حکایت2:خالہ اور خادم۔۔۔۔۔محمد خان چوہدری

یہ حکایات آئینہ ہیں جس میں جو چاہے اپنے آپ کو دیکھ سکتا ہے کہ ہم سب ایسے ہی ہیں !

چوہدری اشرف المعروف خادم میں کئی شرعی عیب ہو سکتے ہیں لیکن وہ کسی طور  پڑھاکُو   نہیں ہو سکتا۔
ہاں اس کی مطالعہ کرنے کی عادت بے نظیر ہے۔
اس کا باعث اس کا  ننھیال ہی ہو گا۔ ایک تو اسکے نانکے ضرورت سے زیادہ ہیں دوسرے ضرورت سے زیادہ پڑھے لکھے۔ ہر گھر میں فوجی افسر ہو گا۔ نہیں تو پولیس افسر ملے گا، بنک مینجر، محکمہ فوڈ ،کوآپریٹیو سوسائٹی، تعلیم محکمہ مال غرض اس کے ننھیال کی توسیعی رشتہ داری شامل کی جائے تو جرنیل سے ایس ایس پی اور کمشنر سے تحصیلدار تک ہر نوع اور قسم کے سرکاری افسر باافراط موجود ہیں۔ سونے پہ  سہاگہ ہر گھر میں کتابیں، ناول،رسالے ہونا لازم ہے
بیٹھک میں اگر دو کھڑکیاں ہیں تو چار الماریاں کتابوں سے بھری ہوں گی۔ چار پانچ طاقچوں میں رسالے پڑے ہوں گے
ان تمام گھروں میں خادم کا آنا جانا لگا رہتا۔ کبھی ان کے کھُوہ سے آئی  تازہ سبزی دینے، کوئی  سُوٹ شال یا چادر جو فنکشن کے لئے مانگی گئی وہ واپس کرنے، کبھی ادھار پیسے لانے یا لؤٹانے۔ کسی ممانی کو ضروری پیغام دینے جانا ہوتا۔۔
جس گھر میں جاتا آؤ بھگت کے ساتھ وہ کوئی نہ کوئی  کتاب لے کے بیٹھ جاتا۔ جتنی دیر میں اس کو کھلانے کی کوئی  ڈِش بنتی وہ مطالعہ میں مشغول رہتا۔
یہی وجہ تھی کہ میٹرک تک اس نے نصاب میں شامل انگریزی میں سیون انونٹرز، سیون ایڈونچرز، گُلیور ٹریول کے علاوہ
آرتھر ہیلی کی ائیرپورٹ،السٹر میکلین کی گنز آف نیوران ،رابرٹ لُڈلم کے ناول ، ڈاکٹر ژواگو جیسی کتنی کتب پڑھ لی تھیں۔ الف لیلی ہزار داستان سے نسیم حجازی کے ناولوں تک تو وہ گھر میں پڑھ چکا تھا
جس کو بچپن میں پڑوسیوں کے گھر سے تعلیم و تربیت، بچوں کی دنیا اور شمع دہلی میسر تھے اس میں مطالعہ کا ہنر پروان تو چڑھے گا۔
خادم کی کتب بینی کا جوہر اس کی ہر شے کا ” متبادل” سوچنا تھی، الجبرا کی ہر مساوات کو وہ الٹا کے حل کرتا۔
میٹرک میں سائنس لے لی۔ لیکن ٹھوس ، مائع ، گیس کو گیس مائع ٹھوس کرنے کی الجھن میں رہا۔۔
اس نے na2 so4 – cacl اور H2O کو لیب میں HO2- NA4SO2. -CLCA کرنے کے چکر میں ہاتھ جھلسا لئے تھے اسی لئے کالج میں پری میڈکل چھوڑ کے آرٹس گروپ میں ٹرانسفر کرا لیا۔

نصابی کتب میں بھی وہ رٹا لگا کے حرف بحرف یاد کرنے کی بجائے مفہوم سمجھ کے اپنے الفاظ میں لکھنے کی کوشش کرتا۔
ایک دن اکنامکس کی کلاس میں پروفیسر صاحب نے ٹیسٹ لیا۔ طلب اور رسد کی کمی بیشی کا اشیا کی قیمت پر اثر اورافادہ مختتم پر نوٹ لکھنے تھے، کلاس کی اکثریت نے کتاب سے نقل کی۔ خادم نے افادہ مختتم کی خود تشریح لکھی اوررسد و طلب کو اسی میں سمیٹ لیا۔ دو دن تک اس کا نوٹ کلاس میں اکنامکس کے پیریڈ میں زیر بحث رہا
ویسے خادم ہے بھولی روح ! پروفیسر صاحب نے پوچھا ، تم نے کتاب سے کاپی کیوں نہیں  کیا ۔؟
اس نے سر جھکا کے جواب دیا، سر میرے پاس کتاب تھی ہی نہیں ۔۔۔

ایک بار سب دوستوں کو اس نے گنز آف نیوران کی کہانی سنائی۔ اور ہیرو کے گنز کے پیچھے سرنگ میں مواد لگانے اور لفٹ سے بارود باندھنے ، بحری جہازوں کی نقل و حرکت پر درجن بھر غلطیاں نکال دیں۔۔۔
عرصے بعد جب ہم نے لاہور کے الفلاح سینما میں اس کے ساتھ فلم دیکھنے کے بعد اسے داد دی تو شرما کے بولا۔
مجھے تو یاد ہی نہیں ۔۔۔

پڑھنے اور مطالعہ کرنے میں بنیادی فرق یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ نفس مضمون سمجھنے کے لئے اور کہانی کے سسپنس کو جاننے کے لئے پڑھتے ہیں۔ مطالعہ کرنے والا تحریر کی غنا اور الفاظ کی موسیقی بھی انجوائے کرتا ہے !
بچپن میں پہاڑے اسی لئے ردھم میں گا کر یاد کرائے جاتے تھے کہ سُر اور لے میں وزن ہونے سے غلطی نہیں ہوتی۔

انگریزی کے پرچے میں ہمیشہ بیس نمبر کا سوال طویل اقتباس کو اختصار میں لکھنا ہوتا ۔۔ لیکن عبارت کا مفہوم بیان کرنا شرط رہتی۔
خادم کوئی خلائی مخلوق نہیں  تھا ،یہ ہنر ضرور اسے ودیعت تھا لیکن اسے جِلا دینے میں اس کی ایک خالہ کا ہاتھ زیادہ تھا۔۔
خالہ اور بھانجے کا رشتہ قائم کرنا دس کوس کی دوری کو عبور کرنا ہے، مطلب نانی کی نانی، پڑنانی۔ ۔ لکڑنانی تک جا کے خادم کی خالہ ۔۔ خالہ بنتی ۔ لیکن خالہ کا گھر خادم کے گھر سے بس دس گھر دور اور بند گلی کا آخری گھر تھا۔

اس میں داخل ہو کر چھت پہ جائیں، تو تین اطراف میں ملحق چھتیں عبور کرتے سامنے جائیں تو چوتھے گھر میں سیڑھیاں اتر کے محلہ قصاباں میں ہوں گے۔ بائیں ہاتھ پانچ گھروں کی چھت پھلانگ کے اتریں تو محلہ خواجگان ہے۔
دائیں طرف تو تیسرے گھر سے ہوکے باہر نکلیں تو ماتمی ملک فیملی کی گلی کے سامنے مین بازار ہے ۔۔
یہ جغرافیائی سہولت تو سارے اہل محلہ کے بچگان استعمال کرتے ۔ لیکن خادم یہاں پڑاؤ ضرور کرتا تھا۔
خالہ کے ہاں سردیوں میں سیپریٹ چائے کے پانی کی کیتلی چولہے پہ رہتی اور گرمیوں میں لسی کی چٹوری برآمدے میں ہوتی۔ سب سے نایاب شے پچھلے دن کا اخبار ہوتا ۔
خادم کو انکے علاوہ خالہ کے مرحوم سُسر کی روحانی عملیات کی کتابوں سے زیادہ دلچسپی تھی۔ جو سٹور میں لکڑی کے بکسے میں محفوظ تھیں۔ گھر کے کام کاج سے جب بھی فرصت ملتی یا دیگر ننھیال کے گھروں میں آتے جاتے وہ کوشش کرتاکہ ان کتابوں کو پڑھنے کا اسے موقع  ملے۔ خالہ کے لئے یہ بکسہ مؤروثی نشانی تھا۔ کتابوں سے اسے کوئی دلچسپی نہیں  تھی۔ اتنا ضرور تھا کہ وہ انہیں کسی کو لے جانے نہیں  دیتی تھی،
خادم تو خاص بھانجا تھا۔ خالہ کی اکلوتی بیٹی خادم سے چار سال چھوٹی تھی ۔ آنا جانا ہونے سے دونوں مل کے کھیلتے جوان ہو رہے تھے۔
خالہ کی اپنی شادی بہت بے جوڑ ہوئی  تھی۔ میاں جو ابھی تک فوج میں تھے شادی کے وقت اس سے دگنی عمر کے تھے، خالہ کی اپنی والدہ فوت ہوئی  تو ابا نے دوسری شادی کر لی۔ یہ سولہ سال کی ہوئی تو اس کزن سے بیاہ ہو گیا۔
چند سال میاں نے ساتھ رکھا۔ بیٹی پیدا ہوئی  اور مزید اولاد نہ ہونے کا عندیہ ڈاکٹر نے دیا تو خالہ کو گھر چھوڑ گئے۔
خاندان اتنا بڑا کہ مصروفیت رہتی اور ماں بیٹی محفوظ بھی تھیں۔
اب خادم کالج میں تھا ، بیٹی آٹھویں جماعت میں تھی اور خالہ خود چالیس سال سے کم عمر ہوں گی۔۔
خادم نادانستہ طور پہ  خالہ کی بیٹی سے بہت مانوس تھا۔


پچھلی مرتبہ جب بکسے سے عملیات کی کتاب نکالنے خالہ اور خادم سٹور میں گئے تو بکسے کا ڈھکنا تھامے خالہ کی سانسیں
جھکے ہوئے خادم کی گردن پہ پڑیں تو ان میں اچانک آنے والی حدت خادم نے محسوس کی۔ جن سے اس نے اپنے بدن میں لطیف سا تناؤ محسوس کیا۔ کتاب نکال کے وہ سیدھا کھڑا ہوا اور دونوں نے مل کے ڈھکن تھام کے بند کیا تو خادم نے خالہ کی آنکھوں میں عجیب سی سفیدی دیکھی۔۔
اس سے وہ نروس ہو گیا۔ پہلی بار اس نے کتاب ساتھ لے جانے کو کہا ۔۔
خالہ کی آواز بھی کچھ بھرا سی گئی، اس نے خادم کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کے کہا ۔۔
کتاب لے جاؤ ۔ سنبھال کے رکھنا۔ کسی کو دکھانا نہیں ورنہ مجھ پہ  عمل شمل کرانے کی تہمت لگ جائے گی !
ہاں اس میں سے میری کمر کے درد کی فال نکالنا اور اس کے لئے کوئی  دم دارُو ڈھونڈنا۔

Advertisements
julia rana solicitors

خادم کا ہاتھ اپنی کمر پہ  رکھ کے کہا ، یہاں سخت درد رہتا ہے ،خادم ماتھے سے پسینہ صاف کرتے سیڑھیاں چڑھ کے چھت سے ہوتے ۔ پچھلے گھر سے گزرتے گلی میں نکلا تو اسے خوف سا لگا۔ کتاب بغل میں دبائے وہ بوجھل سے قدموں چلتا اپنے گھر پہنچ ہی گیا ۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply