وزیراعظم پاکستان کے نام کھلا خط۔۔افتخار علی خان مغل

جناب عمران احمد خان نیازی صاحب! السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ!
سن عیسوی 2020ء اپنے اختتام کو پہنچا اور ایک نئے سال کا آغاز ہوا۔ ہم ہر سال کے آغاز میں گذشتہ برس کی کامیابیوں اور ناکامیابیوں، تکلیفوں اور آسانیوں کا احاطہ کرتے اگلے سال کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ بحثیت سربراہ مملکت آپ بھی آئندہ کے لیے اپنی منصوبہ بندی کریں گے۔ چند گزارشات ہیں اگر اپنی منصوبہ بندی کے وقت انہیں مدنظر رکھا جائے تو شاید مملکت پاکستان اور اس کے باسیوں کی بہتری ہو سکے:
1- آپ کے اقتدار کے تقریباً اڑھائی سال گزر گئے اس دوران آپ کی ٹیم اپنے کیے گئے وعدے نبھانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ اس میں یقیناً کچھ مجبوریاں، کچھ ناتجربہ کاریاں، کچھ ادراک کی کمی اور کچھ جذباتیت کی کیفیات ہونگی۔ خیر جو وقت گزر جائے اس کو صرف سیکھنے کے لیے یاد کیا جائے تو بہتر ہے ورنہ اس پہ بحث کر کے وقت کو ضائع نہ کیا جائے۔ اگر چند سوالوں کا جواب لکھتے ایک تجزیہ کیا جائے تو شاید بہتر رستہ تلاش کیا جاسکے۔
ا) کیا جو منشور تیار کیا تھا اس میں کوئی کمی رہ گئی تھی؟ اگر ہاں تو اب بہتری کیسے لائی جاسکتی ہے؟ اور کیا وہ بہتری لانے کے لیے جو انسانی وسائل درکار ہیں وہ موجودہ ٹیم میں موجود ہیں؟ اگر نہیں تو ان کی خدمات کیسے ممکن بنائی جائیں؟
ب) پچھلے اڑھائی سال میں آپ کو اپنے طے شدہ یا سوچے گئے منصوبوں میں کہاں کہاں رکاوٹیں آئیں؟ اور ان رکاوٹوں کو عبور کرنے کے لیے آپ نے کیا کیا اقدامات اٹھائے؟ کیا وہ رکاوٹیں آپکی کمزور یا ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے تھیں یا معاشی، یا انسانی وسائل کی ناقص کارکردگی وجہ بنی؟ کیا اب آپ اس میں بہتری کی کوشش کر سکتے ہیں؟ اگر ہاں تو کیا اب حالات، مشکلات اور رکاوٹوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام ممکنہ وسائل دستیاب ہیں؟ اگر نہیں تو اس کے لیے کیا اقدامات کرنے ہونگے؟
پ) کیا ان اڑھائی سالوں میں آپ یا آپ کی جماعت اپنی پاپولیریٹی میں اضافہ کر پائی؟ اگر ہاں تو اس کو کس پیمانے کے تحت ماپا گیا؟ کون سے ایسے اقدامات تھے جس نے پاپولیریٹی میں اضافہ کیا؟ لیکن اگر جواب “نہیں” میں ہے کہ آپ یا آپ کی۔ مقبولیت ( پاپولیریٹی) میں کمی ہوئی ( جو واقعی ہوئی ہے) تو اس کی وجوہات جاننا بہت ضروری ہے؟ کیا آپ عوامی توقعات پہ پورا نہ اتر سکے؟ اگر ایسا ہے تو پھر اب اگلے باقی ماندہ وقت کا استعمال کیسے کرنا ہوگا کہ گذشتہ اڑھائی سالوں کا بھی مداوا ہو اور عوام کو بھی سکھ کا سانس ملے۔ کیا اس بارے سوچ کر کوئی بہتر حل نکالنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی صلاحیتوں کے حامل باصلاحیت افراد آپ کے پاس موجود ہیں؟ اگر ہیں تو ان کی صلاحیتوں سے فائدہ کیسے اٹھایا جا سکتا ہے؟
ج) کیا آپ اپنے طور خود بحثیت عمران خان ایک پاکستانی شہری اپنی کارکردگی سے مطمئن ہیں؟ اگر ہاں تو کیا ایسا تو نہیں کہ آپ کو اپنے اردگرد خوشامدیوں نے سب اچھا کے آگے گھیر رکھا ہے؟ یا کیا آپ نے کوئی ایسی بھی ٹیم بنا رکھی ہے جو آپ کے خوشامدیوں سے ہٹ کر آپ کو ڈائریکٹ پبلک کی رائے اور آپ کی حکومت کے اقدامات کی اصل فیڈ بیک یا ری ایکشن سے آگاہ کر رہی ہو؟ اگر نہیں تو پھر آپ کا مطمئن ہونا محض خوشامدیوں کی چرب زبانی کی وجہ سے ہے۔
ہاں اگر آپ خود اپنی کارکردگی سے مطمئن نہیں تو اس کے بارے کوئی قابل عمل حکمت عملی بنا کر اگلے سالوں میں بہتری لائیں۔
د) کیا جو اقدامات آپ اپوزیشن کے خلاف اٹھا رہے ہیں اس سے آپ مطمئن ہیں؟ کیونکہ اب عام عوام ( جو کل انہیں چور ڈاکو سمجھتے تھے) آج ان سے ہمدردیاں کر رہے ہیں کیونکہ صرف کیس، قید و بند ہو رہی ہیں نہ کچھ ثابت ہو رہا ہے نہ ہی سزائیں۔ تو کیا بہتر نہ ہو گا کہ ایک ایسا احتسابی عمل شروع ہو جس سے ملک میں بہتری بھی آئے اور چور، ڈاکو، کرپٹ افراد خوف کی وجہ سے ہی سہی لیکن کرپشن نہ کر پائیں؟ عوامی حکومت اگر عوام کو بیوقوف سمجھتے اپنے من پسند اقدامات اٹھاتی رہے تو وہ عوام میں اپنی جڑیں نہیں قائم رکھ پاتی، اس لیے وہ اقدامات ہی ہونے چاہیں جو بہتر رزلٹ دیں اور عوام میں مقبول بھی ہوں۔
ر) کیا آپ نے کبھی اپنی ٹیم کی کارکردگی کے ساتھ ان کے اقدامات کی بھی تحقیق کی؟ کیا آپ کو اس بات کا علم ہو سکا کہ آپ کی ٹیم کے بھی کچھ افراد بارے تحقیق کی ضرورت ہے؟ کیونکہ بہت سوں کے خلاف بہت سی ایسی خبریں موجود ہیں جو اگر سچ ہیں تو کل آپ کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہیں اور بدنامی کا بھی باعث بن سکتی ہیں؟
اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ کیا آپ کے نام، عہدے یا آپ کے ساتھ کا کہیں کوئی بے جا یا ناجائز استعمال تو نہیں کر رہا؟ (خود احتسابی سے ہی دوسرے کا احتسابی عمل ممکن ہے)
س) جناب کیا آپ سول یا ملٹری بیوروکریسی، ججز اور اس طرح کے دیگر ذمہ داران کا بھی احتساب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ کیا کوئی سیاستدان سرکاری افسر کی معاونت کے بغیر کرپشن کر سکتا ہے؟ یقیناً نہیں۔ پلیز اگر آپ حقیقی احتساب چاہتے ہیں تو ہر طرح کی بیوروکریسی سے بھی پوچھیں کہ ان کے اثاثہ جات بھی آمدن سے زائد تو نہیں؟ یقیناً اس عمل سے بہت سے پوشیدہ راز کھلیں گے مگر آپ کی مشکلات میں بھی کئی گنا اضافہ ہو گا۔ یہ زندگی ایک بار ملی ہے اور اللہ نے سب سے بڑا عہدہ بھی دیا اگر اس کے ساتھ انصاف کرتے جان بھی جاتی ہے تو سودا فائدے کا ہے گھاٹے کا نہیں۔ جان تو اُسی کی دی ہے اسے وقار اور اس کے راہ پہ چلتے دینے میں کیا ہرج ہے۔
جناب وزیراعظم صاحب اس طرح کے اور بہت سے سوالات
آپ اپنے آپ سے پوچھ سکتے ہیں اور ان کے جوابات آپ کی بہتر سمت راہنمائی کر سکتے ہیں۔ یہ لوگ جو آج آپ کے ساتھ وزارتوں، اور معاونین و مشیران کے مزے لے رہے ہیں یہ کل کسی بھی کوتاہی کی ذمہ داری نہ لیں گے بلکہ ہر اچھے کام کو اپنے اور ہر ناپسندیدہ عمل کو آپ کے کھاتے ڈال کر کسی دوسرے کی گود میں بیٹھ جائیں گے۔ تمام تر کارکردگی کی ذمہ داری اور جواب طلبی آپ کی ہوگی۔ اگر آپ اگلے اڑھائی سالوں کو گزرے برسوں کی طرح رکھتے ہیں تو آپ اللہ تعالٰی کے حضور بھی شرمندہ ہونگے، اور عوام کے غیض و غضب کا بھی سامنا کریں گے۔ لیڈر وہ ہی ہوتا ہے جو اپنے عمل سے اپنے فالورز کو بھی خوشیاں اور سکون دے سکے، اپنے اختیارات کا انصاف کے ساتھ استعمال کر سکے، جبکہ اپنے رب کے حضور پیشگی میں بھی ہچکچاہٹ نہ محسوس کرے۔
یہ سوچیں کہ گزرا وقت جیسا بھی گزرا گزر گیا، آنے والے وقت کو مثالی بنانا ہے۔
نوٹ: یہ بات بہت ضروری ہے کہ اپنی ٹیم اور وسائل کو اگر عوامی مسائل کے حل میں لگا دیں تو ہرروز ایک فوج کو میڈیا پہ بٹھا کہ جھوٹی دلیلیوں اور چرب زبانی سے فضول گفتگو کی اور ان فضول لوگوں کی بھی ضرورت نہ رہے گی۔ کیونکہ عمل اور کارکردگی خود بولتی ہے۔ یہ لوگ کرتے کچھ نہیں لیکن شام کو ٹی وی پہ گالم گلوچ کی محفل کی تیاری خوب کرتے ہیں۔ کارکردگی سے اپنی حکومت کی ترجمانی کرائیں۔
جناب وزیراعظم صاحب! ایسی باتیں ایک مخلص اور نڈر پاکستانی ہی کر سکتا ہے، کسی خوشامدی کی نہ جرات ہوگی نہ ہمت۔ اس لیے ان پہ غور کیجئے گا۔

Facebook Comments