لئے کائنات کے سربستہ رازوں تک پہنچنے کے لئے اللہ کریم نے بہت سی نشانیاں رکھی ہیں۔ ان نشانیوں کا مشاہدہ اور ان میں غور و فکر و تدبر کرنے والے فطرت کے ازلی رازوں کو اپنے سامنے آشکار پاتے ہیں اور اس غور و فکر و تدبر کے نتیجے میں تخلیق ِ انسان و تخلیق ِ کائنات کے مقاصد و فطرت کی نفع بخشیاں جب ان کے سامنے بے نقاب یعنی مسخر ہو جاتی ہیں تو انہیں حق الیقین ہو جاتا ہے کہ رب العالمین نے اس سلسلۂ کائنات کو نہ تو بے مقصد پیدا کیا ہے’ اور نہ ہی تخریبی مقاصد کے لئے بنایا ہے۔

پیارے اللہ کریم کے بنائے نظامِ آب رسانی کی بات یو یا شمس و قمر و ستاروں کی کس قدر تعجب انگیز اور حکمت انگیز بات ہے کہ سب مظاہر فطرت باہمی آہنگی سے کائنات میں مخلوق کی نفع رسانی کے لئے کام کرتے ہیں۔ مدوجزر کے سلسلے سے آبی مخلوق کو ہوا کی فراہمی و سمندری پانی کی صفائی سے اس پانی کے بخارات و بادل بننے تک اور پھر فضا کی بلندیوں سے بارش برسا کر اس ایک ہی پانی سے طرح طرح کی روئیدگی‘ پھل‘ پھول‘ اناج وغیرہ ہمارا پیارا اللہ کریم ہی پیدا کرتا ہے جس سے دیگر مخلوقات سمیت انسان و اس کے مال مویشی سب مستفید ہوتے ہیں۔

اس لئے جب انسان پہ فطرت کا کوئی راز مسخر ہو جائے تو اس کا فرض ہے کہ اسے انسانیت و مخلوق کی اجتماعی فلاح و بہبود و نفع رسانی کے لئے استعمال کرے بجائے اس کے کہ اسے اپنی ذات، قبیلے، قوم یا ملک تک محدود کر لے۔ یہی مثبت طرز عمل انسان سے انفرادی و اجتماعی سطح پہ Required ہے اور اسی میں انسانیت کی فلاح و بقا کا راز مضمر ہے۔ اس کا عملی مفہوم یہ ہے کہ تسخیر کائنات کے سفر میں حاصل کردہ (اللہ کریم کی طرف سے عطاء کردہ) صلاحیتوں اور فطرتی وسائل کو ساتھی انسانوں اور مخلوقات کی فلاح و بہبود میں لگا دیں اور لوگوں کی زندگیوں میں دکھوں کے جو اندھیرے ہیں ان کو اپنی خدمت سے اجالوں میں، خوشیوں میں، راحتوں میں بدلنے کی کوشش کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس ضمن میں چند مثالیں:- تسخیر کائنات کے سفر میں پانیوں کی تسخیر، پانیوں کے رخ موڑنا اور اپنے فائدے کے لئے استعمال کرنا۔
ہوا، پانی، سورج اور ایٹم وغیرہ سے توانائی پیدا کرنا اور اس توانائی کا مثبت و منفی استعمال۔
فضاؤں و خلاؤں کی تسخیر اور اس تسخیر کے نتیجے میں حاصل ہونے والے علم و طاقت کا مثبت و منفی استعمال سب ہمارے سامنے کہ باتیں ہیں۔
اسی لئے اقبال رح نے کہا تھا؛
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھِرتے ہیں مارے مارے
میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا!

Facebook Comments

شاہد محمود
میرج اینڈ لیگل کنسلٹنٹ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply